انسانیت کے مسیحا

یہ 83-1982 کی بات ہے، ہمارے گاؤں کے پاس ایک علاقے علی پور چٹھہ میں ایک ڈاکٹر اپنی سائیکل پر گاؤں آیا کرتے تھے، ان کی عمر تقریبا ساٹھ سال تھی ، بھاری جسم، درمیانے قد کے بڑے دل والے انسان تھے۔ یہاں ہمارے گاؤں وہ ہر گھر کے دروازے پر جاتے دستک دیتے اور معلوم کرتے کہ آیا کوئی مریض تو نہیں ہے اس گھر میں؟ اگر کوئی مریض ہوتا تو نہ صرف اسکا معائنہ کرتے بلکہ اسکو دوائی بھی مفت دیتے، اور اس کی اجرت صرف ان لوگوں سےلیتے جو صاحب حیثیت ہوتے تھے، ان کی اجرت صرف ایک یا دو روپے ہوتی تھی، باقی لوگوں کو مفت دوا دیتے اور بدلے میں بہت سی دعائیں سمیٹتے۔

ایک دفعہ وہ ہمارے گھر بھی آئے، میں اس وقت بیمار تھی تو انہوں نے بڑے پیار سےمیرا حال پوچھا اور پھر میرا معائنہ کیا اور مجھے دوائی بھی دی۔ میری نانی اماں نے ان سے پوچھا :
کہ بھائی آپ اتنی دور سے تکلیف کر کے ادھر آتے ہیں اور سب گھروں کے دروازے پر جا کر کسی بیمار کا پوچھتے ہیں، سارا دن تو آپ کا یہاں گزر جاتا ہے تو اس سے کیا حاصل ہوتا ہے آپ کو۔؟؟

انہوں نے کہا:
کہ مجھے یہ سارا عمل بہت سکون اور خوشی دیتا ہے، ایسا سکون تو مجھے وہاں اپنے علاقے کے اسپتال پر کام کر کےبھی نہیں ملتا، جو یہاں ملتا ہے۔ میرے بیٹے ملک سے باہر ہوتے ہیں، وہ مجھے جو پیسے بھیجتے ہیں ، وہ میری ضروریات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ، میری ضروریات تو گاؤں کے مطب سے ہی پوری ہو جاتی ہیں ۔ میں یہ پیسہ حقداروں کے پاس دوائی اور دعا کی صورت میں پہنچا دیتا ہوں ۔ بس اتنا سا میرا کام ہے۔ ایک ڈاکیا ہوں ، ڈاک پہنچانے آتا ہوں ۔ ڈاک پہنچا کر چلا جاتا ہوں۔

دوسرا واقعہ جو میرے لئے قابل فخر ہے، وہ میری بچپن کی سہیلی کا ہے۔ ہم دوسری جماعت سے دسویں جماعت تک اکٹھے پڑھے، اسکے بعد ہمارے کالج الگ ہو گئے۔ وہ ایف۔ایس۔سی کر کے میڈیکل کالج میں چلی گئی۔ کبھی کبھار جب وہ اپنے گھر آتی تو ملاقات ہو جاتی ۔ مگر جب وہ ڈاکٹر بن گئی تو اس خوشی کو بانٹنے کے لئے میں اس کے کلینک پر چلی گئی جو اس نے ہمارے ہی علاقے میں ، اپنے گھر کے قریب شروع کیا۔

آنٹی سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا: کہ کیسی چل رہی ہے اس کی پریکٹس تو انہوں نے بڑے تنگ ہو کر کہا کہ کیا چلنی ہے ! جو کماتی ہے وہ دوسرے لوگوں پر لگا دیتی ہے، حالانکہ اسکی تعلیم پر ہم نے اتنے پیسے خرچ کیے۔

کمرے میں موجود ہم سب مسکرانے لگے تو ڈاکٹر صاحبہ نے کہا:
کیا کروں جب کسی کو نسخہ لکھ کر دو اور اسکا چہرہ آپکو صاف بتا رہا ہو کہ بس اتنے ہی پیسے ہیں انکے پاس ، آگے کا علاج ناممکن ہے تو ان کو دوائی کے لئے بھی مدد کر دیتی ہوں کیونکہ نسخے سے اسکو آرام نہیں آنااس لئے دوائی دینا بھی دوائی ضروری ہے۔

یہ ہیں انسانیت کے مسیحا جن کے بارے میں ہم جانے کیا کچھ کہتے ہیں کہ لوٹتے ہیں، قصائی ہیں، رحم نہیں کرتے، مزاج نہیں ملتے، فلو کے مریضوں کو کرونا ثابت کر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان کو اپنے آرام سکون کی بھی پروہ نہیں ہوتی، فیملی سے زیادہ اپنا فرض ادا کرنے میں مشغول رہتے ہیں ۔ یہ وہاں ہوتے ہیں جہاں ہمارے اپنے درد میں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، ہمارا خیال نہیں کرتے، اگر ان کے گھر میں کوئی تقریب ہو اور ان کو ایمرجنسی میں بلایا جائے تو فورا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسپتال چلے جاتے ہیں ۔ رات دن گھنٹوں کے حساب سے ڈیوٹی دیتے ہیں، جس کے باعث نیند کی کمی اور تھکاوٹ سے تھوڑا سا چڑچڑا پن دکھا دیں تو آپ کو چاہیے کہ ان کو برداشت کر لیں، آخر کار یہ بھی انسان ہیں ۔

اپنے آرام ، تکلیف کو پس پشت ڈال کر صرف ہمارے درد کو دور کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ ان کے لیے صرف ایک مریض جو اپنی زندگی موت سے لڑ رہا ہوتا ہے ، ان کا مقصد اس کی زندگی بچانا ہوتا ہے۔ جو وہ پوری جاں فشانی سے کرتے ہیں ۔

جیسے ہماری اپنی ایک ہاتھ کی انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے ہی سب ڈاکٹرز بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ، اس لئے رویوں میں لچک ضروری ہے، جینے کے لئے تھوڑا سا، زہن اور رویہ بدلیں ماحول خود بخود بدل جائے گا ۔ کھل کر سانس لیں اور دوسروں کو بھی لینے دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے