شعوری زندگی ہی حقیقی زندگی ہے

کائنات میں جس طرح خدا کی نعمتیں بے شمار ہیں اس کی مخلوقات بهی لاتعداد ہیں ،جن میں سے انسان ہی وہ مخلوق ہے جو شعوری زندگی کی صلاحیت سے مالا مال ہے، مالک جہاں نے انسان کو پاکیزہ فطرت اور عقل جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا گیا ہے، یہ اور بات ہے کہ بعض انسان نادانی میں اپنی خداداد اختیاری قوت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اپنی پاکیزہ فطرت کو آلودہ کرتے ہیں ،وہ اپنی عقلی قوت کو وہاں استعمال نہیں کرتے جہاں استعمال کرنا چاہیے ،جس کے سبب آج کرہ ارض پر موجود انسانوں کی اکثریت کے حصے میں شعوری زندگی کے بجائے حیوانی زندگی آئی ہوئی ہے-

جو افراد شعوری زندگی سے محروم ہیں ان کی فکر اور نظر محسوسات اور مادیات کے دائرے میں منحصر ہوتی ہے، وہ مادیات کی چاردواری میں اپنی عمر گزار کر دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں ،لیکن جو لوگ شعوری زندگی کے حامل ہیں ان کی فکر مادیات تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ ماوراء مادہ امور کے بارے میں بهی سوچتے ہیں، جیسے دین، اخلاق، عدل وانصاف، مظلوم کی حمایت، ظالم سے نفرت جیسی صفات ، شعوری زندگی ہی حقیقی زندگی ہے-

غیر شعوری زندگی میں انسان تعلیم جیسی عظیم انسانی قدر کو بهی فقط پیسہ کمانے کا وسیلہ گردانتے ہیں، جب کہ حقیقت میں تعلیم شعوری زندگی کی بنیاد ہے، علم انسان کو باشعور بناتا ہے-

اگر عرصہ دراز علمی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انسان کی فکر اور سوچ میں مثبت تبدیلی نہیں آئی تو اس انسان کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ وہ اب بهی حیوانی زندگی میں سانس لے رہا ہے-

شعوری زندگی میں انسان کا رہنما عقل ہوتی ہے، چراغ عقل کی روشنی میں انسان اپنی زندگی کے امور کو چلاتے ہیں، جب کہ حیوانی زندگی میں انسان کا راہنما قوہ وہم ہوتی ہے، توہمات کی ہدایت کے مطابق انسان زندگی کے کاموں کو نمٹادیتے ہیں- ہمیں اپنے ملک وطن عزیز پاکستان میں اس کے نمونے فراوان نظر آتے ہیں –

ہمارے دیس میں آج مذہبی منافرت، لسانی اور علاقائی تعصبات کا چرچا ہے، ملک میں لوٹ گهسوٹ عام، انصاف ناپید، دوسروں کے حقوق کی پائمالی، اداروں میں ہر چیز کا معیار رشوت اور سفارش، چند اشرافیہ طبقہ کی باری باری حکومت ہے، تو وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شعوری زندگی رکهنے والے افراد کا بحران ہے، جس کا بنیادی سبب اسلامی تعلیمات سے ان کا بیگانہ ہونا ہے –

یہی وجہ ہے کہ آج ہماری مملکت پر چند خاندان کا قبضہ ہے جو قومی ثروت پر عیاشی کررہے ہیں، جب کہ قوم دہشتگردی، تفرقہ ،بهوک، غربت وافلاس جیسی لعنتوں کی آگ میں جل رہی ہے- اگر ہماری قوم کی اکثریت شعوری زندگی کے حامل ہوتی تو وہ ہرگز ان مظالم کے سامنے خاموش نہ رہتی- ملک میں انصاف کابول بالا کرنے کے لئے میدان میں نکل آتی- ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی- ملک کو چند اشرافیہ خاندان کے قبضے سے چھڑالیتی –

آپس میں متحد ہوکر ظلم وستم کے خلاف لڑتی- مذہبی فروعی اور جزئی اختلافات کو ہوا دے کر آپس میں دشمنی اور کدورت کو پروان چڑانے کے بجائے مشترکات کے زیر سایہ جمع ہوکر جسم واحد بن کر اپنے مشترکہ دشمنوں کے خلاف صف محاز آرائی باندهہ لیتی- زلت کی زندگی پر عزت کی زندگی کوترجیح دیتی- بے غیرتی کا مظاہرہ کرتی ہوئی حکمرانوں کی ناانصافیوں کی چکی میں پستے رہنے کے بجائے انصاف کی فراہمی کے لئے تگ ودو کرتی ،مگر یہ تو اس وقت ہی ممکن ہوگا جب ہماری قوم کی اکثریت حیوانی زندگی سے نکل کر شعوری زندگی کا حامل بن جائے، توہم پرستی کے بجائے عقل کی راہنمائی میں عملی زندگی گزاری جائے-

پاکستانی قوم میں شعوری زندگی کے حامل افراد بهی ہیں جو وقتا فوقتا حکمرانوں کے مظالم کے سامنے جکنے کے بجائے میدان میں نکل کے سینہ تان کر صدائے حق بلند کرتے ہیں- ظلم کے خلاف لڑتے ہیں- مظلوم کی دل کهول کر حمایت کرتے ہیں- مگر ان کی تعداد بہت کم ہے-

حالیہ پاکستان میں جیل بهرو تحریک بهی شعوری زندگی رکهنے والے کچهہ دلسوز افراد کی جدوجہد کا شاخسانہ ہے- لاپتہ پاکستانی قوم کے جوانوں کو رہائی دلانے کے لئے ان باشعور افراد نے کمر ہمت باندهہ کر اس مہم کا آغاز کردیا ہے لیکن ہماری قوم کی اکثریت اس تحریک کے حوالے سے لاتعلقی کا مظاہرہ کررہی ہے جو کسی بهی صورت میں نیک شگون نہیں-

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے باشعور افراد شعوری زندگی سے تہی اکثریت کو حیوانی زندگی سے نکل کر شعوری زندگی کی طرف آنے کا شعور دیں انہیں توہم پرستی اور خیالاتی دنیا سے نکال کر عقل کی راہنمائی میں زندگی کے لمحات گزارنے کا سبق سکهائیں اور جهیل بهرو تحریک کو کامیاب بنانے میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے بے جرم اسیروں کو رہائی دلواکر ثواب میں شریک ہوجائیں-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے