لندن: ایک حالیہ عالمی مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں لبلبے کے سرطان (پینکریاٹک کینسر) کے مریضوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جس کی کلیدی وجہ لوگوں میں تیزی سے بڑھتا ہوا موٹاپا ہے۔
یہ رپورٹ طبّی تحقیقی جریدے ’’دی لینسٹ گیسٹرو ایٹرولوجی اینڈ ہیپاٹولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے جس میں 195 ممالک سے اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں جن میں 1990 سے لے کر 2017 تک، ستائیس سال کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس مطالعے میں جہاں یہ بات سامنے آئی کہ قولون (بڑی آنت) اور لبلبے کے سرطان سے ہونے والی اموات میں 10 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ستائیس سال کے اسی عرصے میں لبلبے کے سرطان میں مبتلا مریضوں کی تعداد بھی 195,000 سے بڑھ کر 448,000 تک پہنچ چکی ہے جو 130 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔
’’اگر اس دوران آبادی میں اضافے سے بڑھنے والی تعداد مدنظر رکھی جائے، تب بھی لبلبے کے سرطان میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں حقیقی اضافہ 12 فیصد، جبکہ شرحِ اموات میں 10 فیصد اضافہ یقینی طور پر ہوا ہے،‘‘ ڈاکٹر رضا مالک زادہ نے کہا جو جامعہ تہران، ایران میں ادارہ برائے امراضِ انہضام کے ڈائریکٹر اور اس مطالعے کے مرکزی مصنف بھی ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پینکریاٹک کینسر میں مبتلا ہونے اور اس سے مرنے والوں، دونوں کی سب سے زیادہ فیصد تعداد کا تعلق زیادہ آمدن والے ممالک سے ہے۔ ’’لبلبے کا سرطان، دنیا کے مہلک ترین سرطانوں میں شامل ہے جس میں مبتلا ہونے والے 95 فیصد لوگ صرف 5 سال کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں،‘‘ ڈاکٹر رضا نے خبردار کیا۔
دوسری جانب، کولون کینسر کے پھیلاؤ میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اس سے مرنے والوں کی تعداد (پینکریاٹک کینسر کے مقابلے میں) بہت کم ہے۔
نارتھ ویل ہیلتھ کینسر انسٹی ٹیوٹ، لیک سسیکس، نیویارک کے پاکستانی نژاد ڈائریکٹر، ڈاکٹر واصف سیف کے مطابق، لبلبے اور قولون کے سرطان کے بیشتر مریض پہلے ہی سے موٹاپے اور ذیابیطس میں مبتلا تھے۔ یہ تعلق اتنا نمایاں ہے کہ موٹاپے کو لبلبے کے سرطان کی کلیدی وجوہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
اس بارے میں خطرناک بات یہ ہے کہ لبلبے کا سرطان اپنے ابتدائی مراحل میں واضح علامات کا سبب نہیں بنتا، لہذا اس کی تشخیص بھی بہت تاخیر سے ہو پاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں اموات کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ لیکن اگر ’’تمام ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کو یہ شعور و آگہی دینے کی سنجیدہ کوشش کریں کہ وہ تمباکو نوشی سے چھٹکارا پاکر، صحت بخش غذا استعمال کرکے اور اپنے طرزِ زندگی (لائف اسٹائل) میں مثبت تبدیلیاں لاکر معدے اور آنتوں کی رسولیوں (بشمول کینسر) سے بچ سکتے ہیں، تو یہ کہیں بہتر ہوگا،‘‘ ڈاکٹر واصف سیف نے تبصرہ کیا۔