جماعت اسلامی کہاں ہے؟

ملک بھراس وقت سیاسی لحاظ سے دوحصوں میں تقسیم ہوچکاہے، جس میں ایک طرف حکومت اوراس کے مدمقابل اپوزیشن کی تمام جماعتیں کھڑی ہیں، تاہم اپوزیشن جماعتوں میں جماعت اسلامی غیرجانبدارانہ رویے کے باعث منظرعام سے مکمل طو رپر غائب ہے۔

مولانافضل الرحمن نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کوساتھ ملانے کے بعد ،حکومت کے خلاف کراچی سے آزادی مارچ کاآغاز کیا،جوملک کے مختلف شہروں سے ہوتاہوا آج اسلام آباد پہنچے گا ،مولانافضل الرحمن کاموقف ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملک کوسیاسی ومعاشی لحاظ سے تباہی سے دوچارکیاہے ،اس لئے وزیراعظم مستعفی ہوجائے ،حکومت کے ساتھ اس وقت شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے علاوہ، ایم کیوایم اور مسلم لیگ ق بھی نظرآرہی ہے ،جب کہ دوسری جانب مولانافضل الرحمن نے پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن ،اے این پی اورقومی وطن پارٹی سمیت دیگر کئی جماعتوں کو اس بات پرمجبورکیاہے وہ ان کے ساتھ کمربستہ ہوں ، تاہم اس پورے سیاسی منظرنامے میں جماعت اسلامی کا دوردورتک کوئی نشان نہیں ۔

سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں : سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ انہیں حکومت یا اپوزیشن کی جانب جاناہوتاہے،جماعت اسلامی کی قیادت اس وقت شدیدتذبذب کاشکار ہے ، جس کی وجہ سے وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے کہ اپوزیشن کے کنٹینرکو دھکادیاجائے یاحکومت کو کندھادیاجائے ،جماعت اسلامی کے بیانیے کے نہ ہونے کے باعث وہ سیاسی ریڈارسے مکمل طو رپر غائب ہے اورانہیں اس غائب ہونے کا خمیازہ غیرمقبولیت کی شکل میں بھگتناپڑے گا۔

ضیغم خان نے کہاکہ : جماعت اسلامی اس وقت ماضی کے تجربات کے باعث مولاناپراعتبارنہیں کررہی اور حکومت اسے اپنانے کو تیار نہیں، اس وقت ملک میں مزاحمت کی سیاست عوام میں مقبولیت حاصل کرسکتی ہے اورمولانا نے نوازشریف اور زرداری کی غیرموجودگی میں یہی راستہ اپنایا، تاہم جماعت اسلامی کا منظرعام سے غائب ہونا اوراس کاسیاسی منظرنامے میں نہ ہونا، اسے مستقبل قریب میں سیاسی عمل سے غائب کردے گا۔

جماعت اسلامی کے ایک اہم مرکزی رہنما نے بتایاکہ جماعت اسلامی کی قیادت مولانامودودی سے ترقی معکوس ہوکر سراج الحق تک آپہنچی ہے، 70سال قبل مولانامودودی نے اس وقت کے حالات کے تناظرمیں پارٹی کا جو سٹرکچربنایاتھا، جماعت اسلامی اب تک اس پر کاربندہے، جس کے باعث جماعت اسلامی انتظامی قیادت توپیداکرتی ہے، عوامی قیادت نہیں،جب کہ اس وقت جماعت کو عوامی قیادت کی ضرورت ہے۔پارلیمانی طرزسیاست میں خاموشی جماعت اسلامی کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی، سراج الحق فیصلہ کرنے سے مکمل طو رپرعاری ہیں ، اس لئے پارٹی کے ری سٹرکچرنگ کی ضرورت ہے، تاکہ سیاسی منظرنامے میں شامل ہوسکے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 70کی دہائی تک جماعت اسلامی ایک تگڑی سیاسی قوت ہواکرتی تھی ، تاہم بعدمیں بغض بھٹواور حب ضیاءالحق میں جماعت اسلامی کے متعلق خیال کیاجاتاہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلنے لگی ۔

1988ءمیں جماعت اسلامی نوازشریف کےساتھ اسلامی جمہوری اتحادکاحصہ بن گئی ، بعدمیں جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوری اتحادسے نکل گئی، لیکن اس کے ورکرزوہی مسلم لیگ کاحصہ بن کر رہ گئے اورآج بھی مسلم لیگ کے مرکزی قیادت میں جماعت اسلامی کی جھلک نظرآتی ہے ۔

پارٹی کے ایک اوررہنما نے بتایاکہ جماعت اسلامی روزاول سے مخمصے کاشکار ہے ، سیاست میں ان کا بیانیہ عوامی نہیں، نفاذشریعت اورتجدید جیسے موٹے الفاظ کااستعمال کرکے ان کی اورعوام کی سوچ کبھی ایک نہیں ہوئی ، اے این پی نے شکست کھاکربھی دوبارہ اپنی جگہ بنالی ،مسلم لیگ بھی کھائیوں میں گرکر دوبارہ اقتدارکے مسندپربیٹھ گئی ، ماضی کی تانگہ پارٹی تحریک انصاف اقتدارکے سنگھاسن پربیٹھ گئی ، لیکن جماعت اسلامی جوابھی تک ماضی میں زندہ ہے، اپنی غیرمقبول قیادت ،واضح بیانیے کے نہ ہونے اورمبہم حکمت عملی کے باعث اسی سیاسی آگ کاحصہ ہے ، جو مولانافضل الرحمن نے جلائی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے