مدرسے بند کرنے سے کیا ہوگا؟

نظرانداز اور متنازع ہو جانے والے بیشمار مسائل میں سے تعلیم سرفہرست ہے جسے مختلف ادوار میں نہ صرف مختلف نقطہ نظر رکھنے والے سیاسی اکابرین و جماعتوں نے برتا، بلکہ متنوع سیاسی جماعتوں نے اپنے مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا۔ وطن عزیز میں تعلیم کی گرتی ہوئی صورتحال اور تین درجات میں بٹی ہوئی کلاسز قائم کرنے کا سہرا کسی ایک جماعت اور ایک مکتبہ فکر کا شاخسانہ نہیں۔

میں 70ءکی بات کروں تو اپنے سکول داخلے اور تعلیم کے ثمرات و مضمرات پر ذاتی و اجتماعی رائے پیش کر سکتی ہوں تاہم اپنے والدین اور نانا، دادا کی انگریزی کی شستگی اور تب کے میٹرک پاس لوگوں کا حساب، انگریزی اور عربی، فارسی و اُردو فیروز اللغات و آکسفورڈ ڈکشنری کے صفحات پر نہ صرف پوری اترتی تھی بلکہ جب بخاری برادران انگریزی بولتے تو انگریز بھی انگشت بدنداں رہ جاتے۔ پطرس بخاری نے ایک انگریز بزرگ خاتون سے کہا Lets make the City red۔ خاتون اس محاورے کے برمحل انتخاب پر داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں۔ ”آو¿ شہر کو رنگین کر دیں“۔ اُردو میں بھی اتنا ہی خوبصورت ہے۔ اب تو جس قدر جڑ اُردو کی ماری گئی ہے، انگریزی کی چولیں ہلانے میں بھی سیلنگ لینگوئج (نہایت جلدی میں بولنے جانے والی کمپوٹرائزڈ زبان) نے کوئی کم کسر نہیں اٹھا رکھی۔ برصغیر کی زبانوں پر ”جھاتی“ ماریں تو کم و بیش ہر زبان کے لوگ رو رہے ہیں۔ یہ تو وہ نقصان ہوا جو ہم بے فائدہ سمجھ کر پڑھا کرتے تھے۔ ”لکھ فارسی بیچو تیل“ مالی مفادات نہ سہی شائستگی ادب اور رکھ رکھاو¿ 60ئ‘ 70ءکی تعلیم کے ساتھ ساتھ منتقل ہو رہا تھا۔ ویلیوز کی حفاظت بذریعہ ناقص تعلیمی نظام بھی چل رہی تھی، کیونکہ گلی محلوں سے سیاہ برقع اوڑھ کر نکلنے والی ٹیچرز اور بھائیوں، والدہ و مرد سائبانوں کے ساتھ سکولوں کے گیٹ سے داخل ہونے والی بچیوں کو TNT فون پر بھی تنہائی میں بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اس کسمپرسی میں رومان پرور ماحول کم نہیں بلکہ زیادہ تھا۔ کوئی رقعہ، کوئی تحریر، کوئی جھلک، کوئی ادھ کھلی کھڑکی، کوئی ہلتا ہوا پردہ، ہزاروں بھید کھولتا اور چھپاتا رہتا۔

سیڑھیاں، پراسرار کوٹھے کی چھت پر بیٹھا کوا اور بان کی چارپائی، دھوپ کا کونہ اور یادوں کے محل، سب بہت زیادہ تھا جو شاعری کی کھاد تھا۔ اب تو ہزاروں کریہہ منظر نظرانداز کرکے دل کو جگانا پڑتا تب شکوہ یہ جاگا کہ ہم تو ترقی نہیں کر رہے، امریکہ تو ایک بٹن دبائے گا اور ساری دنیا کا تیاپانچہ ہو جائے گا۔ اللہ بھلا کرے ایک اکثریت روس کی مداح ہونے کے ساتھ ساتھ کارل مارکس کے عشق میں مبتلا تھی جو امریکی شیطانیت کے آگے سینہ سپر تھا۔ یہ دو مکتبہ فکر اور لہجے و ادب مقبول تھے۔ پھر امریکی، روسی و چینی، جاپانی ایجادات کے شیطانی چرخے گھروں میں پہنچے۔ ادھر وی سی آر پر بھارتی نیم عریاں فلموں کا طوفان آگیا، ساتھ ہی الٹا سیدھا فیشن اور ہندوکلچر، سیدھی سادی لڑکیاں سفر کرکے اب کی اس فلمی شادی تک پہنچ چکی ہیں جہاں تین دن سیٹ لگتا ہے، دولہا، دلہن بھارتی فلموں کا نمونہ بن کر ڈانسنگ فلور، مہندی و سٹیج پر ہیرو، ہیروئن کی مانند بیٹھتے ہیں۔ انگریزی رسم و رواج (جو بھارت نے مغرب سے مستعار لئے) کی مانند دولہا اپنے تخت سے اٹھ کر سامنے سے آتی دلہن کو ”ویلکم“ کرتا اور ہاتھ تھام کر سٹیج پر لاتا۔ مجھے بچپن سے اب تک سمجھ نہیں آسکا کہ دلہن کو شادی والے دن کیا آرتھرائٹس ہو جاتا ہے یا گنٹھیا کا درد، کہ وہ چل کیوں نہیں سکتی، دس لوگ پکڑ کر چلا رہے ہوتے ہیں، حالانکہ شادی کے چوتھے دن یہی دلہن ”لباس والے جوڑوں“ کے ناقص ہونے اور میکے سسرال کے سامان پر مو ازنہ کمر پر ہاتھ رکھ کر کر رہی ہوتی ہے۔ کمر تو دونوں کے والدین کی ٹوٹ جاتی ہے مگر تین دن شادی کا ہر کردار خود کو بھارتی فلم کی ساسوماں، بہورانی، کاکا، دیورجی، دیورانی جی بنا ہوتا ہے۔

اس درون خانہ تنزلی کے ساتھ ساتھ بیرونی ثقافت کی یلغار میں یکایک جنرل ضیاءنمودار ہوئے اور تمام ڈکشن موجودہ زمانے سے لگا کھانے کی بجائے قدیم عربی و فارسی اصطلاحات میں لگے یہ کرنٹ، بیل باٹم، جیکولین ہیئرسٹائل اور آدھے انگریز آدھے ہندو پسند معاشرے کیلئے 100 والٹ کا جھٹکا ثابت ہوا۔ امہ امن کمیٹی، تطہیر، قائمہ کمیٹی اور اُردو نظام تعلیم کوڑے، کرفیو کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی بیٹی زین کیلئے بھارتی اداکاراو¿ں کو ذاتی گیسٹ بنا لیا۔ شتروگھن سنہا تو آج تک بھائی بنے ہوئے ہیں، حالانکہ وہ شیوسینا ہی کا دوسرا رُوپ ہے۔ اس دوغلی پالیسی کے ساتھ ساتھ بھٹو کے غریب بچوں کو جو ماڈرن ازم کا خواب دکھایا گیا تھا، دھڑام سے مدرسے میں لے گیا۔ مدرسہ تو پہلے بھی موجود تھا مگر اب صحیح معنوں میں ”فعال“ ہوا۔

امراءنے اپنے بچے تو اس نظام میں نہیں بھیجنے تھے، ان کیلئے مہنگے امریکن افیلئیٹڈ سکول موجود تھے، باقی کھپت کے باعث بن گئے۔ ملک میں جنرل ضیاءکی بھارتی اداکاروں سے محبت و اسلامی سزاو¿ں والی پالیسی کے عین مطابق امراءنے بھی یہی ذہنیت دکھائی۔ ملک میں تعلیمی درجہ بندی ہمراہ گہرے، کبھی نہ ختم ہونے والے complexes لے کے پرورش ہونے لگی جو بعدازاں اسلام آباد میں برقع پوش بچیوں کے ڈنڈا بردار انتقام کو پہنچی۔ تمام بچے کھچے لوگ مختلف مسلکوں میں پناہ لیتے رہے، اپنی اپنی الگ سوچ و مذہبی منافرت کی چادر ڈال کر اسلامی فکر کی طلباءکو آلہ کار بنانے لگے۔ انگریزی سکول کے بچوں کے تعیشات اور مدرسے میں ملنے والا ماحول ازخود انتقام، کارروائی کیلئے کافی ہے، ایسے میں مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن و دیگر مولانا کیونکر نہ فیضاب ہوتے، لوگوں نے ہمیشہ دوسروں کے complexes کو ”استعمال“ کیا ہے۔ عین دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا تو ہمارے ہاں کی گھریلو عورتیں تک جانتی ہیں، سیاسی کردار کیسے نہ استعمال کرتے۔

اب جب انگریزی طرزتعلیم اور مدرسہ دوبدو کھڑے ہیں، ایسے میں سرکاری گھوسٹ سکول سکون کر رہے ہیں۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ سندھ، پنجاب میں گھوسٹ سکولوں نے اپنے نہ ہونے سے وہ تباہی مچائی ہوئی ہے جو ان صوبوں میں دوہرے معیار double standard schools نے مچا رکھی ہے۔ اب یہ جن بوتل میں تو کیا جائے گا، نیم خواندہ سوچ نے غربا کیلئے کبھی دوچار ماڈل سکول بنا کر انگریزی تعلیم کا ماحول بنایا تو کبھی سکولوں کو نیشنلائز کرنے کا، حالانکہ چند انگریزی سکول اس متکبر و متنفر کلاس سسٹم کا خاتمہ نہیں کر سکتے کہ وہاں محض انگریزی نہیں، غریب سے نفرت، مڈل کلاس کا طعنہ اور والد صاحب کی حرام کی کمائی پر نازاں رہنا بھی سکھایا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، عزت کی حفاظت کرنے والی مڈل کلاس لڑکیوں کا مذاق بھی اُڑایا جاتا ہے۔ جو کوئی مڈل کلاسیا ہمت کرکے بچہ بچی داخل کروا آئے اسے پانچویں کلاس میں بوائے فرینڈ نہ رکھنے پر مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ یہ ایک طویل مافیا ہے۔

[pullquote]یہ جو قلم کو غبار چڑھا ہے اور محض ایک جھلک ہی پر کالم کا دامن بھر پایا تو وجہ وہی سوچ ہے۔ ایک خبر کہ ”شدت پسندی میں ملوث 182 مدارس بند“ اور بندہ خدا مدارس بند کرنے سے کیا ہوگا؟ او مختصر عقل رکھنے والو، کیا اقبال نے ڈنڈے مار کر فلسفہ خودی دیا اور لوگوں کو مزاروں سے نکالا؟ اصل دُکھ کا علاج تو اب بھی نہیں کر رہے ہو تم لوگ۔ وہ دکھ جس نے پانچ برس کے بچے کو بتا رکھا ہے کہ وہ آگے جا کر کس کلاس میں فٹ ہوگا۔ جوتے پالش کرے گا یا کروائے گا؟ جی حضوری کرے گا یا بیوروکریٹ بن کر لوگوں کی تقدیر کے فیصلے؟ کیونکہ اس کا نظام تعلیم اسے بچپن میں نوید سنا دے گا کہ تمام عمر احساس کمتری میں جلنا ہے چاہے جتنی مرضی محنت کرلو۔٭٭
[/pullquote]

بشکریہ خبریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے