پنجاب کو اپنا مؤقف واضح کرنا چاہیے!

چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور(CPEC) کے حوالے سے تنازع بڑھتا جا رہا ہے۔ ابتدامیں اکا دکا اختلافی مضامین شائع ہوئے، چند ایک بیانات آئے ،مگر اب یہ معاملہ باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کررہا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ” سی پیک‘‘ کے حوالے سے اختلافی نقطہ نظر رکھنے والے لوگ بنیادی طور پر پختون خوا اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیںاور کم از کم خیبر پختون خوا کی حد تک تمام سیاسی جماعتیں یا ان کی صوبائی تنظیمیں اس ایشو پر متفق ہوکر ایک ہی بات کر رہی ہیں۔ان سب کی تنقید کا نشانہ وفاقی حکومت اور وزیراعظم ہیں، دونوں چھوٹے صوبوں کو یہ خدشہ ہے کہ مرکزی حکومت اکنامک کاریڈور کے مغربی روٹ پر برائے نام توجہ دے رہی ہے اور درحقیقت مشرقی روٹ کو فعال اور ثمربار کرنا مقصود ہے۔ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے، ہرگزرتے دن کے ساتھ پیچیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ نوبت یہ آچکی ہے کہ چین جو سفارتی نزاکتوں کے حوالے سے بہت محتاط اور حساس رہتا ہے، اسے بھی اختلافات ختم کرانے کے لئے باقاعدہ بیان جاری کرنا پڑا ہے ۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ صورتحال کی نزاکت اورسنگینی کا احساس کیا جائے۔

اکنامک کاریڈور کے حوالے سے آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھنے اور ماننے کی ضرورت ہے کہ یہ اعتراضات سیاست برائے سیاست یا صرف قوم پرستی کی بنیاد پرنہیں کئے جا رہے۔ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کسی حد تک یہ بات کہی جاسکتی ہے کیونکہ وہ ایشو اس قدر سیاست زدہ ہوچکا اور سندھی ،پختون قوم پرست جماعتیں اس کی مخالفت میں اتنا آگے جا چکی ہیں کہ ان کے لئے اب چاہتے ہوئے بھی واپس ہونا ممکن نہیں رہا۔ اکنامک کاریڈور پر اعتراضات مگر صرف اپوزیشن یا پنجاب سے ناراضی کی سوچ رکھنے والی قوم پرست جماعتیں نہیں کر رہیں۔یہ درست ہے کہ پچھلے سال شروع میں اے این پی اور بلوچ قوم پرست جماعتیں اس حوالے سے زیادہ متحرک تھیں، ابتدا میں اے این پی اور بلوچستان کے قوم پرست متحرک تھے، اس وقت تحریک انصاف خاموش رہی،

جس پر اسے اے این پی وغیرہ طعنے بھی دیتی رہیں۔وہ ایشو وزیراعظم نواز شریف نے بڑی عمدگی سے نمٹایا۔انہوں نے تمام جماعتوں کو تفصیلی بریفنگ دے کر ، مغربی روٹ پہلے بنانے کا اعلان کیا اور تمام اختلاف پانی کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ حالیہ اعتراضات زیادہ منظم اور بھرپور انداز میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف اس بارپیش پیش ہے ،وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ایسے زوردار انداز میں یہ ایشو اٹھایا اور اتنی پرجوش بڑھکیں لگائیں کہ پنجابی فلموں کے شائق مظہر شاہ ،الیاس کشمیری اور مصطفی قریشی کی بڑھکیں بھول گئے۔خیر وہ سب کچھ بھی ضرورت سے زیادہ اور نامناسب تھا،وزیراعلیٰ کی سطح کے رہنمائوں اور گلی محلے کی سیاست کرنے والوںمیں فرق ہونا چاہیے۔

حالیہ احتجاج میں اس وقت صوبے کی تمام جماعتیں شامل ہیں۔ اے این پی، جے یوآئی ، پیپلزپارٹی وغیرہ تو شامل ہیں ہی، خود حکمران جماعت مسلم لیگ کی صوبائی تنظیم اور گورنر مہتاب عباسی بھی، جو صوبے میں وفاق کے نمائندہ ہیں، تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کی طرح سوچ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی پارٹی نے بھی، جو ہمیشہ قوم پرستوں سے فاصلے پر رہی اور صوبائیت جس کے ایجنڈے پر کبھی نہیں رہی، کاریڈور کے حوالے سے احتجاج کا ساتھ دیا۔ اس لئے پہلے توہم سب تسلیم کر لیں کہ یہ کالاباغ ڈیم جیسا ایشو نہیں، جس کے بارے میں پنجاب میں یہ تصور عام ہے کہ صرف صوبائیت، قوم پرستی اور تنگ نظر سیاست کے پیش نظر اس کی مخالفت ہو رہی ہے۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کے حوالے سے اعتراض کرنے والوں کی نیت، خلوص، حب الوطنی یا وژن پر کسی بھی صورت شک نہیں کیا جا سکتا۔ جب کسی صوبے کے تمام اہل سیاست، اہل علم ودانش اور لکھنے ، بولنے والے ایک ہی بات کہہ رہے ہوں تو پھر ان کی بات کو ہر حال میں وزن دینا پڑے گا۔

بلوچستان میں بھی سی پیک پر تحفظات موجود ہیں، مگر ان کی نوعیت مختلف ہے۔ وہاں گوادر کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں اور انہیں بھی بے وزن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اختر مینگل کی بلائی گئی اے پی سی کے اعلامیہ کو سیریس لینا چاہیے اور معمولی سی غفلت بھی نہیں برتنی چاہیے کیونکہ اقتصادی شاہرا ہ کے خلاف بلوچستان میں پہلے سے ایک لابی موجود ہے۔چنگاری کو اگر شعلہ بننے دیا گیا تو یہ فوراً بھڑکتے الائو میں بدل جائے گی۔

یہ بات بھی اب واضح ہو چکی ہے کہ وفاقی حکومت اس تنازع کو نمٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پچھلے دو برسوں سے اس ایشو کو جناب احسن اقبال ڈیل کر رہے ہیں۔ وہ پڑھے لکھے وزیر ہونے کا تاثر رکھتے ہیں، اقتصادی امور کو سمجھنے کی ممکن ہے ان میں صلاحیت ہو، مگر یہ معلوم ہوچکا کہ کاریڈور کے متعلق اعتراضات دور کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔معلوم نہیں احسن اقبال کو ان کی قیادت کی جانب سے کہا گیا ، یا یہ نکتہ ان کے ذہن رسا کی پیداوار تھا کہ اس معاملے پر ابہام کی کیفیت جاری رہے، بدقسمتی سے یہ حکمت عملی بائونس بیک کر گئی ہے اور اب حکومت کی کسی یقین دہانی پر کوئی اعتماد کر نے کو تیار نہیں۔

اکنامک کاریڈور کے مجوزہ روٹ تین ہیں۔مغربی روٹ جو بلوچستان سے خیبر پختون خواسے بذریعہ ژوب ، ڈی آئی خان جڑتا ہے اور پھر آگے کے پی کے کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا شاہراہ ریشم تک جائے گا۔ اس روٹ پر سڑکیں تو بن رہی ہیں، مگرمعترضین کو خدشہ یہ ہے کہ سڑک کے ساتھ دوسرے پراجیکٹس جیسے آپٹک فائبر لائن، گیس پائپ لائن، ریلوے، صنعتی زون وغیرہ اس مغربی روٹ پر اس طرح نہیں بنانے کا منصوبہ نہیں، جیسا کہ مشرقی روٹ کے لئے سوچا جا رہا ہے۔ مشرقی روٹ بلوچستان سے نوڈیروسندھ اور پھرسکھر وغیرہ سے ہو کر رحیم یار خان سے ملتان اور پھر آگے مختلف سٹیشنوںسے ہوتا ہوا شاہراہ ریشم تک جائے گا۔ اس روٹ کا بیشتر حصہ پنجاب اور سندھ سے گزرے گا۔کے پی کے والے یہ سوچ رہے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف مشرقی روٹ پر زیادہ توجہ دیں گے کیونکہ یہاں پر ان کا سیاسی مرکز ہے۔ میاں صاحب اور وفاقی وپنجاب حکومت اس تاثر کی نفی کر رہی ہے، مگر اصل مسئلہ اعتماد کا بحران (Trust Deficit)ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ مجوزہ روٹس میں سے ایک سنٹرل روٹ بھی ہے، یعنی انڈس ہائی وے جو بلوچستان سے سندھ اور پھر ڈی جی خان سے وہ پنجاب سے جڑتی ہے اور پھرکئی دوسرے مقامات سے ہوتی ہوئی وہ بھی شاہراہ ریشم سے جا ملے گی۔ اس سنٹرل روٹ کی بھی کوئی بات نہیں کر رہا، حالانکہ اس سنٹرل روٹ کو بھی فعال بنانے اور اس پر توجہ دینے سے ڈی جی خان، راجن پور، میانوالی، لیہ ، بھکر جیسے پسماندہ اضلاع کے صدیوں سے محروم باسیوں کو فائدہ ہوگا، مگر چونکہ یہ سب سرائیکی اضلاع ہیں اور پاکستانی سیاست میں سرائیکی ارکان اسمبلی سے زیادہ سست، کاہل اوراپنے ووٹروں سے غیر وفادار کوئی اور نہیں۔ صرف برادرم رئوف کلا سرا نے یہ نقطہ اٹھایا ہے، مگرایسا ہی ہے کہ چولستان اور تھل جیسے وسیع صحرا ئوںمیںکوئی اکیلا کھڑاآوازیں دے۔ نتیجہ معلوم ہی ہے۔

چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کے منصوبے کو اگر غیر متنازع اور شفاف بنانا ہے تو پھر دو تین فیصلے کرنے ہوں گے۔اتنے بڑے منصوبے کو سنبھالنا اور معترضین کو مطمئن کرناجناب احسن اقبال کے بس کی بات نہیں۔ اس منصوبے پر عملدرآمد کی کمیٹی کا سربراہ پنجاب سے نہیں ہونا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ بلوچستان یا خیبر پختون خوا سے کسی قدآور سیاستدان کو یہ ذمہ داری سونپی جائے ، اگر اس کا تعلق مسلم لیگ ن سے نہ ہو تو یہ سونے پر سہاگا ہوگا۔میاں نواز شریف اگر تحریک انصاف یا اپوزیشن کی دوسری جماعتوں سے کسی کو نہ چننا چاہیں تو اپنے اتحادیوں اے این پی، جے یوآئی ، شیرپائو یا بلوچستان میں اچکزئی صاحب یا کسی اور کو چن لیں۔ یہ ذمہ داری ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بھی دی جاسکتی ہے۔ وہ وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، معتدل بلوچ قوم پرست ہیں، ان کی جمہوریت سے کمٹمنٹ بھی کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ انتخاب جو بھی ہو، مگرایسا فوری کرنا ہوگا۔

وفاقی حکومت اور وزیراعظم پر تنقید ایک طرف سے منعکس ہو کر پنجاب کی طرف آ جاتی ہے۔ ایک بار پھر پنجاب کا بڑے بھائی کی جگہ ظالم اور حق مارنے والے بڑے بھائی کا تاثر ابھر رہا ہے ،جو کسی صورت درست نہیں۔ اکنامک کاریڈور کے حوالے سے اگر کچھ شکوک پیدا ہوئے ہیں، توایسا مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کے رویہ اور سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے ہے۔ پنجاب کے عوام کا اس میں کوئی لینا دینا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی دوسری جماعتیں اپنا موقف واضح کریں۔تحریک انصاف، پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی ، عوامی تحریک اور دوسری جماعتوں کی پنجاب کی تنظیم کو واضح الفاظ میں قوم کو بتانا ہوگا کہ وہ سب چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کو غیر متنازع بنانا چاہتے ہیں، کسی کی یہ خواہش نہیں کہ خیبر پختون خوا کا حق مار کر مغربی روٹ کی جگہ مشرقی روٹ کو زیادہ فعال بنایا جائے یا صنعتی زونز یہاں منتقل کئے جائیں۔ تاریخ کے ہر موڑ پر چھوٹے صوبوں کے سامنے پنجاب ایک ولن کی طرح آ جاتا ہے، اس بار ہم پنجاب کے رہنے والوں… اہل دانش، میڈیا کے لکھنے، بولنے والوں کو اپنا وزن پنجابی سیاسی اشرافیہ کے بجائے چھوٹے صوبوں کے ساتھ ڈالنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے