ترکی میں گزرے یادگار ایام کی حسیں یادیں (پانچویں قسط)

25 جون کو انقرہ میں گھومنے گھامنے کا ہمارے پاس پورا دن تھا لیکن اس شہر کا سوائے دارالحکومت ہونے کے اور کوئی ثقافتی ورثہ نہیں ہے جیسا باقی شہروں کا ہے – اس کی اہمیت اسلام آباد کی طرح صرف دارالحکومت کی وجہ سے ہے – ترکی کا قدیم الایام سے دارالخلافہ استنبول ہی رہا ہے اور یورپ کا حصہ ہونے کی وجہ سے تمام ملکی اور بین الاقوامی سرگرمیوں کا مرکز بھی استنبول ہی رہا ہے –

انقرہ کو کسی زمانے میں انگورہ بھی کہتے تھے ، جو غالبآ زبانوں کے اختلاط سے انقرہ بن گیا- پہلی جنگ عظیم میں جب کمال اتا ترک نے اتحادیوں کے ترکی پر قبضہ کرنے کے خواب کو چکنا چور کرکے ترکی اور ترک افواج پر مکمل کنٹرول اور اعتماد حاصل کرنے کے علاوہ خلافت عثمانی کی سلطنت کو بھی تاراج کردیا ، تو اس کے نشانات ، سیاسی ، سفارتی اور نفسیاتی دبدبہ اور اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے دارالخلافہ بھی تبدیل کردیا جو دفاعی لحاظ سے بھی ضروری تھا ، ترکی کے وسط میں بھی واقع تھا اور یورپ کے مقابلے میں اپنے ایشیائی تشخص کو ایک امتیازی حیثیت دلانے کی شعوری کوشش بھی-

یہاں قابل دید صرف میوزیم ہے جس میں ترکی کی تاریخ، تہذیب، جنگ آزادی، سلاطین کے ادوار اور ان کے نوادرات ، جمہوریہ ترکی بننے کے بعد ترکی کی ملکی اور بین الاقو امی سرگرمیوں کا دستاویزی اور تصویری ریکارڈ رکھا گیا ہے –

اس کے اندر اتاترک کا مزار خلق خدا کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے- لوگ فاتحہ، سیلوٹ، خاموشی ، تصاویر بنانے کے ذریعہ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں- ترکی کے باقی تاریخی مقامات کی طرح اس میوزیم میں ٹکٹ نہیں لیا جاتا- سیکیورٹی کا کڑا نظام ہے -ایک خاص مقام سے آگے ، سوائے متعلقہ حکام کی گاڑیوں کے ٹریفک کا داخلہ منع ہے، زائرین کے لیے سیکیورٹی کی اپنی گاڑیاں مفت چلائی جاتی ہیں – تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہاں کم از کم تین چار گھنٹے درکار ہیں وگرنہ آنا جانا ہی ہوتا ہے-

‎کمال اتاترک سے اسلام میں خلافت کے نام سے جذباتی ہونے والے اور اتاترک پر لبرل ازم اور مغربی تہذیب اپنانے اور پھیلانے کی ذمہ داری عائد کرنے والے لوگ خوش نہیں ہیں، خلافت کو ختم کرنے کی وجہ سے وہ اس کے خلاف ہیں – جبکہ خاندان عثمانیہ نے خلافت کے” قرآنی “نام کو اصل میں اپنے خاندان کی حکمرانی کے تسلسل کو جاری رکھنے کے جذ باتی اور سیاسی عمل کا حصہ بنایا تھا – یہ ایسا ہی تھا جیسے بھٹو کا اسلامک سوشلزم ، ضیا الحق کا نظام مصطفی ، اور اب عمران خان کی ریاست مدینہ ہے –

اسلام سے محبت رکھنے والے ہر ملک میں سیاست دان لوگوں کے جذبات کو ان ہی نعروں سے ایکسپلائیٹ کرتے ہیں -، عثمانی خلفاء اپنے اقتدار کو بحال رکھنے کے لیے ، مغرب کے اس قدر مطیع ہوگئے تھے کہ مغربی عیسائیوں نے پوری ترکی پر قبضہ کرنے کے لیے صلیبی جنگیں شروع کر دی تھیں – عثمانی خلیفہ نے جنگ عظیم اوّل میں جرمنی کا اتحادی بن کے ترکی کو ترک مخالف اتحادیوں کے نشانے پر کھڑا کردیا تھا – اس سارے عمل کو اتاترک نے بھانپ لیا تھا، جس نے ترکی کو بچانے کے لئے یقینآ ایک غازیانہ کردار ادا کیا-

قونیہ کی سیر کے دوران ایک لمحہ

‎اس میں کوئی شک نہیں کہ اتاترک نے لوگوں کے مذہبی جذبات کے مغائر بہت سے اسلامی شعائر پر پابندی لگائی تھی لیکن مغربی ملکوں کے متوازی ایسا ڈھانچہ قائم کرلیا، جس نے ہمہ گیر ترقی کی راہ ہموار کی اور آج ترکی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہے –

‎ میں بھی ذاتی طور قدامت پسند ہوں لیکن میری قدامت پسندی کامطلب اللہ کی کتاب اور رسول (ص) کی سنت کو کو سامنے رکھتے ہوئے عصر حاضر کی علمی، سائنسی اور ٹیکنالوجی کی روشنی میں ملکی اور قومی ترقی کی راہیں نکالنا ہے – اس کے برعکس قدامت پسندی کو انتہا پسندی سمجھتا ہوں – رجب طیب اردوان اسی راہ پر گامزن ہے ، جس نے مسلمہ اسلامی شعائر کو بحال اور انتہا پسندی کو لگام ڈالی ہے – اگر اتاترک اپنے وقت میں وہ کچھ نہ کرتا اور اردوان اس زمانے میں یہ نہ کرتا تو ترکی بھی پاکستان کی طرح رینگتا ہی رہتا-

ضیا الحق نے مذہبی جنونیت اور مشرف نے مغربیت کی انتہا کرکے پاکستان کو بھی اسی طرح دوراہے پر کھڑا کردیا تھا – اعتدال کی راہ ہی ترکی اور پاکستان کو دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا سکتی ہے –

‎پہلی عالمی جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ روس مخالف جرمن اتحاد میں شامل رہی۔ ممکنہ فاتحین (برطانیہ، فرانس، روس) نے سلطنتِ عثمانیہ کی بعد از جنگ بندربانٹ کا جو منصوبہ (سائکس پیکو پیکٹ) بنایا ، اس کے تحت بحیرہ روم کو بحیرہ اسود سے ملانے والی آبنائے باسفورس اور استنبول کا قبضہ ، زار روس کو دیا جانا تھا۔خوش قسمتی سے اتاترک کی کمانڈ میں ترکی فوج نے آبنائے باس فورس پر اتحادیوں کا حملہ پسپا کرکے جدید ترکی کو ایک ملک کے طور بچا لیا-

“گیلی پولی” کے مقام پر گھمسان کے رن کے بعد اتحادی فوجوں نے پسپائی اختیار کی- اس مقام پر ترکی ہر سال اپنی فتح کا جشن مناتا ہے اور یہی مصطفی کمال اتاترک اور ترکی کی نشاۃ ثانیہ کا باعث بنا-

‎اگر ترک فوجوں نے اس وقت کمال اتاترک کی لیڈر شپ میں جنگوں کو جیت کر اقتصادی، سائنسی اور صحیح سفارتی راستہ نہ اپنایا ہوتا تو ترکی آج یہ نہ ہوتا جو ہے ، اور اگر اردوان نے اس زمانے کی سفارت کاری اور سیاست کا ادراک کرکے سماجی،سیاسی ، اقتصادی راہ اپنا کر فوجی اقتدار کا راستہ اور غلبہ نہ روکا ہوتا تو ترکی نے دوبارہ “ مرد بیمار “ بن جانا تھا – لیکن اس کےلیے اصلاح کی ابتداءً اپنے کردار سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، جو اردوان نے کر کے دکھائی ، پاکستانی حکمرانوں کو دکھانے کی ضرورت ہے –

‎ہم یہ میوزیم وزٹ کرنے ، تصاویر اور ویڈیو بنانے کے بعد ‎انقرہ قلعہ “ “( Ankara Castle ) دیکھنے چلے گئے جو اس شہرکے ‎وسط میں سب سے اونچی جگہ پر واقع ہے- اس کا 1600 قبل مسیح میں تعمیر ہونا بیان کیا جاتا ہے جس نے غلاٹا ٹاور کی طرح کی کئی سلطنتیں دیکھی ہیں- پورے انقرہ شہر کا نظارہ یہاں سے کیا جاتا ہے جو ہلکے سرخ رنگو ں کی چھتوں سے تخت پوشوں پر بچھے قالین کی طرح لگتا ہے- اسلام آباد کی طرح ہریالی نے اس کے ماحول کو صاف ستھرا بنا رکھا ہے- صرف یہی دو مقام یہاں قابل دید تھے جس کے بعد ہم لوگ واپس فلیٹ میں چلے گئے-بچیاں شام کو بازار کی رونقوں کا نظارہ کرنے نکل گئیں اور میں مولانا روم پر کتاب کے مزے لیتا رہا-

26 جون کو 10 بجے صبح میں پاکستان کے سفیر جناب محمد سائرس سجاد قاضی سے ملنے پاکستانی سفارت خانے چلا گیا، جو ہمارے فلیٹ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا لیکن ٹیکسی والا ٹیکسی والوں کی واردات کی طرح میٹر دوڑانے کے لئے نہ جانے کہاں کہاں گھماتا رہا اور آدھا گھنٹہ لگا دیا – میں نے اس کو ایک جگہ ٹیکسی رو کنے کو کہا، ٹیکسی سے اترا، میٹر کے اٹھارہ لیرا کے بجائے دس لیرا اس کو دیے اور چل دیا – اتفاق کی بات ہے کے چند قدم پر ہی مجھے پاکستانی ہلالی پرچم نظر آیا، سفارت خانے کو فون کرکے اپنے آنے کا بتایا جس کے پروٹوکول افسر نے مجھے باہر سے ریسیو کرکے سفیر کے پاس پہنچایا –

انتہائی نفیس، خوبصورت پر مغز گفتگو کرنے والے شخص نے ترکی پاکستان کی دوستی کی حدود، تعلقات ، تجارتی مسابقتوں اور رقابتوں، قربتوں اور دوریوں کے سفارتی انداز میں اسرار و رموز سمجھائے- انہوں نے کہا ترکی ہمارا بے لوث دوست ہے – فیبرک کی بین الاقوامی تجارت میں ہماری رقابت اور مفادات کا ٹکراؤ اور، غیر قانونی طور یورپ جانے کے لیے پاکستانیوں کا ترکی کی زمین کو استعمال کرنا ہمارے لیے سیریس چیلنج ہے ، لیکن اس سے ترکی کی کشمیر او ر دیگر معاملات میں پاکستانی حمایت میں کوئی فرق نہیں پڑا-

سفیر صاحب نے کہا کہ ہندوستانی لوگ ترکی بہت آتے ہیں بلکہ اپنی شادیاں بھی یہیں کرتے ہیں – دولہا دلہن والے بارات سمیت پورے کے پورے جہاز لے کر یہاں آکر شادیوں کی تقریبات اپنی رسومات کے مطابق کرتے ہیں – یہ میریج یا کلچرل ڈپلومیسی کی چھاپ کی کوشش ہے – سفیر صاحب کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ ترکی سمیت دنیا کے ساتھ تعلقات کا حل پاکستان کی پالیسیوں میں مضمر ہے اور وہیں سے نکل سکتا ہے –

میں نے سفیر کو اپنی کتاب ”میزان زیست” بھی سفارت خانے کے لیے گفٹ کی اور ایک کاپی انقرہ کی کسی مرکزی سرکاری یو نیورسٹی کو گفٹ کرنے کے لیے دی – ایک گھنٹہ کی ملاقات کے بعد میں نے وہیں سے ٹیکسی لی جس نے رہائش تک سات منٹ میں پہنچایا اور بارہ لیرا لیا -اچھے اور برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں ، اس کے بعد پہلے ٹیکسی والے کے خلاف میرا غصہ بھی رفو ہو گیا –

12 بجے ہم لوگ استنبول جانے کے لیے ٹرین سٹیشن پر پہنچے ، جہاں سے دو بجے روانہ ہوگئے- ٹرین میں ہماری سیٹوں کی ترتیب اس کے رخ کے مخالف سمت میں تھی جس وجہ سے سر چکرانے اور متلی آنے لگی – میری سیٹ کے ساتھ انگریزی بولنے والا ایک وجیہہ اور خوش گفتار ترک بیٹھا تھا جس کے ساتھ چار گھنٹے کا معلوماتی اور خوش گوار سفر گزرا – اس نے سب سے پہلے میری درخواست پر میری بیٹیوں کے لئے مقامی ترک مسافروں سے درخواست کرکے ان کی سیٹوں کا باہم تبادلہ کرایا –

دوران گفتگو معلوم ہوا کہ وہ انقرہ پولیس کا چیف رہ چکا ہے اور آج کل کسی انکوائری مشن کا انچارج ہے – ترک لوگ برصغیر کے مسلمانوں ، بالخصوص پاکستانیوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں – وہ سربیا میں اقوام متحدہ کی قانون نافذ کرنے والی فورس کا ممبر بھی رہ چکا تھا ، جہاں اس کا ہندوستان اور پاکستان کی فورسز سے بھی رابطہ رہا- جتنا ہندوستان کی فورسز سے وہ متنفرتھا ، اتنا ہی پاکستانیوں کا مداح تھا –

مجھے اس سے ترکی کے انتظامی، معاشی، زرعی، تعلیمی وغیرہ معاملات سے دلچسپ معلومات حاصل ہوئیں جس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے جس کا اختصار یہ ہے کہ جمہوری حکومت بننے کے بعد ترکی میں زرعی اصلاحات ہوئیں جس کے تحت ہر قابل کار مرد کو زمینیں مفت منتقل ہوئیں ، ترکی طالب علموں کے لیے تعلیم اور ہر شہری کے لیے صحت کی سہولت مفت میسر ہے، ناکارہ، بے سہارا لوگوں کو حکومت گزارے کے لیے ماہوار اتنا گزارہ الاؤنس دیتی ہے جتنا اس کی ضرورت ہو-

مغربی تہذیب کا اثر کم ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا جس کے تحت بالغ مرد و عورت اپنی رضامندی سے جنسی حد بھی عبور کر سکتے ہیں ، جو قابل تعزیت جرم نہیں سمجھا جاتا – ا س سے کم کا چنداں مظاہرہ میں نے پارکوں ، بس اور ٹرین کی انتظار گاہوں بلکہ حسب استطاعت ہر ممکن جگہ پر حتمی حد کے قریب قریب تک ہوتے دیکھا، جس سے پردہ یا برقہ پوش اور بے پردہ عورتیں حسب تو فیق مستفید ہوتی ہیں ، تعداد یورپ جیسی نہیں لیکن انداز ویسا ہی ہوتا ہے-

جمہوری نظام اور فوج کو سیاست سے الگ کرنے پر لوگ بہت خوش ہیں ، ا تاترک کے بے مہار لبرل ازم پر قدغن محدود حد تک زیر تنقید ہے – اردوان کی اصلاحات اور تعمیر و ترقی سے لوگ کافی حد تک مطمئن اور خوش ہیں ، بین الاقوامی معاملات میں مسلم دنیا کی سپورٹ پر عام لوگ فخر محسوس کرتے ہیں – رجعت پسندوں کی تعداد اور اثر و رسوخ کم ہے- حکومت قرآن و سنت کی پیروی کے لیے علم اور حکمت کے جدید تقاضوں کو بلا خوف اپنا رہی ہے – اس شخص کی گفتگو ٹرین کے استنبول پہنچنے تک ختم نہیں ہوئی- لیکن اس کے بعد بھی ہم لوگوں کو اپنی اپنی رہائش گاہ تک پہنچنے میں ایک ہی سمت اور ایک ہی ٹرام پر جانا تھا ، یہ سلسلہ جاری رہنے کے علاوہ ، سوشل میڈیا پر تعلق جاری رکھنے پر اتفاق ہواجس کے لیے ہم نے اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ بھی شئیر کیے، اور سلام ، دعا، خیر خیریت کی حد تک سلسلہ جاری ہے-

شام دیر سے ہم لوگ اپنی رہائش گاہ کے قریب سٹیشن پر اترے – یوں تو استنبول کی رہائشیں پہاڑی پر ہی واقع ہیں لیکن” ششلے “ کے جس ایریا میں ہمارا فلیٹ تھا اس تک پہنچنے کے لیے ایک طرف سے 70 سیڑھیاں اور دوسری طرف سے پتریاٹا جیسی چڑھائی اترنی چڑھنی پڑتی تھی- بلا خیز اپروچ تھی ، لیکن فلیٹ ، اس میں اسباب زیست، طریقہ اور سلیقہ سے رکھے گیے فرنیچر ، کچن ، باتھ، ان میں صفائی قابل رشک تھی- وہاں پہنچ کر طبعیت بحال ہو گئی اور ہم اپنے آپ کو کوئی اعلی یورپی لارڈ سمجھنے لگے –

گھر اصل میں وہی ہوتا ہے جہاں رہنے سے طبعیت شاد باد رہے، یہ ویسی ہی رہائش تھی – ہم نے فیصلہ کیا کہ دن میں صرف ایک بار ہی باہر آنا جانا پڑے، تاکہ فلیٹ کے اندر کی فرحت کو اترائی چڑھائی بے سواد نہ کردے-اس فلیٹ کا ایک ہفتے کا کرایہ 60 ہزار آٹھ سو 30 پاکستانی روپے دینے پڑے ، جو بہت ہی معقول تھا – اس فلیٹ کی اوپر والی منزل میں حسن نامی ، بلڈنگ کے مالک کا نمائندہ اور اس کی بیوی بھی رہتے تھے جو بلڈنگ میں رہنے والے لوگوں کی دیکھ بھال کرتے تھے – میں نے اس سے پوچھا آپ کے بچے کہاں ہیں اس نے معصومیت سے جواب دیا ”ہمارا ایک کتا اور ایک بلی ہے، اوپر بیڈروم میں ہیں-” یہ یورپئین سٹائل کی زندگی ہے- حیرانگی کی بات یہ ہے کہ کتا اور بلی اکٹھے رہتے، کھاتے پیتے اور سوتے تھے – ایک پہلو یہ بھی ہے یورپ کی تصویر کا –

(جاری ہے . . . . )

اس دلچسپ سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے