جہانِ کُہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو!

کِنگ لیئر نے سیاہ کالی رات کے گھپ اندھیرے میں سخت چٹانوں پر گلوسیسٹر کے اندھے اَرل سے سوال کیا، ”جناب! آپ دنیا کو کس طرح دیکھتے ہیں؟‘‘ بینائی سے محروم اَرل آف گلوسیسٹر نے لاجواب کر دینے والا جواب یوں دیا، ”میں اسے احساس کی بینائی سے دیکھتا ہوں‘‘۔

نئی عالمی وبا نے سخت تقسیم اور بے رحم تفریق کا شکار دنیا کو کئی اعتبار سے مشترکہ احساس کی مالا میں پرو دیا ہے۔ آپ اسے احساس کی روشنی بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پہ کینیڈا کی خاتونِ اوّل صوفی ٹروڈو، سپین کی کورونا سے وفات پانے والی شہزادی ماریہ ٹیریسہ‘ برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورِس جونسن، انگلینڈ اور ویلز کے تختِ شاہی کے امیدوار شہزادہ چارلس۔ کراچی کے سعید غنی، بھارت کے ایک ہی خاندان کے 25 افراد، آسٹریلیا کے ہوم افیئرز منسٹر پیٹر ڈٹن، ایران کے ڈپٹی ہیلتھ منسٹر ایرج ہریرچی، ایرانی نائب صدر اسحاق جہانگیری۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سینیٹر رینڈ پال، موناکو کے شہزادے البرٹ، زِمبابوے کا براڈکاسٹر 30 سالہ زورورو مکامبا اور پاکستان کے 3 رپورٹرز۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے شہیدِ اوّل ڈاکٹر اسامہ ریاض اور ایسے دوسر ے لوگوں کے پیاروں کے کرب اور پچھتاوے ایک جیسے ہیں۔

دہلی کے بس سٹینڈز‘ چنائے کی سڑکوں، کلکتہ کے ریلوے سٹیشن اور آگرہ کے تاج محل میں پھنسے ہوئے گورے، گوریوں کا المیہ بھی یکساں ہے۔
دل میں ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ ”مدر اَرتھ‘‘، اچانک نا مہربان کیسے ہو گئی۔ کچھ سنگ قلب اور سخت جان لوگ ماں دھرتی پر کیے گئے مظالم نہیں مانتے۔ وہ کرّۂ ارضی کو مفت میں ایک طرح کی یوٹیلٹی سمجھ بیٹھے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے بلدیہ کی سڑکیں، گٹر اور نالیاں۔ یا پھر پانی کے نلکے اور پائپ لائنیں، جنہیں جہاں سے چاہو، تاراج کر ڈالو۔

زمین ہمیشہ سے انسان کے لیے مہربان رہی۔ اس کی جینیٹِک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کو کھنکتی مٹّی سے تخلیق کیا گیا۔ آج عالمِ انسانیت شدید خوف، دبائو، اَن دیکھے وسوسوں اور انجانی مصیبتوں کے گورکھ دھندوں میں پھنسا ہوا ہے۔ مشرق کا حال تو ہم مشرقی لوگ خوب جانتے ہیں‘ لیکن، مغرب آج کل 5 بڑے گمبھیر مسئلوں میں گِھر چکا ہے۔ مغربی دنیا کی ان مشکلات کی چند جھلکیاں یوں ہیں:

پہلی مشکل‘ مغربی ممالک کی اوّلین مشکل Count of Death ہے۔ امریکہ، اٹلی، سپین اور جرمنی سمیت حکومتیں اور ریاستیں میّتیں تلاش کرنے اور ان کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہیں۔ کورونا وائرس سے مرنے والوں کی اصل تعداد ریکارڈ پر لانا اس لیے ضروری سمجھا جارہا ہے کہ باقی دنیا کو‘ پھر متعلقہ ملک میں محفوظ رہ جانے والی آبادی کو سمجھایا جا سکے کہ وہ موت کے سائے اپنی طرف بڑھنے سے کیونکر روک سکتے ہیں۔
دوسری مشکل‘ خوف سے کانپتے انسانوں کو کرّۂ ارض پہ باقی رہنے کی امید دلانا ہے۔

آج کے انسان کے سامنے کائنات کی 6ویں بڑی فنا پذیری (Mass Extinction) کی واردات ہو رہی ہے۔ جس کی چند مثالیں روزمرّہ زندگی میں بکھری پڑی ہیں۔ ان میں سے اوّلین مثال گوشت خور انسانوں کے لیے سبزی خور مویشیوں کی ہے۔ مویشیوں کی تہہ در تہہ انڈسٹری سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسِز ہمارے سمندروں کو تیزابی اور آکسیجن سے محروم مردہ زونز کے ذریعے قتل کر رہی ہیں۔ اس زمین کے باسیوں کو شاید ہی ایک اور وحشت ناک حقیقت کا پتا ہو گا‘ یہ کہ 90 فیصد چھوٹی مچھلیوں کو سبزی خور مویشیوں کی غذا بنانے کے لیے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کر کے گولی کی شکل دے دی جاتی ہے۔ اس طرح دنیا میں سمندری حیات کے سب سے بڑے شکاری سبزی خور مویشی بن گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے ”فشریز‘‘ ہمارے پھیپھڑے اور رگیں ہیں‘ جن کا خاتمہ 2048 تک ہو سکتا ہے۔ اسی خوراک کے لیے چھوٹے چھوٹے لاکھوں نو مولود چوزوں کو بھی زندہ پیس دیا جاتا ہے۔

معلوم تاریخ کے مطابق کرّہ ارض پر آج تک صرف 100 ارب انسان آباد ہو سکے ہیں‘ جن میں سے آج کی دنیا صرف 7 یا 8 ارب انسانی آبادی پر مشتمل ہے۔ ان 7 ارب انسانوں کی سہولت یا خوشی کے لیے ہر 7 دن میں 2 ارب زندہ اور حسّاس وجود یا تو مار دیئے جاتے ہیں یا انہیں شدید اذیت دی جاتی ہے۔ اس لیے حضرتِ انسان‘ جو خود بھی ایک وجود ہے‘ کی حرکتوں اور خوشیوں کی تکمیل کے لیے ہر سال 10,000 وجود (Species) کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے۔

تیسری مشکل‘ اس صدی اور آنے والی نصف صدی کے لیے دنیا کی معاشی ضرورتوں کو قابلِ عمل (Sustainable) رکھنا ہے۔ کچھ لوگوں کو‘ جنہیں معاشیات کی ”میم‘‘ کا بھی پتہ نہیں ہے‘ ہر وقت عجب سازشی تھیوریاں سوجھتی رہتی ہیں۔ لیکن رفتار پر بحث کیے بغیر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا ایک بڑے معاشی بحران یا گریٹ ڈپریشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ مگر یہ 19ویں صدی کے تیسرے عشرے والا معاشی ڈپریشن نہیں ہو گا۔ تب ایک شہر کے لوگوں کی خبر دوسرے شہر تک پہنچتے میں بھی ہفتوں لگ جایا کرتے تھے۔ اب عالمی گائوں کی ہر خبر 24/7 ہوا کے دوش پر چلتی رہتی ہیں۔

چوتھی مشکل‘ میڈی کیئر ہے‘ جس نے امریکہ بہادر کو تیزی سے دیوالیہ پن کی طرف دھکیلنا شروع کر رکھا ہے۔ امریکہ سے آنے والی خبر کہتی ہے، میڈی کیئر کی دنیا کا صرف ”سُود‘‘ ادا کرنے کے لیے امریکہ کو 8 کھرب ڈالر کے ٹریژری بلز (بلا سود کا قرضہ) میں سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ یہ سرمایہ کاری اس وقت صفر کے برابر ہے۔ میڈی کیئر بلِز، ترقی یافتہ ریاستوں کو قلّاش کر سکتے ہیں۔ یہ کسی کی خواہش نہیں بلکہ دیوار پر لکھا ہے۔

پانچویں مشکل‘ کھانا اور غذا ہے۔ بہت سے غریب اور ترقی پذیر ملک اپنا غلّہ مغربی ممالک کو بیچ دیتے ہیں۔ ان سب میں ایسے ملک بھی شامل ہیں‘ جہاں کاشت کاروں کے بچے اُن کے بازوئوں میں فاقے سے مر جاتے ہیں، جنہوں نے یہ اناج پیدا کیا تھا۔ مغربی ممالک ایسے اناج کو مویشیوں کے پیٹ کا ایندھن بناتے ہیں۔ اس طرح کئی برّاعظموں میں ہر سال جزوی قحط اور بھوک راج کرتی ہے۔ غذا اور اناج کی دنیا اس وقت ایک پرفیکٹ طوفان کے سامنے کھڑی ہے۔ کورونا وائرس کے بعد کے زمانے نے ثابت کر دیا کہ جارج بُش کا فلسفۂ 9/11 غلط تھا۔ برائی کا محور یا (Axis of Evil) عراق، ایران یا شمالی کوریا سے ہو کر نہیں گزرتا‘ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ یہ امیر ملکوں کے ڈائننگ ٹیبل پر سے گزرتا ہے۔ اس لیے غذا اور کھانے کی بڑے پیمانے پر تباہی مچا دینے کے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction) امیروں کے کانٹے اور چھریاں ہیں، غریب کی جھونپڑیاں اور پِیٹ نہیں۔

عالمی غذائی ریسورسِز کی تباہی کے ان ہتھیاروں کو دوربین سے نہیں اَرل آف گلوسیسٹر کے احساس کی بینائی سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا ہی احساس ساحِر لدھیانوی نے پچھلے گریٹ ڈپریشن میں یوں جگایا تھا:؎
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ ان پہ دیس کی جَنتا سِسک سِسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا؟
کہ نسلِ آدم و حوّا بِلک بِلک کے مرے
مِلیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں؟
کہ دُختَرانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
جہانِ کُہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نَو کے تقاضے سوال کرتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے