عافیہ صدیقی کیس کے حقائق 2

عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی کہانی میں ڈھیروں تضادات ہیں ۔کبھی کہا گیا ان پر ایک دکاندار کو شک گزرا اور وہ گرفتار ہوئیں تو کبھی کہا مسجد سے نکلتے ایک نمازی کو شک گزرا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔کسی نے کہا وہ مقامی زبان نہیں بول رہی تھیں اس لیے مشکوک ہو گئیں تو کبھی یہ موقف اختیار کیا گیا کہ وہ ایک نقشہ پھیلائے بیٹھی تھیں اس لیے ان پر شک گزرا۔

Petra Bortosiewicz

نے 26 نومبر2010 کو ہارپر میگزین میں اس گرفتاری کے حوالے سے اپنے مضمون

” The Intelligence Factory: How America makes its enemies disappear”

میں لکھا کہ:

’’حتی کہ اس گرفتاری کی تفصیلات میں بھی اختلاف ہے جو غزنی کی جامع مسجد کے باہر بھرے مجمع کے سامنے کی گئی۔یہ تو کہا گیا کہ وہ مشکوک انداز سے پھر رہی تھی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ مشکوک انداز سے کیوں پھر رہی تھی۔جب بعد ازاں میں نے ایک مقامی رپورٹر کی خدمات لے کر عینی شاہدین کا دوبارہ انٹرویو کیا عبدالغنی نامی پولیس افسر نے جس نے عافیہ کو گرفتار کیا تھا مجھے بتایا کہ اس کے پاس ایک صندوق تھا جو کیمیکلز سے بھرا ہوا تھا۔فرہاد نامی ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ نہیں اس کے پاس سے پولیس کو صندوق نہیں ملا تھا بلکہ صرف کچھ کاغذات ملے تھے۔حکمت اللہ نامی ایک شخص نے کہا کہ عافیہ جب گرفتار کی گئی تو وہ قریب آنے والے ہر شخص پر حملہ کر رہی تھیں۔(یہ بات سرکاری کمپلینٹ میں نہیں لکھی گئی)۔میر واعظ نامی ایک نمازی نے بتایا کہ عافیہ کو پولیس ہتھ کڑی لگا کر لے گئی جبکہ ایک فارمیسی کے مالک مسعود نبی زادہ نے کہا کہ ہتھ کڑی تو وہاں دستیاب ہی نہیں تھی انہیں سکارف سے باندھ کر لے جایا گیا‘‘۔

گرفتاری کے واقعات میں موجود یہ تضادات جوں جوں نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ عافیہ کی گرفتاری کی اس کہانی میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا۔عافیہ تو 2003 سے غائب تھیں ۔تو کیا 2003 سے 2008 تک وہ افغانستان میں آپریٹ کرتی رہیں اور ایک روز گرفتار ہو گئیں؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا کافی مشکل ہے.

ڈکلن والش نے دی گارجین میں ,” The mystery of Dr. Aafia Siddiqui” کے عنوان سے 24 جنوری 2009 کوشائع ہونے والے اپنے مضمون میں ایک ای میل کا ذکر کیا ہے جو عافیہ صدیقی نے امریکہ میں اپنے سابق پروفیسر کو کی تھی ۔ یہ میل عافیہ نے یکم مارچ 2003 کو اس وقت کی تھی جب وہ آغا خان یونیورسٹی کراچی میں جاب کر رہی تھیں۔ اس میل میں انہوں نے پروفیسر کو لکھا کہ ان جیسے تعلیمی پس منظر کی حامل خاتون کے لیے یہاں مواقع بہت کم ہیں اور وہ امریکہ میں آ کر کام کرنا چاہتی ہیں۔اس ای میل کا ذکر پیٹرا ( Petra Bortosiewicz )نے بھی اپنے مضمون میں کیا تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو خاتون یکم مارچ کو اس خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ آغا خان یونیورسٹی کراچی میں اس جیسی اعلی تعلیم یافتہ خاتون کے لیے کام کے مواقع کم ہیں اور وہ امریکہ آنا چاہتی ہے وہ خاتون اس ای میل کے چند روز بعد بچوں سمیت افغانستان کیوں چلی جائے گی؟

واقعاتی شہادتیں اس بات کی تردید کرتی ہیں کہ عافیہ نے یہ سارا عرصہ افغانستان میں القاعدہ وغیرہ کے لیے کام کرتے ہوئے گزارا ہو گااور انہیں اسی طرح گرفتار کیا گیا ہو گا جس طرح بیان کیا جاتا ہے۔

عافیہ صدیقی تیس مارچ2013کو لاپتہ ہوئیں ۔یہ کیسے مان لیا جائے کہ اس روز سے مبینہ گرفتاری تک کا عرصہ وہ آزاد تھیں اور افغانستان میں القاعدہ کے لیے کام کر رہی تھیں۔امریکہ کا دعوی یہی ہے لیکن کچھ اور شواہد بھی موجود ہیں جو امریکی دعوے کی نفی کرتے ہیں۔

بی بی سی ڈاٹ کام میں 6 اگست2008 کو , "Mystery of Siddiqui’s diappearance” کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں اشارہ دیا گیا کہ عافیہ صدیقی کو شاید 30اگست 2008 کو کراچی ایر پورٹ جاتے ہوئے اٹھایا گیا۔اگلے روز کے مقامی اخبارات میں خبر بھی شائع ہوئی کہ ایک عورت کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔بی بی سی کے مطابق اس واقعے کے دو روز بعد ایک موٹر سائیکل سوار شخص عافیہ صدیقی کے گھر آیا ۔اس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور اسے اتارے بغیر اس نے عافیہ صدیقی کی والدہ سے کہا کہ بیٹی کی بحفاظت واپسی چاہتی ہو تو خاموش رہو۔بی بی سی کی اسی رپورٹ میں وزیر داخلہ فیصل صالح حیات کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے کہا کہ بہت جلد عافیہ کو رہا کر دیا جائے گا اور وہ واپس آ جائیں گی۔

تفصیل کے لیے اس لنک پر جائیں

یو ایس ٹوڈے نے تو 22اپریل 2003 ہی کو بہت وضاحت کے ساتھ لکھ دیا کہ عافیہ صدیقی کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔یو ایس ٹوڈے کے اصل الفاظ پڑھ لیجیے :

"Two federal law enforcement officials, speaking on condition of anonymity, initially said 31-year- old Afia Siddiqui recently was taken into custody by Pakistani authorities”

( مکمل تحریر کے لیے لنک یہ ہے۔

یہاں یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ امریکہ کے مطابق عافیہ صدیقی کو 2008 میں گرفتار کیا گیا جب کہ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے جون 2007میں عافیہ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ لاپتہ ہیں اور امکان ہیں کہ امریکی حراست میں ہیں۔

یہی وہ شواہد ہیں جن کی بنیاد پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیر مین آئی اے رحمان نے کہا عافیہ کی گرفتاری کے بارے میں امریکہ کا موقف اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ یہ بیان 6 اگست 2008کو دی گارجین میں شائع ہوا۔

گارجین کا محولہ بالا بیان یہاںپڑھیں

حقائق بتاتے ہیں کہ عافیہ کو 2008میں گرفتار نہیں کیا گیا وہ اس سے پہلے ہی امریکی قید میں تھیں۔جب ایون ریڈلے پاکستان آئیں اور ان کے اعزاز میں عمران خان نے عشائیہ دیا تو وہاں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ بگرام میں قید خاتون عافیہ ہیں۔اور وہ انہیں گرے لیڈی کے نام سے پکارتی تھیں۔ان پر بے تحاشا ظلم ہوتا تھا۔اور ان کی چیخیں اور آہیں بلند ہوتی رہتی تھیں۔ریڈلے نے جب راز فاش کر دیا تو امکان یہی ہے کہ امریکہ نے عجلت میں ایک عدد گرفتاری کا ڈرامہ رچا لیا۔

گارجین ہی میں بگرام سے 2005 میں بھاگ آنے والے قیدی ابویحیی اللیبی کا بیان شائع ہوا کہ جب وہ بگرام ائر بیس پر قید تھا تو اس نے وہاں ایک پاکستانی عورت کو قید میں دیکھاجسے کبھی کبھی ٹائلٹ لے جایا تھا۔اس کا نام کسی کو معلوم نہ تھا۔اسے قیدی نمبر 650 کہا جاتا تھا۔

ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ کیا ہوا؟ کبھی رہا ہو کے آئیں تو وہ خود بتائیں یا کبھی قانون میں اتنا دم خم ہو کہ وہ مشرف سے پوچھ سکے تو کچھ سامنے آ سکے تا ہم یہ بات ماننا ممکن ہی نہیں کہ گرفتاری کے حوالے سے جو کہانی امریکہ بیان کرتا ہے وہ درست ہو۔یہ مکمل جھوٹ ہے۔آئی اے رحمان درست کہتے ہیں اکیسویں صدی کا سب سے برا جھوٹ۔
اب آتے ہیں عافیہ پر عائد فرد جرم کی طرف۔

(جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے