جسٹس(ر)منظور حسین گیلانی کی میزان زیست،ایک مطالعہ

میزان زیست،، جسٹس سید منظور حسین گیلانی صاحب کی خود نوشت سوانح حیات ہے ۔ آ پ نے جموں و کشمیر کے منقسم خطوں میں زندگی گزاری اور سیر و سیاحت کی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں تعلیم حاصل کی ، وکالت اور ملازمت کی ابتدا یہیں سے کی ، 1975 میں اپنی فیملی کے ساتھ مظفرآباد آزاد کشمیر تشریف لائے اور یہاں مستقل قیام کیا ۔ یہ تمام کوائف ان کی زیر نظر کتاب میں درج ہیں ۔ اس اعتبار سے مصنف ریاست کے دونوں حصوں سے مانوس چلے آ رہے ہیں ، دونوں حصوں کے ساتھ خاندانی اور سماجی تعلقات استوار رکھنے میں کامیاب ہیں اور ان علاقوں کی معاشرتی، معاشی، مذہبی اور سیاسی زندگی اور تقسیم پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اس طرح یہ کتاب ان کے مشاہدات اور تصورات کا مرقع ہے، جن کی وضاحت کرنے میں انہوں نے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے۔

انہوں نے مقبوضہ کشمیر کا وہ زمانہ پایا ، جب یہ دونوں خطے 1974 میں پاکستان اور ہندوستان کی لڑائی اور کشیدگی کی وجہ سے ایک دوسرے کے لئے شجر ممنوعہ بنے ہوئے تھے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود باشندگان وطن ایک دوسرے کے لیے بیگانے بنائے گیے تھے ۔ ریاست کے دونوں علاقوں کے باشندوں کے درمیان تمام بنیادی تعلقات منقطع کردیے گئے تھے ، جو 1990 میں ، خاص کر 2004 سے ایک حد تک بحال ہوگئے لیکن جب سے ہندوستان نے ریاست جموں و کشمیر کے ٹکڑے کر دیے اور اس کو یونین ٹیرٹری بنا دیا، صورت حال مخدوش اور خطرناک ہے۔

میزان ز یست میں جہاں مصنف نے اپنے خاندانی اور فکری پس منظر اور ماحول پر روشنی ڈالی ہے، وہیں انہوں نے جموں و کشمیر کے وجود ، کردار اور تشخص کے نشیب و فراز بیان کرنے میں بھی کافی دلچسپی لی ہے ۔ ان کی اس سرگذشت میں ماضی کی جھلکیاں ہیں ۔ بے شک کسی شخصیت کی خود نوشت سرگذشت کا مزہ ہی اور ہوتا ہے ۔ زندگی کی آپ بیتی سدا بہار اور سبق آموز ہوتی ہے، یہ قسمت کی ریکھاوں اور نقوش کا تعارف اور جائزہ ہے ،جس سے پڑھنے والے بھی مستفید ہوتے ہیں اور موت و حیات کے تغیرات سے آنے والی نسلیں آگاہ رہتی ہیں ۔ زندگی کے تصویر خانے میں علم و عمل کے نقوش بنانے والے اور ان کی جستجو کرنے والے صحرانورد ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے ، اپنی اور لوگوں کی پیاس بجھاتے رہیں گے اور ہر پہلو سے ان سرگذشتوں پر تبصرے ہوتے رہیں گے ۔

سید منظور حسین گیلانی صاحب ایک باریک بین اور بےباک قا نون دان اور رائٹر ہیں اور خودداری ان کا شیوہ ہے ۔ آپ سب سے پہلے ایڈوکیٹ جنرل آزاد کشمیر تعینات کیے گئے تھے، پھر مختلف مراحل طے کرتے ہویے آخر کار چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کے عہدے سے ریٹائر ہوگئے ۔ لیکن ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک انہیں کئی پاپڑ بیلنا پڑے ۔ تاہم انہوں نے اپنے خلاف ریفرنسوں کا مقابلہ نہایت خود داری اور خود اعتمادی سے کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گیلانی صاحب چیف الیکشن کمشنر آ زاد جموں و کشمیر کے عہدے پر فائز ہوگئے اور آزادکشمیریونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ۔ انہوں نے مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان و آزاد کشمیر کے شہری اور سیاسی حقوق کے مقدمات میں اہم فیصلے لکھے ۔ جن کی بنیاد پر کشمیری مہاجرین کو آزاد جموں و کشمیر کی شہریت دی گئی اور پاکستان کا قومی شناختی کارڈ حاصل ہوگیا ۔ اس کے بعد ہی انہیں ووٹ اور ملازمت کے حقوق بھی حاصل ہوگئے۔

میزان زیست ایک وکیل،قانون دان، منصف ، مصنف اور سیاح کی ذاتی، سماجی،گھریلو اور سیاسی زندگی کی بُوقلمونی کا شاہکار ہے، جس میں مصنف نے اپنی سرگزشت قارئین کے سامنے رکھی ہے ۔ اس سوانح حیات کے مطالعے سے قاری کو اپنے ذوق کے مطابق سوانح نگار کے تجربات اور مشاہدات کا اچھا خاصا چارٹ اور سرمایہ دستیاب ہوتا ہے ۔ مصنف گزشتہ ساتویں دہائی تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں پلے بڑے ، قیام پذیر ر ہے اور ایک وکیل کی حیثیت سے عملی زندگی میں اپنے قدم جمانے اور سیاست کاروں ، اور سماجی کارکنوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس کی تفصیل آپ کو اس کتاب میں ملے گی۔

منظور حسین گیلانی کی کتاب کا سرورق

وادی کشمیر کے جن علاقوں میں وہ رہائش پذیر تھے، وہ ایریاز جنگ بندی لائن کے قریب اور بھارتی فوجیوں اور ایجنسیوں کے نرغے میں ہیں ۔ یہ کپواڑہ اور بارہمولا کے حساس علاقے شمار ہوتے ہیں ۔ ان میں فوج کا گہرا عمل دخل ہے اور یہاں لوگوں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پر خفیہ اداروں کی نگاہ رہتی ہے ۔ تاہم مصنف ایسے ماحول میں اپنا راستہ دریافت کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ اپنی زندگی کی سرگذشت کو قلم بند کرنا ایک بڑا معاملہ ہوتا ہے اور اس کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے لیکن اگر کوئی سوانح نگار بقو ل اقبال، دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں’ پر یقین رکھتا ہو، تو اس کا ایک ایک ورق چار سو پھول بکھیرتا ہے ۔ اور قاری کے سا منے مستقبل کی عکس بندی واضح طور پر نظر آتی ہے ۔

مصنف نے بڑی ذہنی کشمکش میں آخر کار آزاد کشمیر میں ہی مستقل طور پر قیام کرنے کا فیصلہ کرلیا اور بعدازاں یہاں کی سماجی، قانونی،عدالتی اور سیاسی زندگی کے مکمل شناسا بن گئے اور انہیں آزاد کشمیر اور پاکستان کی اشرافیہ اور مقتدر حلقوں کے تصورات اور طرز زندگی کو قریب سے جاننے کا موقعہ حاصل ہوا ۔ زیر نظر سوانح حیات میں انہوں نے ان تمام سوالات کی عقدہ کشائی کی ہے ، خاص کر قومی سیاسی سوالات کے بارے میں مصنف کے مشاہدات اور تاثرات کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کے ٹوٹے اور بکھرے ہویے مضافات اور پاکستان کے باشندوں اور سیاسی اور سماجی رہنماوں کے نظریات اور رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔

مصنف نے میزان حیات میں جن موضوعات پر مفصل یا مجمل انداز میں روشنی ڈالی ہے اور اپنے تصورات ، مشاہدات اور تجربات ایک تسبیح میں پرویے ہیں ، اس میں قارئین کو اپنے اپنے ظرف اور ذوق کے مطابق معلومات حاصل ہوتی ہیں ، یعنی جب اصحاب ذوق اس کا مطالعہ کریں گے تو انہیں اس پر اپنی ناقدانہ نگاہ ڈالنے میں بڑا مز ا آئے گا ،اور وہ اس کے ادب اور انشا سے محظوظ ہوں گے ۔ مصنف نے اپنی روداد زندگی میں جموں وکشمیر کے شکستہ تشخص ، لیڈروں کی ناتوانی ، کم نظری، معیار فکر ، تذ بذب اورعوام کے رویوں کا جائزہ لیا ہے ۔ کاش بر صغیر کی آزادی اور تقسیم کے وقت، فرنگی نقشہ نویسوں اور پٹواریوں نے ہمارے ریاستی تہذیبی، تمدنی، لسانی اور جغرافیائی گلدستے کو نہ کچلا ہوتا اور اسے اسی حالت میں عوام کے سپرد کیا ہوتا، یہاں کسی قسم کی خونریزی کی نوبت نہیں آتی ، یہاں کے باشندوں کا ماضی و حال مخدوش ہوجاتا ،نہ اس چمنستان بہار کی تتلیو ں کو کسی خدا و آخرت بیزار اور انسانیت دشمن نے مسلا ہوتا اور بے شمار فرزندان قوم اور معصوموں کے خون سے یہ سر سبز و شاداب سرزمین سرخ نہ ہوتی،اورآج 72 سال گزر جانے کے بعد بھی ریاست جموںوکشمیر اور جنوبی ایشیا کے عوام پر جنگ اور خونریزی کے بادل نہیں منڈلاتے ۔

مصنف نے اس سرگزشت میں اپنے خاندانی پس منظر، اپنی تعلیم و تربیت ، گھریلو زندگی، وکالت، عدالت ، الیکشن کمیشن اور جامعہ آزاد جموں وکشمیر کی سربراہی اور اسلامی نظریاتی کونسل ، سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں فراءض کی انجام آوری ، مسئلہ کشمیر کے حساس امور، جنرل (ر) مشرف کا ناکام و نامراد چار نکاتی فارمولا ، مہاجرین و مجاہدین جموں و کشمیر، ریاست کے دونوں حصوں کی سیاسی و مذہبی شخصیات اور سیاسی تنظیموں ، مقبوضہ کشمیر، ا ٓزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کی سیاسی کشاکش، اور نظام حکومت اور ان تینوں خطوں پر مسئلہ کشمیر اور ہندوستان و پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کے اثرات اور مختلف مذہبی و لسانی رجحانات کا احاطہ کیا ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی تاریخی، سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی جدوجہد اور طبقاتی زندگی اور نظام حکومت کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک جیسے نتائج اخذ کیے جائیں اور سب سے اتفاق کیا جائے ۔ بہرکیف یہ آپ بیتی ہمارے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے جس میں ریاست جموں و کشمیر اور اس پر پاکستان و ہندوستان کے اثرات کی تصویریں بھی نظر آتی ہیں اور کشمیر کے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنانے کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ تاریخ یہ سبق سکھاتی ہے کہ قوموں کی زندگی کے مکمل خد و خال کا ابھرنا ایک ارتقائی عمل کا نام ہے اور تشکیل نو درست عکاسی سے ہی ہو سکتی ہے اور ایک مکمل تمدن اور نظام قائم ہوجاتا ہے ۔

میزان زیست نے ریاست جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے لسانی، نسلی اور جغرفیائی تنوع یعنی مماثلت، مشابہت اور مغایرت کے پہلووں کی نشاندہی کی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی طرح جموں وکشمیر کی ریاست بھی مختلف تمدنوں اور زبانوں کا گہوارہ ہے اور اس کا ایک شاندار ماضی رہاہے ۔ اگر ہندوستان ، پاکستان،بنگلہ دیش الگ الگ ریاستوں کی شکل میں تسلیم کی جاسکتی ہیں تو ریاست جموں و کشمیر کیوں نہیں ۔ لیکن چونکہ 1947 سے پہلے صرف برٹش انڈیا کا نوآبادیاتی نظام تھا اور اس کے ماتحت نیم خودمختار راجواڑے تھے اوراس سے پہلے بکھری ہوئی ہندوستانی حکومتوں کو مسلمانوں کی فتوحات نے صدیوں تک یکسان شہنشا ہی نظام کی لڑی میں نظم و ضبط کا سبق سکھایا تھا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعد میں فرنگی سامراج نے فرقہ واریت اور طویل ا لمدتی سامراجی مفادات کی تخم ریزی کی اور ہندوں اور مسلمانوں میں غیریت اور منافرت کے کتنے دبیز پردے حائل کیے گئے ۔ بعد میں برٹش انڈیا کو ہندوستان اور پاکستان کی شکل میں صرف دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کا درجہ دیا گیا جبکہ نیم خود مختار راجواڑوں کو ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے لئے کہا گیا ، یوں جموں و کشمیر کی ریاست مکمل خودمختاری کا مقام حاصل نہیں کرسکی اور اس کے درمیان تقسیم کی ایک جابرانہ فوجی لکیر کھینچی گئی ۔ اگر ہندوستان میں مذاہب، زبانوں اور نسلوں کے تفاوت کو دیکھا جاتا تو ہندوستان میں انگریز کے جانے کے بعد اور کئی قوموں کی تشکیل نو خود مختار ریاستوں کے طور ہونی چاہیے تھی ۔ اوراگر آج ریاست جموں و کشمیر کے ٹکڑے کیے جاتے ہیں اور ان ٹکڑوں کو کسی ایک ملک میں ضم کیا جاتا ہے تو آئینی،قانونی اور سیاسی اصولوں کے تحت اس کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ۔

جموں و کشمیر کی ریاست پر یا تو تقسیم ہند کا اصول اور قانوں نافذ ہوتا ہے ، اسے ایک حد تک نیم خود مختاری حاصل ہوسکتی یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہاں رائے شماری کروائی جاسکتی ہے یا پھر یہ بھی ایک خودمختار جمہوری ریاست بن سکتی ہے ۔ ہندوستان نے5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ کو جمہوریت اور سالمیت کے اصولوں کے خلاف توڑ کر یوں تو اپنے ساتھ ضم کردیا اور ہزاروں خاندانوں کے نوجوانوں اور کمسن بچوں اور ان کے لیڈروں کو راتوں رات اغوا کرکے قید خانوں میں بھر دیا لیکن اسے اسکی بھاری قیمت چکانی ہوگی کیونکہ کشمیری عوام یہ فوجی تسلط آخری سانس تک تسلیم نہیں کریں گے اور ہر سطح پر جدوجہد کرتے رہیں گے اور یقین ہے کہ اقوام متحدہ بھی جموں و کشمیر اور لداخ کا یہ نیا خود ساختہ اور جابرانہ ہندوتوا نقشہ تسلیم نہیں کرے گی ۔ یہ اس کے منشور، چارٹر اور اس کی قرا اردادوں کا امتحان ہے ۔ پاکستان ہندوستان کی سطح پرنہیں اتر سکتا ہے کیونکہ یہ نوزائیدہ ملک حق خود ارادیت کا علم بردار ہے اور حق خودارادیت نے اس کو وجود بخشا ہے ۔ پاکستان دنیا بھر کے مظلوم و محکوم مسلمانوں اور دیگر محکوم اقوام کی آزادی کا داعی ہے ۔ وہ مکمل فلسطین کی آزاد ریاست کی بحالی کا بھی ترجمان اور وکیل ہے۔

مصنف نے میزان زیست ،، میں ریاست جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے رویوں میں تلخی اور شیرینی کی نشاندہی کی ہے اور ہم آہنگی اور عصبیت کے عناصر کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ قوموں ، گروہوں ، جماعتوں اور طبقوں کے رویوں کا مطالعہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے اور ان کی سطح استوار کرنے کے لئے اہم ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں مصنف کی کتاب آزاد کشمیر پر پاکستان کے اثرات اور ان دونوں خطوں کے سماجی ، سیاسی اور ثقافتی رویوں کی عکاس ہے ۔ اس ضمن میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کشمیری بولنے والے بھی لسانی اور تہذیبی انفرادیت اور شناخت کے حامل ہیں اور اس کا گہرا شعور رکھتے ہیں ۔ کشتواڑ،ڈوڈہ اور بھدرواہ کو بھی کشمیری زبان وادی کشمیر کے ساتھ جوڑتی ہے ۔ کشمیر کے بدترین دور مظلومیت اور محکومیت میں پنجاب میں کشمیریوں اور کشمیری زبان کے متعلق جو عامیانہ فقرے شعوری یا غیر شعوری طور کسے جاتے تھے، کتاب میں ان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ۔ شکر ہے کہ اب وہ پرانے الفاظ متروک ہوچکے ہیں اورمختلف زبانوں اور بولیوں کے درمیان مدنیت کے عالمگیر پھیلاو نے بیگانگی کا عنصر ختم کردیاہے ۔ وادی کشمیر کی منفرد کشمیری زبان پر سنسکرت کی جو چھاپ تھی اس کو اسلام کی آمد کے بعد فارسی اور عربی نے چار چاند لگا دیے اور جموں و کشمیر کے دو تہائی رقبے پر ہندوستان کا تسلط ہوجانے کے باوجود ابتدا میں ہی کشمیری ادیبوں ، شاعروں اور ماہرین لسانیات نے دیوناگری رسم الخط لینے سے انکار کردیا اور اس زمانے میں وادی کشمیر میں طاقتور بائیں بازو کے عناصر نے بھی کشمیریوں کے لسانی رجحانات کا ساتھ دیا اور اس کی آبیاری کرتے رہے ۔ اس طرح کشمیر ی زبان اور ثقافت کا وہ حشر نہیں ہوسکا جو روسی مقبوضات میں اسلامی کلچر او ر وسط ایشیائی زبانوں کے ساتھ کیا گیا ، روس اور وسطی ایشیائی مقبوضات کا ایجاب و قبول جابرانہ اور غاصبانہ تھا۔

زیر نظر سوانح حیات اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں ریاست کے مختلف خطوں جموں ، پونچھ، کشمیر، لداخ،گلگت بلتستان میں لسانی اور مذہبی رجحانات ، تعصبات اور رویوں تک رسائی حاصل ہو جا تی ہے ۔ مصنف نے حقیقت پسندی کے ساتھ ان علاقوں میں ذاتوں ، برادریوں اور قبیلوں کے مختلف رویئے نمایاں کیے ہیں جن پر یہاں کے ،لیڈر اور حکمران یا بیوروکیٹ اپنی سیاست اور نوکر شاہی چلاتے ہیں اور اسی لئے آج تک یہاں کی سیاست مجروح اور کنٹرولڈ چلی آرہی ہے ۔ اور جاگیردارانہ ، سرمایہ دارانہ اور فرقہ دارانہ سیاست کی حوصلہ شکنی نہیں ہوئی اور قبائلی برادریوں کے طاقتور بت نہیں توڑے جاسکے ۔ اقبال اور قائداعظم کا سیاسی اور فکری بیانیہ اور جمہوری نظریات کا حوالہ ساتھ رکھنے کے باوجود یہ خطے پاکستان کے دیگر خطوں کی طرح برادریوں ، ذاتوں اور گدی نشینوں کے خبط اور رویوں سے اوپر نہیں اٹھ سکے، او ر گذشتہ 72 سالوں میں بھی ایک خالص اسلامی جمہوری فلاحی نظام اور معاشرے کی طرف گامزن نہیں ہوسکے ۔ اور اقبال رح کے اس پیغام کی طرف اپنی پیٹھ کرکے بیٹھے رہے ۔

نہ افغانیم و نئے ترک و تتاریم ۔ ۔ چمن زاریم و از یک شاخساریم
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است ۔ کہ ما پروردہ یک نو بہاریم!!!

تاہم بھارت کے زیر تسلط وادی کشمیر ایک ایسا خطہ بھی دیکھنے کو ملے گا جہاں عوام نے ذاتوں ، برادریوں اور گدی نشینوں کی سیاست باقی ہی نہیں رہنے دی ۔ مصنف نے بہت سارے مثبت اور تعمیری پہلووں کو اجاگر کیا ہے اور پاکستان کے زیر اثر ریاستی علاقوں میں حکومت، سیاست ، بیوروکریسی، مذہب اور کلچر کی جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ آئیڈیلزم کے صنم خانوں سے باہر نکلنے کے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ اس سوانح حیات میں آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے طرز حکمرانی، سیاست ، معیشیت اور معا شرت اور عصبیتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کے مسافروں کو یہا ں مزید لق و دق صحراوں میں سے گذرنا نصیب میں ہو گا کیونکہ یہاں بے خطر اور بے داغ رہنمائی مفقود ہے اور عوامی حمایت کمزور ہے جبکہ عوامی طاقت وہ ہوتی ہے جو سر چڑھ کر بولے ۔ ا س کے لئے قوم کی سیاسی یکسوئی چاہیے اور سیاستدانوں میں استقلال ہو اور اقتدار کی رسہ کشی ختم ہو ۔ اس کے بعد ہی قائداعظم محمد علی جناح کی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے تصورات پروان چڑھیں گے اور علامہ محمد اقبال کے نظریات کی چھاپ ریاست کے قومی اور بین الاقوامی رویوں میں دکھائی دے گی ۔ بلا مبالغہ مسلمان ریاستوں اور مسلمانوں کے مسائل اور عوارض قدرے فرق کے ساتھ ایک جیسے ہیں اور ان کے اسباب یکساں ہیں ۔ اس درد کا درمان بھی ایک ہے لیکن بوالہوسی ، کور چشمی اور خود پسندی میں ارباب اختیار نہ عوام کچھ دیکھ سکتے ہیں ، خود انحصاری کا ولولہ مر چکا ہے ، سیاستدان ملک کے نام پرکشکول بڑھانے کے لئے تیزگام ہیں لیکن اپنی دولت دکھانے اور پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ ایسے لوگ اپنے فیصلے قومی مفادات میں نہیں کرسکتے ہیں ۔

گو کہ یہ کتاب مصنف کی آپ بیتی ہے لیکن رائٹر نے مختلف موضوعات ۔ سماجی حالات، طبقاتی روئے، سیاسی ر جحانات، اقتدار کی جنگ ، نظام حکومت، آئین، قانون، عدل کا نفاذ وغیرہ واقعات کی کسوٹی پر رکھے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر اور آزادی کشمیر کا جبر و اختیار( تقدیر کی طرح) معروضی انداز میں بیان کیا ہے ۔ اس موقعہ پر مجھے جموں و کشمیر اور پاکستان کے قریب و بعید ماضی اور صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے 18ویں اور 19 ویں صدیوں کی خلافت عثمانیہ کے ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی، یورپی طاقتوں اور برطانیہ کی ریشہ دوانیوں ، عربی قبائلی سرداروں کی بغاوتوں اور عاقبت نااندیشی ، اسلامی اخوت اور عربی وفاق کے قیام کے خلاف ریشہ دوانیوں ، عرب سرداروں میں روز افزوں مغربی اثر و رسوخ،فلسطین میں صیہونی سازش وغیرہ میں کافی مماثلت نظر آتی ہے ۔ خدشہ ہے کہ کہیں نتائج بھی یکساں نہ ہوں کیونکہ عالم عرب سے لے کر پاکستان اور پاکستان سے بھی آگے مسلمانوں کے ارباب بست و کشاد کے فیصلوں میں کہیں بھی شورائیت اور جمہوریت نہیں رہی ہے ( الا ما شا اللہ) ۔ انہوں نے ذاتی مفادات میں آپ اپنے پاوں میں بیڑیاں ڈالی ہوئی ہیں اور وہ مسائل کے فیصلے دینی، قومی اور جمہوری نکتہ نگاہ سے نہیں کرتے ہیں ۔ اس لئے ہمارے عہد کی مسلمان ریاستوں کاسیاسی،اقتصادی، سماجی اور تہذیبی نظام تہ و بالا ہو گیا ہے ۔ اور اصلاح حال کا جذبہ باقی نہیں ہے ۔ اگر ہمارے عہد کے قانون دان، رائٹر ، مصلح اور قانون ساز ادارے ان تبدیلیوں اور مقاصد کی طرف توجہ مرکوز کریں گے، تو وہ وقت قریب ہو گا جب ہمارے ہاں ایک بہتر سماجی اور اقتصادی نظام، سیاسی تبدیلیوں کا باعث ہو گا اور مفادات پرست عناصر اس کے لئے راستہ دینے کے لئے مجبور ہوں گے ۔ یہ سرگذشت انہی مقاصد کے اعتبار سے آنے والی نسلوں کے لئے فائدہ مند ہے ۔

جدید عہد کے تعمیری اور روشن تقاضے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مختلف نسلی اور لسانی قبیلوں اور طبقوں کو ایک دوسرے کی زبان اور نسل کے خلاف رویے تہذ یب اور تمدن سے ہم آہنگ کرنے چاہیں اور سرگذشتیں لکھنے والے اس ضمن میں ا ہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ قران پاک کی یہی تعلیم ہے ۔ شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے ۔
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
کہ در آفرینش ز یک جوہر اند

گیلانی صاحب کی سرگذشت میں ، گھر سے گھر تک ۔ ۔ مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر تک، تاثرات پڑ کر یہ واضح ہورہا ہے کہ مصنف ملک کے اندر اور باہر سیر و سیاحت کا غیر معمولی ذوق و شوق رکھتے ہیں اور اپنے مشاہدات کو مختلف ملکوں ، قوموں اور قبیلوں کے مختلف انسانی رویوں کی نشاند ہی سے خاصا دلچسپ بناتے ہیں ۔ جموں و کشمیر کے منقسم حصوں کے علاوہ کئی مغربی اور مشرقی ممالک کی سیر و سیاحت کر کے انہوں نے ان ملکوں کے مناظر قدرت،لوگوں کے رہن سہن اور سماجی رجحانات کی عکاسی کی ہے ۔ اس طرح ایشیا، یورپ ، امریکہ اور کینیڈا ۔ ۔ جس شہر میں بھی وہ گھومے پھرے ، اس کا خوب مشاہدہ کیا اور دلچسپ واقعات کو سفرنامے کی شکل میں اس آپ بیتی کا حصہ بنایاہے ۔ جو کوئی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا، وہ اس کے حسن سے متاثر ہوگا ۔

یہاں زندگی کی کشمکش کا کوئی پہلو نظروں سے اوجھل نہیں ہے، ہر ایک کا ایک مناسب عنوان ہے ۔ مصنف نے بحیثیت جج، آزاد کشمیر کے حوالے سے ،آئینی ارتقائی نوعیت کے تابع الحاق پاکستان اور الیکشن، آزاد کشمیر کی حیثیت ۔ ۔ صوبہ ;238; ، پاکستان کا حصہ یا کالونی ،، وغیرہ عنوانات چن کر اپنے عدالتی فیصلوں پر جامع روشنی ڈالی ہے ۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادیں یہاں کے باشندوں کو پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی الحاق کا اختیار دیتی ہیں جبکہ اس شق نے الحاق کوصرف پاکستان کے ساتھ محدود کردیا ہے ۔ ،، اس شق کا تعلق عبوری دستوری ایکٹ میں شامل نظریہ پاکستان پر حلف لینے سے ہے، جو آزاد کشمیر میں الیکشن کے قواعد و ضوابط میں شمار کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر کسی اسمبلی امیدوارکے کاغذات قبول یا مسترد کیے جاتے ہیں ۔ یہ شق ، حق خود ارادیت کے نظریے اور سلامتی کونسل کی کشمیر سے متعلق قراردادوں سے متصادم ہے اور گیلانی صاحب نے کتاب میں اس کا اظہار کیا ہے ۔

آزاد کشمیر کے بارے میں اپنے نظریات کی وکالت کرتے ہویے وہ لکھتے ہیں کہ اگر پاکستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اندرونی خود مختاری کے ماڈل کے طور پر پیش کرے گا تو مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لیے یہ بہترین آپشن ہوگی، وگرنہ آزادی کا جو ماڈل وہ پیش کریں گے، وہ آزاد کشمیر کے لوگوں کی بھی تر جیح اول ہوگی کیونکہ موجودہ صورت حال کو کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ ،، یہاں مصنف کے اس نظریے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حق خود ارادیت اور ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کا کیا بنے گا ، جس کا رائے شماری کے ذریعے فیصلہ ہونا باقی ہے اور جبکہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہند و پاکستان ، کی قراردادوں کے نفاذ کا مطالبہ کشمیری عوام کی بھاری اکثریت اور پاکستان مسلسل کر تے آ رہے ہیں ۔ افسوس ہے کہ گزشتہ 30 سالوں میں کشمیری عوام کی قربانیوں اور مہاجرت کی ناقدری کی گئی، جس کا کسی کو کوئی احساس نہیں ہے ۔ ایک بنیادی فریق کی حیثیت سے کشمیریوں کی قیادت عالمی منظر پر لائی گئی، نہ کسی گفت و شنید یا اس میں شمولیت کی اہل سمجھی گئی، جس کے نتاءج اب ہمارے سامنے ہیں 5 اگست 2019 کو بھارت کی توسیع پسند ہندوتوا سرکار نے اس ریاست کو دو الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے وجود میں ضم کردیا اور زیر تسلط علاقے میں انسانیت ، اخلاق اور جمہوریت کی قبائیں تار تار کرنے کا دھندا جاری کیا ۔ ہندوستان کو ابھی تک علاقائی یا بین ا لاقوامی پلیٹ فارم پر سیاسی اور سفارتی ذراءع سے کوئی دندان شکن جواب نہیں ملا ۔

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے میزان زیست کے مصنف نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف(ر) کے چار نکاتی فارمولا پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ سابق صدر پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کے حوالے سے وزیراعظم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں اور لوگوں کے علاوہ آزاد کشمیر سے مجھے اس کا رکن مقرر کیا گیا ۔ مصنف نے بتایا ہے کہ مجھے کیا محسوس ہوا، پاکستان کی حکومت کیونکر کشمیر پر جوں کی توں صورت حال بحال رکھنا چاہتی تھی اور گلگت بلتستان کو کس طرح اپنے ساتھ ملانا چاہتی تھی ۔ جوائنٹ کنٹرول اور منیجمنٹ پر مشرف تیار تھے، لیکن مصنف کے نکتہ اعتراض پر سب خاموش ہوگئے، مصنف کا کہنا ہے کہ آخرکار کمیٹی کی حتمی سفارشات سلامتی کونسل کی قراردادوں ، باہمی گفت و شنید اور حالات میں بہتری لانے کے عمل پر منتج ہوگئیں ، جو پرویز مشرف کے 4 نکاتی فارمولے کے مغائر تھیں اور حیرت ہے کہ بعد ازاں کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ۔ مصنف نے مشرف کے فارمولے کو ڈکسن فارمولہ نمبر 2 کا نام دیا ہے ، جبکہ ڈکسن کی تجاویز میں جوائنٹ کنٹرول اور منیجمنٹ نہیں ہے ۔ ڈکسن کو اس بات کی تلاش تھی کہ کسی طرح اس صورت حال کا حل نکالا جا یے جو ہندوستان کی طرف سے سلامتی کونسل کی قراردادوں میں رکاو ٹیں ڈالنے سے پیدا ہو گئی تھی ۔ کشمیریوں کی غالب اکثریت مشرف فارمولا کی حامی نہیں تھی، جیسا کہ کتاب کے مصنف کا بھی خیال ہے ۔ ایسا ہوبھی نہیں سکتا تھا کیو نکہ کشمیر میں ہندوستانی فوجوں کی موجودگی ہی تنازعے کی جڑ ہے اور گزشتہ 30 سالوں میں کشمیریوں پر جو فوجی اور پولیس مظالم ڈھائے گئے خاص کر 5اگست 2019 کے ہندوتوا اقتدار کے بعد جس طرح جموں و کشمیر کا وجود اور تشخص حرف غلط بنانے کا سلسلہ چل رہا ہے، اس میں بھارت اور اس کے اداروں کے خلاف نفرت اور غیض و غضب کا لاوا پک چکا ہے ۔ افسوس ہے کہ پاکستان نے ابتدا سے ہی لاحاصل تجویزوں کے سلسلے پر اکتفا کیا، حق خود ارادیت کے حصول کے طریقوں ، ٹھوس اقدامات اٹھانے، بنیادی فریق کی قیادت کو عالمی منظر اور مقام پر بٹھانے اور آزاد جموں و کشمیر کو ایک سیسہ پلائی ہوئی فصیل اور بیس کیمپ کے طور پر دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لئے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا ۔ حسرت ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت بھی ایک متحدہ اور جرات مندانہ نظریہ سیاست کی علم بردار نہیں رہی اور یہاں کی تمام پارٹیوں نے ایک ایک کرکے بکھر کر خود کو پاکستان کی تنظیموں کی اکائیاں بن جانے پر اکتفا کیا ۔

تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی دامان بھی ہے
(اقبال)

آخر میں سوانح نگار نے قارئین کے سامنے اپنی زندگی کے بہت ہی قیمتی عملی اور اخلاقی تجربات رکھے ہیں ، لیکن اس سے پہلے انہوں نے کشمیر سے متعلق ہند پاکستان مفاہمتی عمل اور بین الا قوامی معاہدوں اور مسئلہ کشمیر اور ممکنہ حل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ وہ یہ بات شروع ہی میں کہتے ہیں کہ کشمیر زمین کا تنازع نہیں بلکہ حقوق اور انسانیت کا مسئلہ ہے ۔ بدقسمتی سے اس کو سفارت کاری، سیاست کاری اور صحافت نے اپنے کاروبار اور روز گار کا مسئلہ بناکر زمینی حقائق کو ایسا گڈ مڈ کردیا ہے کہ اس کا سرا ہی دکھائی نہیں دے رہا۔،،

مصنف نے اس بات پر حیرانی ظاہر کی ہے کہ مہاراجا کشمیر کے 12 اگست 1947 کے ”معاہدہ جوں کا توں” کے باوجود پاکستان کا آئین اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان خاموش ہیں۔ بقول مصنف پاکستان اس آئینی اور تاریخی پس منظر کی بنیاد پر ، بین الا قوامی سطح پر ہندوستان کی اٹوٹ الحاق کی رٹ کی نفی کر سکتا تھا کیونکہ اس معاہدے کی رو سے حکومت پاکستان کو ریاست جموں و کشمیر پر وہی حقوق حاصل ہو گئے ہیں جو برٹش انڈیا کی حکومت کو ریاست پر تھے ،، اس نکتہ نگاہ کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جوں کا توں معاہدہ کرنے کے بعد پاکستان کشمیر کا دفاع کرنے سے کیوں غافل رہا اور قبائلیوں کو ناقص اسلحہ کے ساتھ آخر کار ہندوستانی فوج سے لڑنے اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ;238; اگر مہاراجا ہری سنگھ کے ساتھ یہ معاہدہ تھا تو وہ سرینگر چھوڑ کر کیسے جموں بھاگ گیا اور ہندوستان کے رحم و کرم پر یا اس کی جھولی میں بیٹھ گیا ;238; پاکستانی حکومتوں کی آج تک کی پالیسیوں اور مُہموں کے مطالعے اور تجزیے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک گام ادھورا تھا اور چند قدم چل کر ملاح دوسری کشتی میں بیٹھ کر یو ٹرن لیتا تھا اور ساتھی بھنور میں پھنس جاتے تھے ۔

مصنف نے اس سرگز شت میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے ایک سے زیادہ تجویزوں کی نشاندہی کی ہے، جن کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں کہ یہ تجاویز آج تک پیش ہونے والی درجنوں تجاویز کا ملغوبہ ہیں لیکن انہیں افسوس ہے کہ مسئلہ کشمیر ساری دنیا میں ایک کارروبار بنا دیا گیا ہے ،، بے شک بعض عناصر کے لیے کاروبار بھی ہے اور اس کی ذمہ داری حکومتوں اور بین الا قوامی طاقتوں پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے ، جنہوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر اس کے حل میں رکاوٹیں حائل کیں ۔ اور آخر میں ہندوستا ن کو یہ موقعہ ملا کہ وہ 30 سالہ کشت و خون کے بعد بین الاقوامی اور دو طرفہ معاہدوں اور بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کو روندتا ہوا ریاست جموں وکشمیر کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ضم کر ڈالے ۔ ہندوستان کی طرف سے برملا پیغام ہے کہ طاقت ہی کسی مسئلے کا حل ہوتا ہے اور اسی لئے گستاخی اور جارحیت سے سچائی اور امن کی توہین کرنا اب اس کا وطیرہ بن چکا ہے ۔

وادی کشمیر، کے زیر عنوان گیلانی صاحب نے مختلف لسانی،مقامی تعصبات کی نشاندہی کی ہے، جو میرے خیال میں اکثر اقوام و ملل میں مخصوص پس منظر کی وجہ سے تاریخ میں پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن سالہا سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ وادی کشمیر اس قسم کی تفریق سے پاک ہورہی ہے اور اگر اب بھی اس کا شائبہ ہے تو اس کا سبب حکمرانوں کی سیاسی انتقام گیری ہے جو بعض طبقوں کو ناجائز مراعات سے نوازنے سے ہے یا سیاسی مفادات کے لئے کسی ایک طبقے کو دوسرے طبقے کے خلاف استعمال کرکے حکمران لسانی، نسلی، پہاڑی ، میدانی، شہری اور دیہاتی سما جی آبادیوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑاتے ہیں ، خود آرام سے سبوں پر حکومت کرتے ہیں ۔ اس کو اقبال کی زبان میں حکمران کی ساحری کہہ سکتے ہیں اور یہی انسانیت کے لئے سم قاتل ہے ۔ بقول اقبال:
خواب سے بیدار ہوتا ہے کبھی محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری

اسی عنوان کے تحت مصنف نے مسئلہ کشمیر کے سوال پر ایک خطرناک خدشے کا اظہار کیا ہے ۔ خدا کرے کہ جموں و کشمیر اس قسم کے بیرونی غلبے اور تسلط سے بچے ، ہمارے سامنے سنکیانگ اور چین کے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کی پرانی اور تازہ ترین کہانیاں اور مثالیں موجود ہیں ۔ وہ ثی ۔ پی ۔ ای ۔ سی، کے بطن میں پوشیدہ جس خطرے کا الارم بجارہے ہیں ، اگر سیاست دان اور حکمران کان دھر کر سن لیں تونہ صرف جموں و کشمیر بلکہ اس میں پاکستان کا بھی بچاو ہے ۔ عالمی تعلقات کے تجربات کا سبق یہ ہے کہ کمزور اور چھوٹے ملکوں کو بڑے اور طاقتور ملکوں کے ساتھ سیاسی فہم و فراست ، دیانت اور خود داری کی بنیاد پر تجارتی، معاشی، کلچرل تعلقات اور معاہدات استوار کرنے چاہیں ، قرضے اور امداد عیاشی اور عوامی استحصال کے لیے لینا برا ہے ۔ مسلم ملکوں کی انسانی فراست اور اسلامی وحدت اور خود داری کیوں صفر ہوگئی ، اسرائیل کا خنجر کیسے عربوں کے سینے میں پیوست ہوگیا اور 19 ویں صدی کے اواخر سے کس طرح نجد و حجاز کے عرب علاقوں پر انگریزوں کا سورج طلوع ہونے لگا اور آج تک عربوں کی سیاست اور تہذیب خون مسلم سے اپنے ہاتھ رنگین کر رہی ہے اور ناموس دین مصطفٰےٰ کو بیچا جا رہا ہے ۔ ان تمام سوالات اور خطرات کے جوابات سامنے ہیں ، بشرطیکہ ہمارے حکمران سمجھ لیں اور امت محمدی کے ساتھ اپنے عہد کی پاسداری کریں ۔

منظور حسین گیلانی کا تعارف

مصنف نے اس بحث کے تنا ظر میں مسئلہ کشمیر کا حل چناب فارمولا قرار دیا ہے ۔ ان کی تجویز ہے کہ ( ہندستان اور پاکستان کو مل کر وادی کشمیر کو چناب فارمولا کی روح کے مطابق حل کرکے اپنے تنازعے ختم کرنے چاہیں تاکہ ان ملکوں کی سیاست اور اقتصادیات پر دنیا کی کوئی اور طاقت غالب نہ آجائے ) ۔ میرا خیال ہے کہ ہندوستان نے 5 اگست 2019 کو اپنے دستورکی دفعات370 اور35 اے ختم کر کے پرامن حل کے تمام راستے مسدود کر دیے ۔ اس کے علاوہ جموں کے مسلمان کسی ایسے حل کو پسند نہیں کرتے ہیں جس سے فرقہ وارانہ فسادات، نقل مکانی اور ہجرت کے مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہوں ۔ ریاست میں حالیہ تباہ کن ہندوتوا اقدامات کے بعدآر ۔ ایس ۔ ایس کے فا شی فرقہ پرست دوبارہ منظم ہوگئے ہیں ، جو ہندومسلم فسادات کے شعلے بھڑکا نے کے لیے تیار ہیں ۔ اس لئے احسن یہ ہوگا کہ جموں میں انسانیت نواز،امن دوست ہندد،مسلم اور سکھ عوام اور لیڈر متحد اور منظم ہوں اور پاکستان اور کشمیری حق خودارادیت کی تحریک کو پوری سیاسی اور سفارتی طاقت کے ساتھ پیش کریں اور تسلیم کرائیں ، جس کے نتیجے میں امید ہے کہ چند سالوں میں دنیا اس مسئلے کے تسلی بخش حل میں ہماری مدد کر ے گی ۔ حق خود ارادیت کی تحریک کو ساری دنیا میں اور تمام فرقوں کے لئے قابل قبول بنانا انتہائی ضروری ہے ۔

بہر کیف میزان زیست ،، ایک ایسی خود نوشت سوانح حیات ہے، جس کا مطالعہ بے حد مفید اور دلچسپ ہے ۔ یہ کتاب ریاست جموں و کشمیر ، پاکستان ا ور ہندوستان کی سیاست ، سماجی زندگی،جنگ و جدل وغیرہ کے پس منظر میں مصنف کے ذاتی تجربات سے آراستہ ہے اور بیش قیمت معلومات کا خزینہ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے