اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول

ستمبر کے مہینے میں اسلام آباد کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کا باعث آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا لٹریچر فیسٹیول تھا‘ جس نے اسلام آباد کی فضائوں میں تین دن تک خوب رنگ بکھیرے۔ اس خوبصورت روایت کا آغاز 2010 میں کراچی سے ہوا تھا‘ جس کی روح رواں امینہ سید تھیں۔ اس طرح کے ادبی جشن دوسرے ممالک میں تواتر سے ہوتے ہیں‘ جن میں کتابوں اور ادیبوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ بھارت کے شہر جے پور میں ہر سال اس طرح کا کتاب میلہ لگتا ہے۔ جب پاکستان کے شہر کراچی میں لٹریچر فیسٹیول کا آغاز کیا گیا تو اس میں صرف پانچ ہزار لوگ شریک ہوئے تھے لیکن پھر ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور اب یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ جب شرکاء کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوتا گیا تو منتظمین کو خیال آیا کہ کیوں نہ دارالحکومت اسلام آباد میں اسی طرح کے فیسٹیول کا اہتمام کیا جائے۔

یوں 2013 میں پہلی بار اسلام آباد میں لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا اور پھر ہر سال یہ روایت آگے بڑھتی گئی۔ امینہ سید کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے نئے مینجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین اسی تندہی اور اسی جذبے سے اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس بار ستمبر کے مہینے کا انتخاب کیا گیا۔ اس مہینے میں اسلام آباد میں گرمی کی شدت ختم ہو جاتی ہے اور مارگلہ کی پہاڑیوں پر تیرتے بادل موسم کو حد درجہ خوش گوار بنا دیتے ہیں۔ فیسٹیول کے لیے 29,28,27 ستمبر کا انتخاب کیا گیا تھا۔ 26 ستمبر کی رات بارش نے موسم کو مزید خوش رنگ بنا دیا تھا۔ فیسٹیول کا اہتمام اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ اس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے مینجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے بتایا کہ اس فیسٹیول کا مقصد کتاب اور ادب سے محبت پیدا کرنا ہے تاکہ معاشرے میں تعصب، تنگ نظری، عدم برداشت، اور متشدد سوچ کا مقابلہ کیا جا سکے۔

تین دن کے اس لٹریچر فیسٹیول میں تقریباً 50 کے قریب سیشن اور ڈیڑھ سو کے لگ بھگ مقررین تھے۔ مختلف موضوعات پر سیشنز کے ساتھ ساتھ دس کے قریب کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔ اطمینان کی بات یہ تھی کہ ہر سیشن میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان سیشنز میں ادب، معیشت، تعلیم، سیاست ، آرٹ، تھیٹر، میوزک اور پاکستانی کی مختلف زبانوں کے رنگ پیش کئے گئے۔

فیسٹیول کی خاص بات کشمیر کے موضوع پر سیشن تھا‘ جس میں حنا ربانی کھر، اطہر عباس اور عارف کمال نے سیر حاصل بحث کی۔ اس سیشن کے ماڈریٹر اکرام سہگل تھے۔ یہ ایک بھرپور سیشن تھا جس میں مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوئوں اور آپشنز کا جائزہ لیا گیا۔ ایک اور دلچسپ سیشن رعنا لیاقت علی کے حوالے سے لکھی جانے والی کتاب پر تھا‘ جسے دیپا اگروال اور تہمینہ عزیز نے تحریر کیا۔ کتاب پر گفتگو پینل میں تہمینہ عزیز، ثمینہ لیاقت، ، علی خان اور عامر رانا نے شرکت کی۔ پہلے دن کے اختتام پر بخشی برادرز نے لوک گیت اور قوالی کا خوبصورت سنگم پیش کیا۔

فیسٹیول کے دوسرے دن معروف شاعر جناب افتخار عارف کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی حیات اور فن کے حوالے سے ایک گفتگو کا اہتمام کیا گیا تھا۔ گفتگو کے شرکا نے افتخار عارف کے زندگی اور فن پر مختلف پہلوئوں سے روشنی ڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ افتخار عارف اردو شاعری کا اعتبار ہیں اور ان کی ہر نئی کتاب سوچ اور فکر کے نئے در وا کرتی ہے۔ غزل اور نظم‘ دونوں اصناف میں ان کا لہجہ ان کا اسلوب اور ان کے موضوعات جداگانہ ہیں۔ فیسٹیول کا ایک اور دلچسپ سیشن سید کاشف رضا کی کتاب ”پھٹے آموں کا کیس‘‘ تھی جو دراصل محمد حنیف کے انگریزی میں لکھے گئے ناول "A Case of exploding mangoes” کا اردو ترجمہ ہے۔ اس سیشن کی خاص بات محمد حنیف کی دلچسپ گفتگو تھی۔ محمد حنیف انگریزی، اردو اور پنجابی میں سہولت سے لکھتے ہیں اور انہیں اپنی بات کے ابلاغ کا فن بخوبی آتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں راولپنڈی سازش کیس ایک اہم واقعہ ہے جس میں سول اور ملٹری‘ دونوں شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے‘ جنہیں ٹرائل کے بعد قید و بند کی صعوبتیں بھی اٹھانا پڑیں۔ ان میں فیض احمد فیض بھی شامل ہیں‘ جنہیں ایک طویل عرصہ زنداں میں رہنا پڑا۔ ان کی شاعری کا ایک حصہ وہیں تخلیق ہوا۔ اس پنڈی سازش کیس کا ایک کردار ظفراللہ پوشنی بھی تھے۔ حال ہی میں ان کی کتاب The Prison Interlude کے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔ یہ ایک بھرپور سیشن تھا‘ جس میں نفیسہ شاہ، رضا ربانی، زاہد حسین، منیزہ ہاشمی، اور اویس توحید نے شرکت کی۔

اُدھر سنٹرل لان میں ”تعلیم اور نئی صدی‘‘ کے حوالے سے ایک اہم سیشن ہو رہا تھا جس میں تعلیم اور تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد نے بھرپور شرکت کی۔ اس سیشن کے مقررین میں ارشد سعید حسین، رسول بخش رئیس، فیصل مشتاق اور راقم شامل تھے۔ اس سیشن میں پاکستان کو درپیش تعلیمی مسائل اور نئی صدی کے چیلنجز پر گفتگو کی گئی۔ رات کو مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا‘ جہاں معروف شعرا نے اپنا کلام سنایا اور داد سمیٹی۔

انور سجاد ہمارے ادبی منظرنامے کا ایک اہم نام ہیں۔ ان کی شخصیت کی مختلف جہتیں ہیں۔ وہ پیشے کے حوالے سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک معروف ادیب، ڈرامہ نگار، اداکار اور موسیقار تھے۔ انور سجاد کی خدمات کے اعتراف کے لیے فیسٹیول کا ایک سیشن مختص کیا گیا‘ جس میں اس عظیم فن کار کے حوالے سے گفتگو کی گئی‘ جس نے اپنی تمام عمر فن کی آبیاری کے لیے وقف کر دی تھی۔ تیسرے دن کا ایک اہم سیشن پاکستان کی خارجہ پالیسی کے چیلنجز کے حوالے سے تھا‘ جس میں خورشید قصوری، عبدالباسط، طلعت مسعود اور سلمیٰ ملک نے پاکستان کو درپیش چیلنجز اور امکانات تک کے حوالے سے گفتگو کی۔

فیسٹیو ل کا ایک اور سیشن‘ جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی‘ ”ادب اور ڈرامے میں عورتوں کی نمائندگی‘‘ کے حوالے سے تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے پی ٹی وی کے ڈرامے’ تنہائیاں‘ اور ‘ان کہی‘ دیکھے ہیں وہ شہناز شیخ کے نام سے واقف ہوں گے۔ یہ ڈرامے حسینہ معین نے لکھے تھے اور دوسرے اداکاروں کے علاوہ شہناز شیخ اور مرینہ خان نے بھی اپنے کرداروں سے مکمل انصاف کیا تھا۔ پھر شہناز شیخ ٹی وی سکرین سے دور چلی گئیں۔ اس روز ایک طویل عرصے بعد وہ حسینہ معین اور اصغر ندیم سید کے ہمراہ سٹیج پر موجود تھیں۔ شہناز شیخ کا کہنا تھا کہ موجودہ دور کے نوجوان آرٹسٹ زیادہ ذہین اور پروفیشنل ہیں۔ شان الحق حقی اردو ادب کا ایک معتبر نام تھے۔ ان کی یاد میں منعقدہ سیشن میں افتخار عارف، فتح محمد ملک اور حسینہ معین نے ان کے فن کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔

تیسرے دن ایک انگریزی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ بر صغیر میں ایک نئی روایت ہے۔ فیسٹیول کے اختتام پر غزل کی محفل برپا کی گئی جس میں معروف کلاسیکی گلوکار استاد حامد علی خان نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ اس طرح اسلام آباد میں ایک خوبصورت فیسٹیول کا خوبصورت اختتام ہوا۔

اس بار فیسٹیول میں کچھ نئے اور مثبت اضافوں نے اس کی قدروقیمت میں اضافہ کر دیا تھا مثلاً علاقائی ادب اور زبانوں کے حوالے سے پوٹھوہاری اور پنجابی کے سیشن کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ فیسٹیول کی ایک اور اہم بات کشمیر کے حوالے سے بھرپور سیشن تھا۔ اس کے علاوہ نوجوان ادیبوں کو اس بار فیسٹیول میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا زیادہ مواقع ملے تھے۔ جس سے فیسٹیول میں تنوع آیا۔

فیسٹیول کا ایک اہم پہلو رائٹر لائونج میں ادیبوں اور دوستوں سے ملاقاتیں تھیں۔ یہاں کتنے ہی مدت کے بچھڑے ہوئے دوست ملے تھے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے مینجنگ ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم‘ جس کی سربراہی راحیلہ بقائی کر رہی تھیں‘ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کی ٹھہری ہوئی فضائوں میں اس فیسٹیول کے انعقاد سے ایک ارتعاش پیدا کیا ہے جس کا احساس بہت دیر باقی رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے