’’عشق‘‘

ہرعنصر اپنی تکمیل کے لیے دوسرے عنصر سے آمیزش کا خواہاں ہوتا ہے اور یہی چیز اسے ترقی کے راہ پر گامزن کرتی ہے۔ اس راہ میں حوصلہ بخشنے کے لیے ایک ہی جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور وہ جذبہ ہے ’’عشق‘‘۔

[pullquote]عشق کے دو پہلو ہیں[/pullquote]

ایک نظریاتی عشق اور دوسرا تاثراتی یا پھر جذباتی عشق۔ نظریاتی عشق میں عقل غالب ہوتی ہے۔ اس میں تاویلیں ہوتی ہیں، سود و زیاں ہوتا ہے، نفع و نقصان کا حساب رکھا جاتا ہے۔ اس عشق میں ترجیحات عقلی استدلال پر مبنی ہوتی ہیں، جذبہ ضرور پایا جاتا ہے لیکن مادیت بنیاد ہوتی ہے۔

تاثراتی یا جذباتی عشق میں عقل کو دوسرا درجہ دیا جاتا ہے۔ مصلحت پر عشق غالب ہوتا ہے۔ یہ عشق منزل کی خواہش سے مبراء ہوتا ہے۔ راستے کی اونچ نیچ، اتار چڑھاؤ ہی منزل کے درجے ہوتے ہیں۔ اس میں منزل حرام ہوتی ہے کیونکہ منزل کا مطلب ہوتا ہے ٹھہراؤ یا رک جانا۔ ٹھہراؤ تو سکوت ہے اور سکوت موت ہے۔ زندگی تو چلنے میں ہے، تحرک میں ہے۔ منزل تو انتہا ہے اور یہ انتہا ایک اور منزل کی شروعات ہوتی ہے۔ اللہ والوں کے لیے ایک منزل کی انتہا دوسری منزل کی ابتدا ہوتی ہے اور وہ مختلف منازل طے کرتے جاتے ہیں اور شورشِ طوفاں کی لذت کو محسوس کرتے جاتے ہیں۔ ان کا دنیاوی لذت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

انتہا تو اللہ پاک ہے اور ابتدا کا انتہا کے ساتھ مل جانا ہی منزل ہے۔ یہ منزل صرف ایک ہی ہستی کا مقدر بنی ہے اور وہ ہیں سرکار پاک ﷺ۔

عاشق نے اپنے معشوق کو خود اپنے سامنے بٹھا کر دیدار کروایا ہے۔ یہ ہے عشق۔ محب نے یہ کہ کر عشق کا حق ادا کر دیا کہ جس نے میرے محبوب کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے میرے محبوب کا دیدار کیا اس نے گویا میرا دیدار کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے