تو پھر نواز شریف کیا فیصلہ کریں گے؟

ملکی سیاست میں ان دنوں پانامہ لیکس کی وجہ سے ایک بھونچال کی کیفیت دکھائی دیتی ہے .

وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت اس وقت سیاسی محاز پر انتہائی کمزور پوزیشن پر آ چکے ہیں. پانامہ لیکس کے اثرات دنیا کی کئی سیاسی حکومتوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے خلاف بھی لندن میں مظاہرے شروع ہو چکے ہیں. کئی مبصرین کے خیال میں ڈیوڈ کیمرون کو مستعفی ہونا پڑے گا.اگر ڈیوڈ کیمرون اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تو نواز شریف کیلئے پاکستان میں وزارت عظمی کے عہدے پر فائز رہنا تقریبا ناممکن ہو جائے گا.عمران خان پس پشت قوتوں کی شہ پا کر ایک بار پھر متحرک ہیں اور اس معاملے کو لے کر وہ میاں نواز شریف کو سیاسی محاذ پر ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں. ایک پہلے سے کمزور وزیراعظم جو خارجہ پالیسی سے لیکر ملک کی داخلہ پالیسیاں پہلے ہی پس پشت قوتوں کے ہاتھ میں سونپ چکا ہے اس کیلئے کسی بھی نئے سیاسی بحران کا سامنا کرنا اور اس سے بچ نکلنا کسی طور بھی معجزے سے کم نہیں ہوسکتا.

ملکی سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ قیاس کرنا ہرچند مشکل نہیں ہے کہ نواز شریف کی پوزیشن اس وقت بالکل آصف زرداری والی ہو چکی ہے. پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو بھی پس پشت قوتوں نے مدت حکمرانی سسک سسک کر محض اپنی بقا کی فکر کی تگ و دو میں پوری کرنے دی تھی اور یہی صورتحال نواز شریف کے ساتھ بھی ہے. پاکستان میں جمہوریت کا دوبارہ آنا ایک عالمی ڈیل کے تحت ممکن ہوا تھا جس کے تحت وطن عزیز میں پس پشت قوتوں نے جمہوریت کو 2018 تک ڈی ریل نہ کرنے کی گارنٹی عالمی طاقتوں کو دی تھی. اس ڈیل کو مد نظر رکھا جائے تو موجودہ حکومت کے فارغ ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.لیکن ان ہاوس تبدیلی کے امکانات ضرور نظر آتے ہیں. عمران خان کے سابقہ دھرنے کے زریعے بھی پس پشت قوتوں کی کوشش تھی کہ کسی بھی طرح نواز شریف کو کرسی سے ہٹا کر ان کی جماعت سے ہی کسی اور رہنما کو وزارت عظمی کی کرسی سونپی جائے. ان دنوں چوہدری نثار کا نام اس حوالے سے خبروں کا مرکز بھی رہا. اب موجودہ حالات میں بھی نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ اسـں امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان ہاوس تبدیلی کیلئے ایک بار پھر زور لگایا جائے گا.

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف کو موجودہ صورتحال میں کیا کرنا چائیے.کیا ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کی بنیاد پر پاکستان میِں موجود پس پشت قوتوں سے ڈیل کر کے محض مدت حکمرانی پوری کی جائے یا پھر استعفی دیکر عوام سے تازہ مینڈیٹ کیلئے دوبارہ رجوع کیا جائے.

پہلی صورت میں اگر محض مدت حکمرانی پوری کرنی ہے تو اس کے دور رس سیاسی نتائج نواز شریف اور انکی جماعت کیلیے ہرگز سودمند ثابت نہیں ہوں گے.پیپلز پارٹی کی مانند وفاق میں بے بس اور مسلسل میڈیا ٹرائل اور سازشیں نواز شریف اور ان کی جماعت کا امیج مسلسل خراب کرتی رہیں گی. دوسری جانب اگر نوا‌ز شریف استعفی دیکر دوبارہ سے عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ ایک کڑا زیادہ فیصلہ ہو گا لیکن اس کے دور رس نتائج سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کیلئے مثبت ثابت ہوں گے. معاشرے کی مجمعوعی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے شاید استعفے کی صورت میں نواز شریف کو کوئی خاص فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا.

ان کے مستعفی ہونے کی صورت میں عام آدمی یہی تصور کرے گا کہ دال میں کچھ کالا ضرور تھا جو انہوں نے استعفی دیا.آور اس کا سیدھا سیدھا سیاسی فائدہ عمران خان کو ہو گا. یقینا نواز شریف اس وقت ایک مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں. لیکن اخلاقی اور سیاسی محاذوں پر اکثر تلخ فیصلے تاریخی فتوحات سے بھی ہمکنار کروا دیا کرتے ہیں.

جو حقیقت میاں نواز شریف نے دھرنے کے دنوں میں بھی نہیں سمجھی اور آج تک اسے سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کی بقا اور سول حکومتوں کا آزادانہ کام کرنا پس پشت قوتوں کے پیچھے سے چھپ کر سیاسی سازشوں کے تانے بانے ختم کرنے میں ہے.جب تک محلاتی سازشوں کو بننے والے کرداروں کو ان کے اصل کام کی جانب لوٹایا نہیں جائے گا تب تلک کوئی بھی جمہوری حکومت آزادانہ حکمرانی کا تصور بھی نہیں کر سکتی.

نواز شریف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے کاندھوں پر ماضی کا سامان موجود ہے. 90 کی دہائی کی الزامات کی سیاست اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے باعث وہ اپنی حد سے تجاوز کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے.وگرنہ پانامہ لیکس میں صرف آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک اثاثے رکھنا ثابت ہوتا ہے . ہمارے یہاں تو کھلے عام دلیہ سے لیکر سیمنٹ کی فیکٹریاں رئیل سٹیٹ کے کاروبار سے لیکر سوفٹ ویئر ہاوسز تک کی کمپنیاں جو افراد چلا کر دن دہاڑے اربوں کھربوں روپیہ ہضم کرتے ہیں ان کے بارے میں تو کسی لیکس کی بھی ضرورت نہیں.

یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ عمران خان کرپشن کے خلاف باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن خود ملک ریاض کے جہازوں میں جھولے لینے سے لیکر ان سے کڑوڑہا روپیہ فنڈز کے نام پر بٹورتے ہیں.ایک حمام جس میں سب ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہیں وہاں عمران خان کاـشور مچانا محض پس پشت قوتوں کے ایجنڈے کو تو مضبوط کرتا ہے لیکن جمہوریت کو نہیں .

خیر یہ ایک الگ بحث ہے فی الحال نواز شریف کو فیصلہ کرنا ہے کہ دہائیوں پر محیط سیاسی تجربے کے باوجود وہ پس پشت قوتوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کس وجہ سے ہوئے اور آخر کب تلک یوں ہی ڈر ڈر کر سیاست کرتے رہنا ہے. پیپلز پارٹی کے برعکس مسلم لیگ نون کے پاس تمام تر الزامات کے باوجود عوام کیلئے بنائے گئے منصوبے اور ترقیاتی کاموں کی لمبی چوڑی فہرست ہے.

کرپشن کے الزامات یا اثاثہ جات کی تحقیقات عمران خان کی مرضی کے تفتیشی افسر یا جج سے کروا کر کلین چٹ مل بھی جائے تو پھر کوئی نیا سکینڈل یا سازش میاں صاحب کی راہ دیکھ رہا ہو گاکیوں نہ عوام پر بھروسہ کرتے ہوئے اقتدار کی شطرنج پر بچھے مہروں اور چالوں کو نواز شریف بے نقاب کر کے سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیں.

نواز شریف تو آج ہیں کل نہیں ہوں گے تو کیوں نہ جمہوریت کے نظام کو مستحکم کرنے کیلئے دلیری سے حالات کا سامنا کرتے ہوئے نواز شریف خود اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کر دیں.نہ صرف اس سے ملکی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم ہو گی بلکہ وطن عزیز کو آئے روز کی سازشوں اور دھرنوں سے بھی نجات حاصل ہو جائے گی.

عوام نے اگر نواز شریف کو دوبارہ منتخب کیا تو نہ صرف ان پر لگے ہوئے تمام الزامات غلط ثابت ہو جائیں گے بلکہ وہ ایک مضبوط وزیر اعظم کی حیثیت سے دوبارہ منتخب ہو کر پس پشت قوتوں سے اختیارات کا توازن چھین کر سویلین حکومتوں کے پلڑے میں بھی ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے.

فیصلہ نواز شریف کو کرنا ہے کہ جس جمہوریت کے نعرے وہ ہمہ وقت لگاتے ہیں کیا اس کو مضبوط کرنے کی خاطر وہ ایک بار اقتدار کی قربانی دے سکتے ہیں یا نہیں؟ ایک جرات مندانہ فیصلہ اس ملک سے پس پشت قوتوں کی سازشوں کا ہمیشہ کیلیے قلع قمع کر سکتا ہے. بصورت دیگر یہ آئے روز کے دھرنوں میڈیا ٹرائل اور سازشیں جمہوریت اور معیشت دونوں کو تباہ کر کے رکھ دیں گے.پانچ سال ذاتی اقتدار یا پھر اگلے پانچ سو سال جمہوریت کا راج اس کا دارو مدار نواز شریف کے تلخ لیکن درست فیصلے پر منحصر ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے