ریشمی خواب اور اس کی کرچیاں

زندگی نارمل سی رفتار کے ساتھ چل رہی تھی، جیسے کچھ 60 اور 70 کی رفتار ہوتی ہے کہ گڑیا کے ابو نے بیٹی کی فرمائش پر اسے بھی ایک سمارٹ فون دے دیا. سکرین والا یہ فون ابتدا میں صرف کیمرے کا کام کر رہا تھا اور گڑیا نے گھر بھر کی ڈھیروں تصویریں بنا ڈالیں، لیکن کچھ ہی دن میں وہ اس پریکٹس سے بور ہو گئی. اب ہر کسی کے گھر جا کر وہ فون پر درجنوں تصویریں تو دکھا نہیں سکتی تھی اور گھر میں اول تو مہمان آتے ہی کم تھے اور اگر کوئی آتا بھی تو دو چار منٹ تک تصویریں دیکھنے کے بعد اس کی دلچسپی ختم ہو جاتی اور محلے میں گڑیا کی گنی چنی چند ہی تو سہیلیاں تھیں وہ فرمائشیں کرتی کہ ان کی بھی تصویریں اتار دی جائیں لیکن وہ تصویریں انہیں کہاں دی جاتی، ان میں سے کسی کے پاس سمارٹ فون نہیں تھا ۔میموری کارڈ بھر گیا تو گڑیا کا دل بھی تھوڑا سا اکتا گیا ۔

جب شہر والی پھپھو کی بیٹی آئی اور اس نے سوشل میڈیا سے گڑیا کو متعارف کروایا تو وہ کافی پرجوش تھی. دراصل گڑیا راولپنڈی سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پر واقع ایک گاؤں میں رہتی تھی. اس کے ارد گرد کسی بھی لڑکی کے پاس فون نہیں تھا .سمارٹ فون تو دور کی بات عام فون بھی نہیں تھا .صورتحال یہ ہوئی کہ گڑیا کے والد کیونکہ سعودی عرب میں تیل کی کمپنی میں کام کرتے تھے اور ان کے گھر ماشاءاللہ پیسے کی ریل پیل تھی۔ وہ ہر ڈیڑھ دو مہینے کے بعد 15 دن کی چھٹی پر گھر آتے تھے اور یہ گھرانہ گاؤں کے باقی گھرانوں کی نسبت ذرا خوشحال شمار کیا جاتا تھا۔

اسی لیے گاؤں کے لوگوں میں ان سے محبت کم اور حسد زیادہ پایا جاتا تھا. گڑیا کو پڑھائی لکھائی کا یوں ہی کوئی زیادہ شوق نہیں تھا، وہ بس مشکل سے آٹھویں تک پہنچی اور پھر اس نے سکول چھوڑ دیا ۔

گھر میں صرف وہ تھی اس کی امی اور دو چھوٹے بھائی اس لیے گھر میں بھی کچھ زیادہ کام نہیں تھا اور فطرتا بھی وہ کچھ کام چور تھی. سمارٹ فون کے آنے سے پہلے اس کی دنیا ٹی وی ڈراموں کے گرد گھومتی تھی ۔جو اب آہستہ آہستہ آن لائن چلی گئی۔ وہ شروع میں ڈرتے ڈرتے سوشل میڈیا کے پیجز کو کھولتی جیسے کوئی جرم کر رہی ہو. اور پھر اسے فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، یوٹیوب کی لت لگ گئی. وہ رات گئے تک مختلف لڑکیوں کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھتی، ان کی پکچر ز اور پرفیکٹ زندگیوں پر حیران ہوتی،ان کی خوبصورتی کا خود سے موازنہ کرتی اور یوں دل ہی دل میں اپنی قسمت سے ناراض رہنے لگی ۔

گڑیا کی امی ،باپ کی غیر موجودگی میں بچوں کے لیے بہت محتاط رویہ رکھتی تھی۔ وہ ایک سگھڑ لیکن انپڑھ عورت تھی. وہ گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بھی نپا تلا رویہ رکھتی تھیں۔ ان کے گھر پر رشتہ دار مردوں کا آنا جانا بہت ہی کم تھا۔ اور وہ بیٹی کو کبھی اکیلے باہر بھی نہیں جانے دیتی تھی. وہ اس کی ضرورتوں کا بہت خیال رکھتی۔ آخر اکلوتی بیٹی تھی، پیار سے زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتی رہتی تھی لیکن آن لائن دنیا کے بارے میں خود گڑیا کی امی کو بھی کچھ معلوم نہیں تھا.

جب ایک بار کسی رشتہ دار خالہ نے پوچھا کہ گڑیا ابھی کہاں ہے تو امی نے کہا فیس بک پر کچھ پڑھ رہی ہے۔ ادھر گڑیا تھی کہ خیالی دنیا کی طلسماتی ماحول میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید ڈوبتی جا رہی تھی۔ اب اس کے مختلف ایپس پر کئی ایک نئے لوگوں سے رابطے ہو رہے تھے۔ اور ان میں بہت ساری وہ فیک آئی ڈیز تھیں جو کہ لڑکے لڑکیوں کو بیوقوف بنانے کے لیے بناتے ہیں۔

15 سال کی گڑیا اپنی نوجوانی کے اس نازک دور میں تھی ،جہاں صنف مخالف کی کشش مقناطیسی قوت جیسی ہوتی ہے۔ جسمانی تبدیلیوں ہارمونز کی کمی، زیادتی گڑیا کی سمجھ میں یہ باتیں کہاں ؟وہ تو بس اپنی پسندیدہ سوشل میڈیا سٹارز کی طرح حسین زندگی گزارنا چاہتی تھی .خوبصورت ریشمی بال ،جدید تراش خراش کے نت نئے ملبوسات، کسی نقص پاک چہرہ ،مہنگے بنگلوں کے سرسبز لون اور بڑی بڑی گاڑیاں، آئینہ خانوں جیسے گھر اور ان میں اعلی سجاوٹ کی اشیاء۔۔۔۔۔ اور اب ان میں گڑیا کے خوابوں کا شہزادہ حارث اور ہنی بھی شامل ہو گیا تھا .حارث عرف غنی گڑیا کو آن لائین لڈو کھیلتے ہوئے ملاتھا ۔نمبروں کا تبادلہ ہوا، اور پھر دوستی بڑھ گئی۔۔۔۔

رات دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں ہونے لگیں۔۔۔ دن بھر ایک دوسرے کو دلوں کی تصویریں بھیجی جانے لگیں۔اس محبت کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ گڑیا کے ابو 15 دن کی چھٹی پر گھر آگئے۔ گڑیا کے لیے ہنی سے ہر وقت بات کرنا ممکن نہیں رہا تو اس کا مزاج خراب رہنے لگا ۔ وہ بد مزاج اور چڑچڑی ہو گئی، بات بات پر چیخنے چلانے لگی۔۔۔ بھائیوں کو بلا وجہ میں مار پیٹ کرنے لگی۔ ابو کو اس رویئے پر شکایت ہوئی تو امی پر برس پڑے .

"یہ تربیت کر رہی ہو ، بیٹی ہے، یہاں اس کے یہ حالات ہیں تو اگلے گھر جا کر کیا کرے گی”…

امی بہت پریشان کے اس نے پہلے تو ایسا کچھ نہیں کیا تھا ، کبھی بیٹی کی صفائی دیتیں تو کبھی اپنی صفائیاں پیش کرنے لگتی۔۔۔ مگر کسی کو گڑیا کے چڑچڑے پن کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔۔۔ ابو کی چھٹی ختم ہوئی اور وہ جانے لگے تو پیار سے بیٹی کو گلے لگایا اور سمجھایا دیکھو بیٹا لڑنا جھگڑنا اچھی بات نہیں ہے۔ جواب میں بیٹی نے وعدہ کیا کہ اب وہ ایسا نہیں کرے گی۔۔۔ اور ایک لمبی فہرست فرمائشی پروگرام کی بھی تھما دی۔۔۔ جس میں زیادہ تر میک اپ کا سامان زیورات، جوتے، کپڑے وغیرہ درج تھے ۔۔۔ابو نے بھی وعدہ کر لیا سب کچھ لا کے دوں گا، ابو کےجاتے ہی گڑیا اور ہنی اپنی سابقہ روٹین پر آگئے۔ لیکن ہنی کا رویہ اب کچھ رو کھا سا تھا۔۔ گڑیا سمجھی اس کی عدم موجودگی میں ناراض ہے ۔تو منانے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن ہنی نے ماننے کی صرف ایک ہی شرط رکھی، اپنی تصویریں بھیجیں۔

گڑیا نے بلا تامل تصویریں بھیج دیں۔ تاکہ ہنی اس کی محبت پر کوئی شک نہ کرے۔۔۔ ایک کے بعد ایک تصویر ،پھر ویڈیو اور پھر نازیبا تصاویر کے مطالبات آنے لگے۔۔۔ اب گڑیا کی نہ کوئی قریبی سہیلی تھی، نہ وہ سکول جاتی تھی کہ اسے دنیا کی کوئی خبر ہو۔۔۔ گھر میں اخبار نہیں آتا تھا۔ ٹی وی پر یا ڈدامہ چلتا یا کبھی بھائی کارٹون لگا لیتے تھے۔

گڑیا کو ان مطالبات کے ناجائز ہونے کا کچھ علم ہی نہیں ہوا۔۔۔ وہ ہنی کو پانے کے لیے بے چین تھی۔۔۔ اس کے ساتھ شادی کا برائڈل شوٹ کروانے کے خواب دیکھتی۔۔۔ برف پوش پہاڑوں کے دامن میں ہنی مون کی تصویریں بنانے کا سوچتی رہتی۔۔۔۔ اس کے خواب اتنے سنہرے، رنگین اور جادوئی تھے کہ اگر ان پر کوئی فلم بناتا تو ایک بہترین رومینٹک ہٹ فلم بن سکتی تھی۔۔۔ خواب رنگین بلورجیسے ہوتے ہیں، نازک اور حسین لیکن ٹوٹ جائے تو کرچیاں زخمی بھی اسی شدت سے کرتی ہیں۔۔۔

گڑیا کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ جن تصاویر کو اپنی محبت کی نشانی سمجھ رہی ہے۔۔۔ وہ شہر بھر کی کیا دنیا بھر کے انٹرنیٹ پر مردوں کے ان باکس میں گھوم رہی ہیں۔۔۔ اور ایسے ہی گھومتا پھرتا ایک کلپ گڑیا کے گاؤں میں کسی مرد تک بھی پہنچ گیا۔۔۔

وہاں سے وہ حسد و جلن میں چلتی بھنتی کسی خاتون کے ہاتھ لگا۔۔۔ اور یہ خبر اور کلپ منٹوں میں جہاں تک پہنچایا جا سکتا تھا ۔۔۔بھیجا جا سکتا تھا۔۔۔ بھیج دیا گیا۔۔۔ مگر کسی نے گڑیا کی ماں کو آ کر خبر نہیں دی کہ وہ کچھ سد باب کرتی۔۔۔ یا کچھ سوچتی کہ اب کیا کریں۔

خبر گاؤں کے ہر گھر سے ہوتی ہوئی مسجد کے مولوی صاحب تک پہنچی، وہ سکول ماسٹر کے پاس گئے۔۔۔ باہمی مشاورت سے دونوں گڑیا کی ماں کے پاس پہنچے، آنے کی وجہ بیان کی۔۔۔ اور اس شر پسندی کے حوالے سے انہیں آگاہ کیا۔۔۔ ماں تو ماں ہوتی ہے نا !

وہ ان پر بھلا اعتبار کیوں کرتی اس کی بیٹی تو کبھی گھر سے باہر بھی نہیں نکلی تھی ۔۔۔اور اس کی ننگی تصویریں؟؟؟ کہاں سے آسکتی تھی؟؟؟
بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی!
لیکن وہ پریشان بہت ہو گئیں۔۔۔ ماسٹر صاحب نے کہا بچی کا فون منگوائیں، ابھی پتہ چل جائے گا۔۔۔
تب جا کر انہوں نے گڑیا سے کہا کہ ذرا اپنا فون دکھا دے۔۔۔ ماسٹر صاحب دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ تو وہ بالکل بھی رضامند نہیں ہوئی بلکہ اس نے واویلا مچا دیا۔۔۔ ماں نے کمرہ بند کر کے چپ کروایا اور اسے ساری بات بتائی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے. گڑیا کو شاک لگا اور وہ چپ چاپ کھڑی کی کھڑی رہ گئی. ماں فون لے کر باہر گئیں تاکہ ماسٹر صاحب کو دکھا سکیں اور پیچھے گڑیا چھت پر لٹکے پنکھے سے جھول گئی ، اور یوں گڑیا مر گئی……

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے