زندانوں کے دروازے کھل گئے۔ نواز شریف کا صبر، استقامت اور مظلومیت‘ رنگ لے آئے۔
ریاستی نظم کو متحرک ہونا پڑا۔ اِس کے سوا، اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن اس المیے کا کیا کیا جائے کہ وہ متحرک ہوا بھی تو بعد از خرابیٔ بسیار۔ سیاسی حرکیات کا ادراک ہوا بھی تو ایک ایسے مرحلے پر جب خرابی کی جڑیں زمین میں اتر چکی تھیں۔ انہیں اکھاڑنا اب آسان نہیں رہا۔ یہ وہ گانٹھ نہیں رہی جو ہاتھوں سے کھل سکے۔ اب اسے دانتوں ہی سے کھولنا پڑے گا۔
نواز شریف کا سب کچھ چھینا جا چکا تھا۔ صرف جان باقی تھی۔ جان کے لالے پڑے تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گے۔ اسے اندازہ ہوا کہ جو لاوا پک چکا، اب بہنے کو ہے۔ خدانخواستہ انہیں کچھ ہوا تو پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں نفرت اور انتقام کی وہ لہر اٹھ سکتی ہے جس کے بعد کسی سر پر تاج کا باقی رہنا مشکل ہو جائے گا۔ یوں نواز شریف کو رہائی دینا پڑی۔ یہ الگ بات کہ ان کے بیمار جسم پر جو چرکے لگائے جا سکتے تھے، اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔
اب خبریں چھن چھن کر باہر آ رہی ہیں۔ خود پنجاب حکومت کا اپنا میڈیکل بورڈ، پانچ بار بتا چکا تھا کہ نواز شریف صاحب کی صحت کا یہ عالم ہے کہ کوئی رسک نہیں لیا جا سکتا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہ اڈیالہ جیل میں تھے۔ اس کے باوجود حکومت میں کوئی انسانی جذبہ نہیں جاگا۔ خان صاحب نے امریکہ میں اعلان کیا کہ واپس جا کر اے سی بھی اتروائوں گا۔ یہی نہیں، ایک اور مقدمہ قائم کر کے قیدی کو گرفتار کیا گیا تا کہ وہ کسی سے مل نہ سکے۔
اس سارے عمل پر ایک نظر ڈالیے۔ کیا سوچ ہے جو اس کے پیچھے کارفرما ہے؟ عوام کی لوٹی ہوئی دولت کی تلاش؟ انصاف؟ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ایک فرد کو ہدف بنانا مقصود ہے اور اسے ہر صورت جیل میں رکھنا ہے۔ جیل میں بھی ایسے کہ کسی سے ملاقات نہ کر پائے۔ اس سارے کھیل کے پس منظر میں کیا کوئی دھڑکتا ہوا دل تلاش کیا جا سکتا ہے؟ کیا انصاف اور ملک دوستی کے کسی جذبے کا سراغ ملتا ہے؟ انتقام کے سوا کیا ہے جسے اس سارے عمل کا جذبۂ محرکہ قرار دیا جائے؟
سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے والا ایک طالب علم بتا سکتا ہے کہ اس رہائی کا پس منظر کیا ہے؟ ریاست کے سب اعضا و جوارح کیسے ایک ساتھ متحرک ہوئے؟ یہ انسانی جذبہ اچانک کیسے بیدار ہوا کہ اے سی اتروانے والے صحت کی دعا اور اس کے لیے احکام جاری کرنے لگے؟ جنہوں نے نواز شریف کی بیماریوں کو ٹھٹھا اور تمسخر کا موضوع بنائے رکھا، ایک دم کیسے متواضع اور مہذب دکھائی دینے لگے؟
یہ اس عوامی دباؤ کا نتیجہ ہے جس کا سامنا کوئی سیاسی نظم نہیں کر سکتا۔ اربابِ اقتدار کو اندازہ ہونے لگا تھا کہ عوامی سطح پر اضطراب ہے۔ زیر زمین لاوا پکنا شروع ہو گیا ہے‘ جو کسی لمحہ زمین کے فرش کو پھاڑ کر باہر آ سکتا ہے۔ کوئی واقعہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا ادراک اگر پہلے ہو جاتا تو یہ ہنگامی صورت حال نہ پیدا ہوتی۔ افسوس یہی ہے کہ پے در پے واقعات کے باوجود یہ ادراک تاخیر سے ہوتا ہے۔ پہلے ہو جاتا تو ہم بہت سے سانحات سے بچ سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ عوامی دباؤ کیسے پیدا ہوا؟
پہلی بات نواز شریف کی عصبیت ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے مقبول عوامی راہنما ہیں۔ یہ عصبیت چالیس سالہ سیاست کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ میں یہ بات تکرار کے ساتھ لکھتا آیا ہوں کہ جب ایک فرد کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ عام آدمی جیسا معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ قانون ایسے فرد کے خلاف اس طرح متحرک نہیں ہو سکتا کہ جیسے وہ عام حالات میں متحرک ہوتا ہے۔
یہاں تو معاملہ اس سے بھی سنگین تر تھا۔ قانون متحرک ہوا بھی تو ایسے کہ اس حرکت کے سامنے ان گنت سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے۔ یہ نشان جے آئی ٹی کی تشکیل سے ارشد ملک صاحب کے بارے میں عدالتی ریمارکس تک، جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ نواز شریف جیسے مقبول عوامی راہنما کو جب ایسے مشکوک احتسابی عمل سے گزار کر سزا دی جائے گی تو عوامی سطح پر سزا کا اعتبار قائم نہیں ہو گا اور یہی ہوا۔ پوسٹ ٹرتھ کے بھرپور استعمال کے باوجود، عام آدمی کی نظر میں، یہ احتساب ایک مشتبہ معاملہ ہے۔ دوسری بات نواز شریف کی استقامت اور جرأت ہے۔ عوام اپنے لیڈر میں جو خوبیاں تلاش کرتے ہیں، ان میں ایک خوبی بہادری ہے۔ عوام اس کے قائل ہیں کہ ”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘۔ نواز شریف نے جھکنے سے انکار کیا۔ ڈیل کو مسترد کیا۔ نواز شریف کی بہادری اور استقامت اب ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس کا انکار وہی کر سکتا ہے جو اپنے آپ سے لڑ سکتا اور اپنے ضمیر کو شکست دے سکتا ہے۔
سیاست اور تاریخ کا ایک طالب علم سمجھ سکتا ہے کہ کیسے نواز شریف کا جیل میں گزرا ہوا ایک ایک دن اُن کے سیاسی قد کاٹھ اور ان کے سیاسی مخالفین کی مشکلات میں اضافہ کر رہا تھا۔ ان کی استقامت ان کی قوت بن رہی تھی اور مخالفین کی کمزوری۔ نواز شریف کی اخلاقی برتری مستحکم ہو رہی تھی اور ان کے سیاسی مخالفین، اقتدار کے باوجود ان کی مقبولیت میں اضافے کو روکنے پر قادر نہیں تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ جیل کا ہر دن ان کی سیاسی غلطیوں کی تلافی کا سامان کر رہا تھا۔
سیاسی عمل ہماری خواہشات یا نظریات کا تابع نہیں ہوتا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی نے ان کے سیاسی زوال کو نہ صرف روک دیا بلکہ انہیں ایک دیومالائی کردار بنا دیا۔ اب ان کو شکست دینا کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ یہ معاملہ نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ گزشتہ دو سال میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے ان کو عام سیاست دانوں کی صف سے اٹھا دیا ہے۔ بھٹو صاحب اور ان میں فرق یہ ہے کہ نواز شریف کو اس جگہ پر اب تا دمِ مرگ کھڑا رہنا ہے۔ ان کو اپنے طرزِ عمل سے اپنے اس مقام کی حفاظت کرنی ہے جو تاریخ نے انہیں عطا کر دیا۔
تیسری بات نواز شریف کی مظلومیت ہے۔ مہذب معاشرہ، المیوں پر جذباتی سطح پر متحرک ہوتا ہے اور اس کا ظاہری خول ٹوٹنے لگتا ہے۔ ظلم کی قبولیت سے انسانی فطرت ابا کرتی ہے۔ حادثہ انسان کو بے چین کرتا ہے اور حادثے کا شکار ہونے والا ہمدردی کا مرکز بن جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو ظلم کا شکار ہوئیں تو پاکستان کے اُن گھروں میں بھی صفِ ماتم بچھ گئی جہاں بھٹو خاندان کے لیے کوئی ہمدردی موجود نہیں تھی۔ عمران خان حادثے سے گزرے تو میں بے اختیار جائے نماز پر کھڑا ہو گیا اور ان کی صحت کے لیے نوافل پڑھنے لگا۔ اس حادثے پر میرا کالم بھی چھپا ہوا ہے۔
کلثوم نواز کی بیماری۔ نواز شریف صاحب کی ان سے جبری دوری اور بیٹی مریم نواز کا دکھ۔ پھر کلثوم نواز صاحبہ کی رحلت۔ اس کے بعد جیل کے دروازوں کا کھلنا اور احتساب کا ایک مشتبہ عمل۔ ان سب باتوں نے ان کی مظلومیت میں اضافہ کیا۔ کسی ریاست کے لیے یہ ممکن نہیں کہ مظلوم کے بارے میں پیدا ہونے والے ہمدردی کے جذبات کا راستہ روک سکے۔
نواز شریف مزاحمت کے پہلے مرحلے میں فاتح ٹھہرے۔ اب ان کے سامنے اگلا مرحلہ ہے: اگر انہیں رہائی ملتی ہے تو وہ علاج کے لیے ملک کا انتخاب کرتے ہیں یا بیرونِ ملک کا۔ وہ دونوں کے لیے اخلاقی جواز رکھتے ہیں؛ تاہم اگر پاکستان میں ان کی بیماری کا علاج اور ضروری سہولتیں موجود ہیں تو انہیں ملک کا انتخاب کرنا چاہیے۔ یہ ان کی دوسری فتح ہو گی اور ان کے مخالفین کی ایک اور شکست۔
اس کہانی میں ایک سبق ہے۔ اگر سیاست و حکومت کے معاملات ان ہاتھوں میں ہوں گے جو سیاسی حرکیات کا فہم رکھتے ہیں نہ سماجیات کا‘ تاریخ سے واقف ہیں نہ انسانی نفسیات سے تو المیوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا رہے گا۔ انسان محض مادی وجود نہیں ہے۔ وہ ایک نفسیاتی، روحانی اور جذباتی وجود بھی ہے۔ اسے صرف لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے انسان فہمی ضروری ہے۔