امریکا میں سوشلزم کی انگڑائی

ہر واقعہ کسی دوسرے واقعہ سے منسلک ہے، ہر راز کسی دوسرے راز میں پنہاں ہے، ایک بات کسی دوسری بات سے جڑی ہوئی ہے، ہر فکروسوچ کسی دوسری فکروسوچ پر منحصر ہوتی ہےـ زمان و مکان کے واقعات بے ہنگم و بے ربط نہیں ہوتے، ہر عمل کا جواز ہوتا ہےـ ہر جواز کا پس جواز بھی ہوتا ہےـ ہر فلسفیانہ موشگافی کا سیاق و سباق ہوتا ہےـ جواز، وجوہات اور سیاق و سباق کا ادراک ہی انسان کو حقیقی سچائی تک رسائی دیگا. جدلیات کی سائنس سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی حادثہ لمبے عرصے سے چلی آ رہی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔ امریکی صدارتی امیدواروں میں دو افراد یعنی ڈونلڈٹرمپ اور برنی سٹینڈرز کا ابھار وہاں کی بظاہر پوشیدہ طبقاتی چپقلش کا منطقی نتیجہ ہے. حالانکہ دونوں امیدواروں کی فتح بہت کم یقینی ہے.

منہ پھٹ، انتہا پسند، جنونی اور ارپ پتی ڈونلڈ ٹرمپ کا ابھار لبرلزم کی حقیقی آواز ہے. بیشک ٹرمپ کی بدتمیزی اور الزامات کی بوچھاڑ امریکی سیاست میں رائج اقدار اور سیاسی معیار کے پڑخچے اڑا رہی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سماج کی آذاد خیال اور قدامت پرست دونوں پرتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اِس تماشے سے بہت خوش ہیں اور ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ پاگل پن پر مبنی ٹرمپ کی پالیسیاں نہ صرف پہلے سے روبہ زوال امریکی سامراج کے لئے خطرناک ہوں گی بلکہ عوامی بغاوت کو بھی بھڑکا سکتی ہیں۔ ٹرمپ کے حمایتیوں میں بڑی تعداد درمیانے طبقے کے امریکیوں کی ہے جن کا معیار زندگی معاشی بحران میں مسلسل زوال کا شکار ہے اور اپنی فرسٹریشن میں درمیانہ طبقے سے ایسے سیاسی جھکاؤ کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لبرل اور قدامت پرست، دونوں طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی عقل اور دانش سرمایہ داری کی اخلاقیات، سیاسیات اور معاشیات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ٹرمپ اصل میں اُس لبرل اور سیکولر طبقے کا نمائندہ ہے جنہیں کسی انقلابی تبدیلی کا کوئی ادراک نہیں، اگر کبھی تھا تو یہ لوگ اس سے منحرف ہوچکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ دراصل لبرلزم کی حقیقی آواز ہے، یعنی کھلی رجعت، شاونزم، دیگر اقوام سے نفرت اور کھلی نسل پرستی کی آواز. ٹرمپ برسرِعام امریکہ آنے کے خواہش مند مسلمانوں کی آمد پہ پابندی کی باتیں کر رہا ہے.

ڈونلڈ ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ

یہ جدلیاتی مادیت کے بنیادی مفروضوں میں سے ایک ہے کہ انسانی شعور حالات کے پیچھے چلتا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر یہ ایک دوسرے سے آ ملتے ہیں۔ یہی انقلاب ہے اور جو کچھ ہم امریکہ میں دیکھ رہے ہیں، یہ ایک سیاسی انقلاب کی شروعات ہے۔ راتوں رات سب کچھ بدل گیا ہے۔ یہ خود سماج میں ہونے والی گہری تبدیلی کی علامات ہیں۔ موجودہ حالات میں تیز اور اچانک تبدیلیاں مضمر ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات ایک دلچسپ صورت حال کی غمازی کرتے ہیں۔ امریکی سیاست کی متذبذب اور غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے نتائج کی ٹھوس پیش گوئی فی الوقت ناممکن ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کی زیادہ تر توجہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ہے۔ اس بات کی توقع نہیں ہے کہ امریکی لبرل طبقہ جو کہ اصل حکمران طبقہ ہے، اپنے معاملات کو ایک جاہل مسخرے کے ہاتھوں میں دے گا۔ لیکن ماضی قریب میں انہوں نے کم از کم دو مرتبہ ایسا کیا ہے۔ لبرل طبقے کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو ہیلری کلنٹن یقینی طور پر ’محفوظ جوا‘ ہے۔

دوسری جانب برنی سینڈرز کا ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنا سماج میں گہری بے چینی اور اضطراب کی علامت ہے۔ اُس کے ارب پتیوں کے خلاف حملوں اور ’’سیاسی انقلاب‘‘ کی باتیں لاکھوں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ کلنٹن یا ٹرمپ سے زیادہ اہم برنی سینڈرز کی وسیع حمایت ہے جو واضح طور پر سوشلزم کی بات کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ برنی سٹینڈرز کی باتیں حقیقی سوشلزم سے زیادہ سکینڈنیوین سوشل ڈیموکریسی سے مماثلت رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ ایک اہم نشانی ہے کہ امریکہ تبدیل ہورہا ہے۔ جون 2014ء، کی ایک رائے شماری کیمطابق 47 فیصد امریکی سوشلزم کو ووٹ دینے کے حق میں ہیں جن میں سے 69 فیصد کی عمریں تیس سال سے کم تھیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، برنی سینڈرز کے پیغام کو سننا چاہتے تھے۔ لبرل طبقے کے مطابق ’’سوشلزم ختم ہو چکا‘‘ ہے اور اُن کے آذاد منڈی کے نظام کی ابدی حاکمیت اٹل و ابدی ہے۔ سرمائے کے اس تسلط کو کبھی ٹائی سوٹ تو کبھی داڑھی چغے کے لبادے میں قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تقریباً دو دہائیوں سے سوشلزم کی موت کا اعلان مسلسل کیا جا رہا ہے، بھلا مبینہ طور پر ایک مردہ نظام کا اعلان مرگ بار بار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ شاید سامراج اور حکمران طبقات کے سنجیدہ پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں کہ سرمایہ داری کا جبر و استحصال جب تلک باقی ہے اس کے خلاف بغاوت ختم نہیں ہوسکتی۔ اسی بغاوت کو زائل رکھنے کے لئے سوشلزم کی ’’ناکامی‘‘ اور خاتمے کا اعلان ہر وقت کیا جاتا ہے۔

برنی سینڈرز
برنی سینڈرز

لبرل طبقات کو دھچکا اس وقت لگا جب امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں برنی سینڈرز نے ہیلری کلنٹن کو 22 فیصد ووٹوں سے شکست دی۔ یہ کنونشن تاریخی طور پر صدارتی امیدوار کے چناؤ کے لئے کلیدی سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس سے بھی بڑی شکست ہے جو 2006ء کی انتخابی مہم میں باراک اوباما نے ہیلری کلنٹن کو دی تھی۔ ہیلری کلنٹن کی مہم میں اسے وال سٹریٹ کے بڑے بینکاروں اورسرمایہ داروں کی بھاری مالی امداد حاصل رہی ہے۔ برنی سینڈرز نے ’’امیر ترین ایک فیصد‘‘ لوگوں کی مالی امداد لینے سے انکار کیا ہے اور عوامی چندے سے اپنی مہم چلا رہا ہے۔ اس چندے میں 27 ڈالر سے زیادہ رقم کوئی نہیں جمع کروا سکتا، اس کے باوجود چند ہفتوں میں لاکھوں ڈالر اکٹھے ہوئے ہیں، ایسی مثال امریکی سیاست کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہیلری کلنٹن کی مہم میں سرمایہ داروں کی دی گئی رقوم برنی سینڈرز کی مہم کے کل مالی حجم سے 10 گنا زیادہ ہیں۔ یوں ہیمپشائر میں ہیلری کو نہیں بلکہ سرمایہ داروں کو شکست ہوئی ہے۔برنی سینڈرز کی اس فتح کے بعد چندہ دینے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اس کی ویب سائٹ ہی کریش ہو گئی۔

برنی سینڈرز نے براہ راست اس طبقاتی تضاد کی بات کی ہے جو امریکی سماج میں شدید تر ہوتا چلا جا رہا ہے، اس نے امارت اور غربت کی مسلسل وسیع ہوتی ہوئی خلیج کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ یہاں تک کہ اس نے ’سوشلزم‘کا نعرہ بلند کیا ہے جسے امریکی سیاست میں خاصا ’معیوب‘ اور ’غیر فطری‘ سمجھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشلزم کے تذکرے نے اسے غیر معروف کرنے کی بجائے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ سال پہلے تک ایسے کسی مظہر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دوسری طرف ہیلری کلنٹن ڈیموکریٹک پارٹی کی روایتی قسم کی نحیف سی اصلاح پسندی کی بات ہی کر رہی ہے، اس نے وال سٹریٹ (امریکی سرمایہ دار طبقے کی علامت) کے خلاف کوئی بیان دینے سے گزیر کیا ہے اور افغانستان سے لے کر عراق اور شام تک، امریکی جارحیت کی حمایت کی ہے۔ خارجہ پالیسی کے معاملے میں ہیلری اس قدر رجعت اور ڈھٹائی پر اتر آئی ہے کہ ہنری کسنجر کو امریکہ کی تاریخ کے عظیم ترین وزرائے خارجہ میں سے ایک قرار دے دیا ہے۔

ہیلری کلنٹن
ہیلری کلنٹن

برنی سینڈرز نے لوٹ مار اور جعل سازی میں ملوث تمام بینکوں کے خلاف اقدامات، امیر ترین ایک فیصد پر 70 فیصد ٹیکس، تعلیم اور علاج کی ریاست کی جانب سے مفت فراہمی کا پروگرام پیش کیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ دنیا کا واحد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک ہے جہاں یونیورسل ہیلتھ کیئر نہیں ہے اور علاج انتہائی مہنگا ہے۔ اسی طرح سینڈرز نے جنگوں اور سامراجی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے ’نوبل انعام یافتہ‘ ہنری کسنجر کو جنگی مجرم قرار دیا ہے۔حیران کن بات یہ بھی ہے کہ 74 سالہ سینڈرز کے 76 فیصد حمایتی 18 سے 40 سال کے نوجوان یا کم عمر افراد ہیں۔ برنی سینڈرز کی سیاسی بنیاد زیادہ تر محنت کش اور غریب عوام ہیں اور دوسرے تمام امیدواروں کی جلسے ملا لئے جائیں تو بھی اس کے جلسے بڑے ہیں۔

یہاں کچھ باتیں بالکل واضح ہونی چاہئیں۔ برنی سینڈرز کوئی مارکسسٹ یا انقلابی سوشلسٹ نہیں ہے۔ وہ ’سیاسی انقلاب‘ اور ’سکینڈنیویا ماڈل‘ والے سوشلزم کی بات کرتا ہے جس میں امیروں پر ریاست بھاری ٹیکس عائد کرے، ان پر ’چیک‘ رکھے اور عوام کو بنیادی سہولیات مفت فراہم کی جائیں۔ یورپ کے حالات واضح کر رہے ہیں کہ سوشل ڈیموکریسی کے اس نام نہاد ماڈل کی گنجائش اب سرمایہ دارانہ نظام میں ختم ہو چکی ہے۔لیکن مروجہ امریکی سیاست کے تناظر میں سینڈرز یہ باتیں بھی بہت ’ریڈیکل‘ ہیں۔ وہ کم از کم طبقاتی تضاد اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار پر تنقید تو کر رہا ہے۔ سینڈرز کی مقبولیت اس کی ذاتی خصوصیات کی وجہ سے کم اور امریکی سماج میں حکمرانوں کے خلاف پکنے والے غصے کی وجہ سے زیادہ ہے۔کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں عوام کو جہاں بھی اپنی امنگوں کی تھوڑی بہت بازگشت سنائی دے رہی ہے وہ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی اور ریاست کی اشرافیہ اول تو سینڈرز کو صدارتی امیداوار کے طور پر نامزد نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ہو بھی گیا تو اسے جیتنے نہیں دیں گے۔ لیکن اس صورت میں امریکی عوام کا غم و غصہ بڑی تحریک کی شکل میں اپنا اظہار کر سکتا ہے جو امریکی سیاست اور سماج کی نقشہ ہی بدل ڈالے گی۔ ایسی کوئی تحریک ’آکو پائی وال سٹریٹ‘ کی تحریک سے کہیں زیادہ وسیع اور ریڈیکل ہوگی۔

مقابل امیدوار
مقابل امیدوار

برنی سینڈز جیتے یا ہارے لیکن امریکہ کا نوجوان اور محنت کش آج سوشلزم کے نعرے پر لبیک کہہ رہا ہے۔2008ء سے پہلے ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ سوشلزم کے خلاف سب سے بڑی سامراجی طاقت کی کوکھ میں آج سوشلسٹ انقلاب کے بیج پک رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے