نومبر 2019 کا پہلا ہفتہ آن لگا۔ عمر رواں نے اک جھٹکا سا کھایا، اور اک سال گیا۔ اس برس کے جھٹکوں کی کیا پوچھتے ہیں۔ دن بہرحال گزر جاتے ہیں۔ 14مئی 2006کو ملک کی جمہوری قوتوں میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس سے زیرزمین قوتوں میں بنیادی تناؤ ایک جوہری تبدیلی سے دوچار ہو گیا۔ اس زورآزمائی کا پہلا اظہار 27دسمبر 2007کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی صورت میں رونما ہوا۔ اس کے بعد سے اس بھونچال کے آفٹر شاکس باقاعدہ وقفوں سے محسوس ہوتے رہے ہیں۔ اسی آتش فشاں کے دہانے پر امید کا عارضی خیمہ لگائے بارہ برس گزر گئے۔ اس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔ شہر کی فصیلوں سے دیو کا جو سایہ 18اگست 2008کو رخصت ہوا تھا، رات کے اندھیروں میں اس کے قدموں کی جان لیوا چاپ مسلسل سنائی دیتی رہی۔
ٹھیک دس برس بعد 18اگست 2018کو نادر شاہی سپاہ ایک بار پھر شہر پناہ میں وارد ہوئی۔ کشتگان ستم کے فگار دلوں پر اس بے اماں یلغار کا فرمان امروز ابھی زخم جیسا تازہ ہے۔ مرقوم تھا، ہم جسے چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں، ذلت دیتے ہیں۔ ملال ہے ان پر کہ خالق کائنات کی آیات سے اپنی چیونٹی کے انڈے جیسی بے مایہ رستاخیز پر دلیل لاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کتاب الٰہی سے جس سورہ پاک کی آیت مبارکہ (26)کا حوالہ دیا تھا، کتاب برحق کی اسی سورہ آل عمران کی آیت 140میں ارشاد ہے کہ ہم تمہارے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں۔ عقل والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت۔ ہماری آنکھوں نے وہ دیکھا۔ ہم جس کے سزاوار نہیں تھے۔ دنوں کی گردش مکمل ہو رہی ہے۔ اب پنہ گاہوں کے دروازے پر بیٹھے بے کماں لشکر وہ دیکھیں جو لوح ازل پر لکھا ہے۔
تادم تحریر اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کی اقتدا میں آزادی مارچ کا اجتماع جاری ہے۔ اس مشق کا مآل ابھی نامعلوم ہے۔ کالم نگار براہ راست مشاہدے اور روبرو رسائی کی سہولت نہیں رکھتا۔ وہ تو معلوم واقعات پر محرکات، عوامل اور تاریخ کے دھاروں کی روشنی میں رائے دینے پر مامور ہے۔ اخبار تاریخ کا ابتدائی مسودہ ہے۔ ایک خاص مدت گزرنے کے بعد ایسے حقائق بھی منظر عام پر آئیں گے جو لمحہ موجود کے زمینی دیوتاؤں کی آستینوں میں پوشیدہ ہیں تو حالات کی حقیقی تصویر واضح ہو سکے گی۔ ان چاہے حادثات، اتفاقی واقعات اور درپردہ عزائم سے لمحہ بہ لمحہ مرتب ہوتی تصویر کے خدوخال پر تخمین و تضمین سے کیا حاصل؟ کیوں نہ اس دیواری تصویر کا مناسب فاصلے سے عکس لیا جائے جس پر آئندہ چند ہفتوں میں ملکی تاریخ کا ایک نیا باب آغاز ہونے کو ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز پر ہندوستان میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ آزادی کی آرزو پال رہا تھا۔ برطانوی ہند کے اقتصادی استحصال کے اعداد و شمار غلط نہیں تھے لیکن بنیادی طور پر تاج برطانیہ کی نصف صدی میں غیرمعمولی معاشی، سماجی اور علمی ترقی سے بہرہ ور ہونے والا طبقہ سیاسی اقتدار میں اپنا حصہ مانگتا تھا۔ اس مطالبے کا منطقی نتیجہ برطانوی اقتدار کا خاتمہ تھا۔ انگریز حکومت نے برطانوی ہند میں مبسوط قانون، انتظامی اداروں نیز ڈاک، سڑک، ریلوے اور آبپاشی جیسی خدمات سے برصغیر کو انتظامی وحدت بخشی۔ اور سب سے بڑھ کر مقامی باشندوں پر علم کے دروازے بلاتعصب کھولے گئے۔ ایک صدی کے برطانوی راج نے ہندوستان کو ہم عصر علوم و تہذیب کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔
ہندوستان کی نوآبادی برطانیہ کی عالمی طاقت کا کلیدی جزو تھی لہٰذا جنوبی ایشیا سے دستبرداری تاج برطانیہ کے لئے بھیانک خواب تھا۔ چنانچہ 1906میں لارڈ منٹو کے حضور یادداشت کا بنیادی نکتہ تاج برطانیہ سے وفاداری تھا۔ یہ محض ہندو مسلم افتراق نہیں تھا۔ ایک طرف پسماندہ اقلیت کی وفادار اور مراعات یافتہ قیادت تھی اور دوسری طرف علمی اور تجارتی طور پر ترقی یافتہ اکثریت کی قیادت کے سیاسی عزائم تھے۔ یہ جمہوری آدرش اور جمہوریت سے خوف میں کشمکش تھی۔ مسلم اکثریتی علاقوں کی سیاست مفلوک الحال اکثریت پر وفادار اشرافیہ کی بالادستی سے عبارت تھی۔
عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر کے اشارے پر یہ ٹکسالی وفادار مسلم لیگ میں چلے آئے۔ اس سیاسی کمزوری نے پاکستان میں ریاستی اداروں کو عوام کے وسائل اور حقوق پر قبضے کی راہ دکھائی۔ جمہوریت پسند ملک دشمن قرار پائے۔ قدامت پسندی کا پرچم اٹھا کر ریاستی اداروں سے گٹھ جوڑ کرنا اور معاشی مفادات سمیٹنا سکہ رائج الوقت ٹھہرا۔ جو کبوتر یونینسٹ پارٹی سے مسلم لیگ کی چھتری پر آن بیٹھے تھے، وہ ایک سرکاری اہلکار کے اشارے پر راتوں رات ریپبلکن پارٹی بن گئے۔ موسم بدلا تو کنونشن لیگ بن گئے۔ متحدہ پاکستان آمرانہ اقتدار اور استحصالی معیشت کی سازش کا شکار ہو کر دو لخت ہوا۔
بچے کچھے پاکستان میں جمہوری قوتوں نے دستور تو بنا لیا لیکن جمہور دشمن بیانیے کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ مورخ بتائے گا کہ پاکستان کی پہلی سات دہائیوں میں معاشی وسائل پر کس کا قبضہ رہا، کونسے نئے معاشی مفادات پیدا ہوئے اور جمہور کو کس حکمت عملی سے بے دست و پا کیا گیا۔ بے شک دنیا طاقت کے اصولوں پر چل رہی ہے لیکن اسی دنیا میں بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 33ارب ڈالر کو جا پہنچے۔ بھارت میں متوسط طبقہ 60کروڑ نفوس کی خبر لایا۔ برازیل، روانڈا اور ساؤتھ افریقا جیسے ملک ترقی کے راستے پر چل نکلے۔ پاکستان کے مسائل عمران خان یا ان کے ساتھیوں کی کسی مفروضہ نااہلی سے منسلک نہیں ہیں اور نہ ہماری غربت دو چار سیاسی گھرانوں کی مفروضہ کرپشن کا شاخسانہ ہے۔
ہمیں معیشت کے حقیقی خدوخال کا جائزہ لے کر معاشی ترجیحات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ سیاسی بندوبست میں شفاف دستوری تسلسل کی ضرورت ہے۔ ہمارا اصل اثاثہ نوجوان آبادی ہے جسے تعلیم کے ذریعے انسانی سرمائے میں بدلنا ہے۔ ملک کے مختلف طبقات اور منطقوں کے تنوع کا احترام کرتے ہوئے ایک روادار معاشرہ تشکیل دینا ہے جو اپنے شہری کی مرکزہ قرار دے کر ہم عصر دنیا کے ساتھ چلنا سیکھے۔ ہماری قومی ساکھ نعرے بازی سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ ہاورڈ زن کہتا ہے کہ انحرافی آواز کسی قوم کا بہترین سرمایہ ہے۔ ہم نے ففتھ جنریشن وار کے نام پر اختلاف رائے کو مصلوب کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ بدقسمتی سے اسلام آباد کا اجتماع ان نکات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے، ہم بدستور جمہوری بالادستی اور میعادی سرکار کے دوراہے پر ہیں۔