العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی منگل تک انسانی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت کی درخواست پر سماعت کی جس کے بعد انسانی بنیادوں پر ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی گئی۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آج ایک درخواست دائر کی گئی جس میں میاں نوازشریف کی سزا معطلی کی درخواست کو آج ہی سننے کی استدعا کی گئی تھی۔

شہبازشریف نے 11 رکنی اسپیشل میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کو بھی اپنی درخواست کا حصہ بنایا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی ڈویژنل بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت 3 بار وقفہ کیا گیا جس کے بعد عدالت نے سابق وزیراعظم کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عبوری ضمانت پر رہائی کی درخواست منظور کی۔

عدالت نے عبوری ضمانت کے لیے 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا اور ان کی ضمانت منگل تک کے لیے منظور کی۔

[pullquote]نواز شریف کو عارضی ریلیف دیا گیا سزا معطل نہیں کی گئی، فردوس عاشق[/pullquote]

وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آج میاں نواز شریف کو عارضی ریلیف دیا ہے اور طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کی ہے، ان کی سزا معطل نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ منگل 29 اکتوبر کو ہونے والی اسلام آباد ہائیکورٹ کی سماعت میں ہوسکتا ہے اور عدالت ان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید ریلیف دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میاں صاحب کو علاج کےحوالے سے جو ریلیف ملا ہے انہیں اس سےفائدہ اٹھانا چاہیے، منگل کو اس کیس پر تفصیلی بحث ہوگی اور پھر حتمی فیصلہ آنے کے بعد حکومت آئندہ کےلائحہ عمل پر میڈیا کو آگاہ کرے گی۔

سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کواختیار ہے کہ وہ سزا معطل کر سکتی ہے: چیف جسٹس اطہر من اللہ
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ڈویژن بینچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کواختیار ہے کہ وہ سزا معطل کر سکتی ہے لہٰذا ایسی صورت میں یہ معاملات عدالت میں نہیں آنے چاہئیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ ایسی کیا عجلت ہوئی کہ یہ جلد سماعت کی درخواست دائر کی گئی، اس پر شہبازشریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کو معمولی ہارٹ اٹیک ہوا ہے، کل کے بعد ان کی طبیعت مزید خراب ہوئی ہے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔

[pullquote]عدالت نے دوران سماعت اینکر پرسنز کو روسٹرم پر بلالیا[/pullquote]

نوازشریف کی سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اینکرز پرسنز کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بڑی معذرت سے آپ کو بلایا ہے، عدالت نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا، جب ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں تو بات عدلیہ پرآتی ہے، آپ تمام اینکر ہمارے لیے قابل احترام ہیں،کیس بعد میں عدالت آتا ہے لیکن میڈیا ٹرائل پہلےہوجاتاہےجس کا دباؤ عدالت پرآتاہے۔

انہوں نے کہا کہ ججز سے متعلق سوشل میڈیا پران کا ٹرائل شروع ہوجاتا ہے، سمیع ابراہیم نے وثوق سے کہا کہ ڈیل ہو گئی ہے تو کیا وزیراعظم اور عدلیہ اس ڈیل کا حصہ ہیں؟ ہائیکورٹ کے کسی جج تک رسائی نہیں،ایسی باتیں انہیں متنازع بناتی ہیں لہٰذا آپ اس حوالے سے جواب جمع کرا دیں، ہمیں ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ آج کی سماعت کا کیا آرڈر ہو گا۔

[pullquote] ریڑھی والے کی زبان ٹی وی پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے: جسٹس محسن اختر کیانی کا استفسار[/pullquote]

دوران سماعت چئیرمین پیمرا کی جانب سے ان کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ روز پروگرام دیکھتے ہیں، انجوائے کرتےہوں گےکہ عدلیہ پرکیچڑاچھالا جارہاہے، ریڑھی والے کی زبان ٹی وی پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں؟ اس ملک کی تباہی میں ہر ایک کا کردار ہے، آپ بتائیں کہ کیاپیمرا اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہا ہے؟

اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ قرآن پڑھا ہے؟ اس میں حکم ہے کہ سنی سنائی بات آگے نہ پھیلادیں، یہ بات پیمرا کے بارے میں کی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے کل ضمانت دی کیا انہوں نے ڈیل کرلی؟ ہمارے پاس اینکرز کے پروگرام کے ٹرانسکرپٹ کے ساتھ رپورٹ آئی تھی۔

عدالت نے طلب کیے گئے تمام اینکرز سے تحریری جواب طلب کر لیا۔

[pullquote]آدھے گھنٹے میں چیئرمین نیب سے ہدایات لےکر عدالت کو بتائیں: چیف جسٹس کی ہدایت[/pullquote]

اس کے بعد عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو روسٹرم پربلایا گیا اور انہیں جیل قوانین پڑھنے کی ہدایت کی۔

اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ طبی بنیادوں پرضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہیے، یہ حکومت کا اختیار ہے، آپ نے پتہ کیا کہ پنجاب حکومت نے جیل میں تمام بیمار قیدیوں کا معلوم کیا؟ آپ نے میڈیکل بورڈ مقررکیا جس نے کہا کہ نوازشریف کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں بیماری جان لیوا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہدایت کی کہ آدھے گھنٹے میں چیئرمین نیب سے ہدایات لےکر عدالت کو بتائیں، چیئرمین نیب سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ ضمانت کی مخالفت کریں گے یا بیان حلفی جمع کرائیں گے؟

اعلیٰ عدالت نے پنجاب حکومت کے نمائندے کو بھی ہدایت کی کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی پوچھ کر بتائیں کہ وہ ضمانت کی درخواست پرکیا کہتے ہیں؟

اس پر عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا۔

[pullquote]تمام ذمہ داری عدالت کے کندھوں پر نہ ڈالیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ[/pullquote]

نوازشریف کی ضمانت کے لیے شہباز شریف کی درخواست پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی۔

دوران سماعت چیف جسٹس اسلام ہائیکورٹ اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت درخواست ضمانت کی مخالفت کرے گی تو ہم ضمانت مسترد کردیں گے اور اِس دوران نوازشریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار نیب اور حکومت ہوگی، حکومتی وزراء تمام ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنے کے بیان دے رہے ہیں۔

اس دوراب چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس تمام معاملے میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں۔

اس دوران چیف جسٹس اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل میں مکالمہ ہوا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ جذباتی نہ ہوں، صرف مخالفت کریں اور ذمہ داری لیں یا مخالفت نہ کریں، تمام ذمہ داری عدالت کے کندھوں پر نہ ڈالیں، اگر آپ مطمئن ہیں کہ منگل تک نوازشریف کو کچھ نہیں ہوگا تو پھر ذمہ داری لیں۔

اس پر ایک بار پھر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے، اِس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب ہم اس متعلق کوئی دلائل نہیں سنیں گے، صرف ہاں یا نا میں بتائیں۔

سیکریٹری داخلہ نے بھی عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ہم کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتے لہٰذا عدالت درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کرے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ریاست کی ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ ریاست اور صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کے کسی آدمی نے حکومتی ترجمان کو عدالتی فیصلے نہیں دیے کہ وہ اس کوپڑھ کربیانات دیں، آپ قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کیوں نہیں کر رہے، قانون پر عمل درآمد خالصتاً پنجاب حکومت کی ذمہ داری تھی۔

دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایسا کوئی قیدی جس کی جان کو خطرہ ہے، اس کا کیس صوبائی حکومت خود پراسیس کرکے مچلکوں پر ضمانت دے سکتی ہے، نیب کی سزا تو 14 سال قید تک ہوتی ہے مگر سزائے موت کے قیدیوں کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پرضمانت دی جا سکتی ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہدایت کی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے واضح ہدایات لے لیں جس کے لیے ہم مزید آدھےگھنٹےکا وقفہ کر دیتے ہیں۔

ایک بار پھر سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا گیا

[pullquote]وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب اس معاملے پر فیصلہ کریں: چیف جسٹس[/pullquote]

عدالت میں وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت شروع ہوئی، اس دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم وفاقی اور صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کر رہے ہیں لہٰذا وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب اس معاملے پر فیصلہ کریں۔

اس دوران نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے عدالتی فیصلے کی روشنی میں تمام جیلوں میں قید بیمار قیدیوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ سیکریٹری داخلہ متعلقہ صوبائی حکومتوں سے معلومات لے کر دو ہفتوں میں تفصیلی جواب جمع کرائیں۔

اس دوران عدالت نے نواز شریف کی منگل تک انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرلی اور 20، 20 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

عدالتی حکم کے بعد نواز شریف کے ضمانتی مچلکے داخل کرادیے گئے ہیں، محمد سخی عباسی اور عامر شہزاد خان نے 20 ،20 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے میاں نوازشریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کی ہے تاہم ان کی رہائی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی تک ناممکن ہے۔

معلوم رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کو 7 سال قید کی سزا سنا رکھی ہے۔

[pullquote]پس منظر[/pullquote]

نیب لاہور کی حراست میں میاں نوازشریف کی طبیعت 21 اکتوبر کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی، اسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزار رہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔

نوازشریف کو پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے 3 میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے جب کہ ان کے علاج و معالجے کے لیے ایک ڈاکٹر اسلام آباد اور ایک کراچی سے بلایا گیا۔

سابق وزیراعظم کے طبی معائنے کے لیے 11 رکنی اسپیشل میڈیکل بورڈ بنایا گیا ہے جس کے سربراہ سمز کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز ہیں۔

دیگر ارکان میں ڈاکٹر کامران خالد، ڈاکٹر عارف ندیم ،ڈاکٹر فائزہ بشیر، ڈاکٹر خدیجہ عرفان اور ڈاکٹر ثوبیہ قاضی شامل ہیں۔

میڈیکل بورڈ سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ، گیسٹرو انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اسپیشلسٹ اور فزیشن پر مشتمل ہے۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی چوہدری شوگر مل کیس میں بھی ضمانت منظور ہوچکی ہے جب کہ احتساب عدالت کی جانب سے انہیں العزیزیہ ریفرنس میں7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اس میں بھی اب انہیں عبوری ضمانت مل چکی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے