کیا ہم ترسیلات زر کی اہمیت سے واقف ہیں؟

[pullquote]ترسیلات زر کی اہمیت: [/pullquote]
ترسیلات زر یا ریمیٹنسز (Remittances)سے مراد وہ رقوم ہیں، جو بیرون ملک مقیم محنت کش اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ پاکستان میں باہر سے آنے والی ترسیلات زرکی مقدار تقریبا 20 ارب ڈالرسالانہ یعنی 2070 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو ہم روزانہ سنتے ہیں، لیکن ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ اس رقم کی کیا اہمیت ہے۔ ترسیلات زر کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے وفاقی حکومت کے سالانہ بجٹ کے بعض اعداد و شمار سے موازنہ کرتے ہیں۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں دفاع کیلئے مختص رقم میں ملازمین کی تنخواہوں کیلئے 327 ارب پاکستانی روپے رکھے گئے ہیں، جو کہ ریمیٹنسز کا محض 16 فیصد بنتے ہیں، سول وفاقی ملازمین کی تنخواہوں کیلئے مختص رقم اس بھی کم ہے، جبکہ ترقیاتی اخراجات کا کل تخمینہ تقریبا 8 ارب ڈالر بنتا ہے۔ اس حساب سے اگر ترسیلات زر میں سے محض16 فیصد کو نئے روزگار کے مواقع کیلئے استعمال کیا جائے پاکستان آرمی کے سائز کے برابر ملازمتیں پیدا کی جاسکتی ہیں، یعنی 7 لاکھ روزگار کے مواقع ترسیلات زر کے محض 16فیصد سے پیدا کی جاسکتی ہیں۔

اگر ترسیلات زر کی تمام رقم تنخواہوں میں استعمال ہو تو پاکستان آرمی کے سائز کی چھ افواج کی تنخو۱ہیں ان ترسیلات زر سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ یعنی تقریبا 50 لاکھ ملازمتیں ترسیلات زر کی رقم کو استعمال کرکے پیدا کی جاسکتی ہیں۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)کیلئے جتنی رقم مختص ہے ، وہ محض اڑھائی سال کی ترسیلات زر کے برابر ہے، ترسیلات زر کی رقم امریکہ سے سالانہ ملنے والی فوجی امداد سے12 گنا زیادہ ہے، اور محض تین سال کی ترسیلات زر پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے کو ادا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ چنانچہ اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ ترسیلات زر اپنے سائز کے لحاظ سے ملکی معیشت کیلئے بیحد اہمیت کی حامل ہیں۔ اس لئے اس بات کا سمجھنا بیحد ضروری ہیکہ یہ رقم کہاں اور کیسے استعمال ہوتی ہے۔

[pullquote]ترسیلات زر کا استعمال[/pullquote]
بیرون ملک مقیم پاکستانی جب یہ رقوم پاکستان بھیجتے ہیں تو بینک غیر ملکی کرنسی کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرکے ان کے گھروالوں کو ادائیگیاں کرتے ہیں۔ بیرون ملکی کرنسی جو بنک اپنے پاس رکھتے ہیں، تجارتی خسارہ پورا کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ ہمارا سالانہ تجارتی خسارہ بھی تقریبا 18 ارب ڈالر سالانہ ہے، جو کہ ترسیلات زر کے تقریبا برابر ہے۔ اگر ترسیلات زر نہ ہوں تو درآمدات کی ادائیگی کیلئے رقم دستیاب نہیں ہو گی اور ہمیں سالانہ18 ارب ڈالر کا قرض لینا پڑسکتا ہے، جو تقریبا ناممکن ہے، اور ڈالر کی کم دستیابی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت اس قدر بڑ ھ سکتی ہے کہ جس کا تصور مشکل ہے۔ اس وجہ سے مہنگائی کا ایسا طوفان آ سکتا ہے کہ جو پاکستان کے معاشی نظام کو ہلا کر رکھ دے۔

خوش قسمتی سے ترسیلات زر ہماری معیشت کو ریسکیو کرنے کیلئے دستیاب ہیں، اس کیلئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو جس قدر خراج تحسین پیش کیا جائے، کم ہے۔ دراصل پاکستان کے تمام تر معاشی استحکام کا کریڈٹ بیرون ملک پاکستانیوں کو جاتا ہے۔

لیکن ایک اور بات انتہائی قابل غور ہے۔ جب بینک ترسیلات زر کو پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے متعلقہ افراد کو ادائیگی کرتے ہیں تومجموعی طور پر کم از کم2000 ارب روپے کی رقم عوام کے ہاتھوں میں آتی ہے، جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے پاکستان آرمی کے سائز کی 6 افواج کی سالانہ تنخواہیں پوری کی جاسکتی ہیں۔ تو اتنی بڑی رقم کہاں استعمال ہوجاتی ہے، معیشت پر اس کے مثبت اثرات کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو شاید ہی ہمیں کوئی قابل ذکر صنعت دکھائی دے جس کیلئے سرمایہ ترسیلات زر سے لیا گیا ہو۔ روزگار کی فراہمی کے حوالے سے بھی ترسیلات زر کا کوئی قابل ذکر حصہ دکھائی نہیں دیتا۔ تو یہ اتنی بڑی رقم کہاں جاتی ہے؟

ترسیلات زر بنیادی طور پر بھیجنے والے کی اپنی فیملی کیلئے ہوتی ہیں، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام تر ترسیلات زر رقم وصول کرنے والوں کی گھریلو روزمرہ ضروریات پر صرف ہوتی ہیں۔ لیکن ایسا بالکل درست نہیں۔ پاکستان میں مجموعی طور پر بچت کا تناسب20فیصد ہے، اس حساب سے سے تقریبا 4 ارب ڈالر کی بچت ہونی چاہیے جو پاکستان آرمی کی تنخواہوں کے تخمینہ سے کافی زیادہ ہے۔ اور اس رقم سے تقریبا 8 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی سالانہ تنخواہوں کو سپانسر کیا جاسکتا ہے۔ ترسیلات زر پر آج تک کی جانے والی تحقیق یہ بتاتی ہیکہ ترسیلات زر وصول کرنے والوں میں بچت کا تناسب ، قومی بچت کے تناسب سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔اس لئے بچت بھی 4ارب ڈالر سے زیادہ ہونی چاہیے۔ لیکن بالفرض یہ مان لیا جائے کہ بچت کا عمومی تناسب اور ترسیلات زر وصول کرنے والوں کے ہاں بچت کا تناسب برابر برابر ہے، تو بھی یہ بچت اتنی بڑی ہیکہ لاکھوں لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بن سکتی ہے۔ تو بہت اہم سوال یہ جنم لیتا ہیکہ آخر یہ رقوم جاتی کہاں ہیں اور ملکی معیشت پہ انکا کوئی نمایاں اثر دکھائی کیوں نہیں دیتا؟

میری تحقیق کے مطابق وہ اندھا غار ( Black hole) جس میں اربوں ڈالر کی رقوم غائب ہوجاتی ہیں اس کا نام ہے ”پراپرٹی کا کاروبار“۔ فی الوقت پاکستان میں محفوظ ترین کاروبار پراپرٹی کے کاروبار کو سمجھا جاتا ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے، کیونکہ پراپرٹی یا زمین کے کاروبار میں کسی جنس کے خراب ہونے یا چوری ہونے کا اندیشہ نہیں۔ یہ کاروبار بالخصوص ان لوگوں کیلئے بہت پرکشش ہے جو خود پاکستان سے باہر ہیں اور یہاں کسی کاروبار کی دیکھ بھال سے قاصر ہیں۔ سرمایہ کو محفوظ رکھنے کیلئے اس سے زیادہ بہتر آپشن شاید کوئی نہیں۔

[pullquote]پراپرٹی کے کاروبار کے مضمرات[/pullquote]

پراپرٹی کے کاروبار کا تاریک پہلو یہ ہے کہ یہ کاروبار صرف سرمایہ کی بنیاد پر چلتا ہے اور اس کا سارا نفع سرمایہ ہی کو جاتا ہے۔ اس کاروبار میں محنت نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے نفع میں محنت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ فرض کیجئے اگر میرے پاس دس کروڑ کا سرمایہ پڑا ہوا ہے اور میں اسے زراعت میں لگاتا ہوں، مجھے کاروبار چلانے کیلئے سیکڑوں مزدور درکار ہوں گے۔ کاروبار سے مجھے حاصل ہونے والا نفع تو بعد میں ملے گا لیکن پہلے مجھے محنت کرنے والوں کو انکا معاوضہ ادا کرنا ہو گا۔ اس طرح میرا نفع مزید سیکڑوں لوگوں کو نفع دینے کے بعد ہی حاصل ہو پائے گا، اور ایک بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔

لیکن اگر میں اسی سرمایہ سے ایک پلاٹ خرید لوں، تو غالب امکان یہی ہیکہ مجھے مجموعی منافع اس رقم سے کہیں زیادہ حاصل ہوگا جو میں زراعت سے حاصل کرسکتا تھا،لیکن یہ فائدہ صرف میری ذات کا ہوگا یا ایک پراپرٹی ڈیلر کا ہوگا جس نے سودا طے کروانے میں مدد کی۔کسی تیسرے فرد کو اس کاروبار کا نفع ملنا محال ہے۔ تو جو سرمایہ سیکڑوں لوگوں کو روزگار دینے کیلئے کافی تھا اس سے صرف دو لوگوں نے نفع حاصل کیا۔

[pullquote]روزگار کی فکر کیوں ؟
[/pullquote]
کسی پڑھے لکھے صحت مند جوان کیلئے شاید ہی کوئی اذیت بیروزگاری کی اذیت سے زیادہ ہو۔ ایک جوان جس نے 15-20سال سے اپنی توانائیاں اور مالی وسائل تعلیم پر خرچ کئے ہوں، اور وہ اپنی فیملی اور اپنی سوسائٹی کیلئے کچھ کرنا بھی چاہ رہا ہو، لیکن اسے کوئی موقع میسر نہ آئے، تو یقینا یہ ایک بڑا المیہ ہے، جس سے ہمارے لاکھوں نوجوان دوچار ہیں۔ سیکڑوں کے حساب سے جوان اس اذیت کے مداوا کیلئے غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر جانے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ معاشرتی جرائم کی بڑی وجہ بھی بڑی حد تک صحتمند ایکٹیویٹی کے مواقع کا فقدان ہے۔

پاکستان میں اسوقت بیروزگاروں کے تعداد تقریبا 32 لاکھ ہے، جن میں ایک بڑی تعداد پڑھے لکھے بیروزگاروں کی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات ہر اس شخص کو صاحب روزگار تصور کرتا ہے جس نے ہفتے میں ایک گھنٹہ بھی کام کیا ہو۔ اگر ان لوگوں کو بھی بیروزگار تصور کیا جائے جو مناسب کما نہیں سکتے، یا ہفتے میں 3 دن کام نہیں کرسکتے، تو بیروزگاروں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بنے گی۔ اور مزید یہ کہ آئندہ دس سالوں میں تقریبا 4 کروڑ نوجوان اس عمر میں داخل ہونگے جس عمر میں لوگ روزگار تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا قابل ذکرمنصوبہ نہیں جس کا بنیادی مقصد روزگار کی فراہمی ہو۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہیکہ ایسے کاروبار کی حوصلہ شکنی کی جائے جس میں محنت کا حصہ کم اور سرمائے کا حصہ زیادہ ہو۔

[pullquote]پراپرٹی کے کاروبار کے ملازمت پر اثرات[/pullquote]
جیسا کہ اوپر بتلایا جا چکا ہے، پراپرٹی یا رئیل اسٹیٹ کا کاروبار روزگار کے مواقع کو ختم کردیتا ہے۔ کچھ لوگ میرے اس بیان سے متفق نہیں ہونگے کیونکہ ان کے خیال میں تعمیراتی کاموں سے بڑی تعداد میں روزگار فراہم ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے اگر پراپرٹی پر تعمیرات ہوں تو وہاں تعمیراتی کاموں کیلئے خاصی بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے، اور ملحقہ صنعتوں میں بھی استحکام آئے گا۔ اس سب کے باوجود پراپرٹی کا کاروبار بنیادی طور پر کیپیٹل انٹنسو (capital intensive) کاروبار ہے ۔

فرض کریں ایک کروڑ کی لاگت سے بنایا گیا ایک مکان یا ہوٹل 50 افراد کیلئے 5 ماہ تک کاروبار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح توٹل ۷۵۰۰ دن کیلئے روزگار کے مواقع مہیا ہوئے۔ جبکہ اسی سرمایہ سے اگر سیکنڈ ہینڈ ٹیکسی بحساب 2.5 لاکھ فی ٹیکسی خرید کر لوگوں کو دے دی جائے تو 40 کیلئے روزگار کا مستقل بندوبست ممکن ہے۔ چنانچہ

افراد کیلئے روزگار کے مستقل مواقع مہیا کیے جاسکتے اگر اس سرمایہ کو زراعت میں لگایا جائے۔

ضرورت اس بات کی ہیکہ ترسیلات زر بھیجنے والوں کیلئے ایسی سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کیے جائیں جہاں سرمایہ کار کو بھی مناسب منافع حاصل ہو اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں۔ لیکن میں نہیں دیکھتا کہ اس انتہائی ضروری امر کی طرف کسی کی توجہ ہو۔ نہ تو ہمارے صاحب اقتدار لوگ ان خطوط پر سوچ رہے ہیں، اور نہ ہی یونیورسٹیاں اس امر پر کوئی تحقیق کروا رہی ہیں۔

راقم ایک عرصہ سے اس بات پر تحقیق کر رہا ہیکہ ترسیلات زر کا بہتر استعمال کس طرح ممکن ہے۔ راقم نے اس سلسلہ میں بہت سی قابل عمل اور آسان ترین تجاویز مرتب کی ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے ترسیلات زر کو پراپرٹی کے بلیک ہول کی بجائے ایسے کاموں میں استعمال کیا جاسکے جہاں سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں یا قومی مفاد کے منصوبوں کے لئے فنڈ مہیا کئے جا سکیں۔

میں ایسی قابل عمل تجاویز انشاءاللہ عوام کے ساتھ جلد شیئر کروں گا، لیکن فی الوقت میری یہ گذارش ہیکہ ترسیلات زر کی اہمیت کے بارے میں خودہ بھی آگاہ ہوں اور اپنے اپنے حلقہ احباب کو بھی اس بارہ میں آگاہی فراہم کریں، اور بالخصوص اپنے سیاسی وسماجی رہنماوں سے یہ سوال ضرور کریں کہ ترسیلات زر کی جو رقم پراپرٹی کے کاروبار میں لگ کر منظرعام سے غائب ہورہی ہے اس کے بہتر استعمال کیلئے کیا کوشش کی گئی اورکیا کوشش کی جاسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے