سانحہ ماڈل ٹاوٗن اورجسٹس ریٹائرڈ باقر نجفی کی رپورٹ کا خلاصہ

پنجاب ٹریبیونل اینڈ انکوائری آرڈیننس 1969کے سیکشن 3 اور 5 پنجاب حکومت نے 17-6-2014 سانحہ ماڈل ٹاون کے حقائق جاننے کے لئے ایک رکنی ٹریبیونل بنایا ۔

اس ٹریبیونل نے حقائق کی جانچ پڑتال کے لئے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف ، وزیر قانون رانا ثناءاللہ سمیت واقعہ کے ساتھ منسلک افسران بالا اور متاثرہ افراد کے بیانات کے ساتھ ساتھ جائے وقوعہ کا بھی جائزہ لیا ۔ اور ایک رپورٹ مرتب کی ۔ جس کو لاہور ہائی کورٹ نے مورخہ 5-12-2017 کو پبلک کرنے کے احکامات جاری کئے۔

یاد رکھیں کہ کسی بھی کمیشن کی رپورٹ Judgement یا عدالت کا فیصلہ نہیں ہوتی ۔ بلکہ اس میں حقائق کو ریکارڈ کر کے پیش کیا جاتا ہے ۔ بہرحال کسی بھی کمیشن کی رپورٹ تفتیش کو آ گے بڑھانے میں ضرور معاون ثابت ہوتی ہے ۔ ٹریبیونل کی رپورٹ کے صرف چیدہ چیدہ بیانات اور نکات کو اختصار کے ساتھ اردو ترجمے کی شکل میں لکھا گیا ہے جو آئی بی سی اردو کے قارئین کے لئے مفید ہو گا۔

میاں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب:
میاں شہباز شریف نے حلف نامے میں بتایا کہ 17 جون 2016 کو ٹی وی رپورٹس کے ذریعے انہیں معلوم ہوا کہ پولیس اور منہاج القرن کے درمیان منہاج القرآن مرکز کے پاس غیر یقینی صورتحال ہے ۔ انہوں نے اپنے سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ سے معاملے کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے بتایا ۔ کہ وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ نے ادارے کے ارد گرد غیر قانونی رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا ہے ۔

انہوں نے فوری طور پر اطلاع نہ دینے پر برہمی کا اظہار کیا ۔ اور جلد از جلد اس کو ختم کرنے کی یدایات جاری کیں ۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حلف کی تقریبات کے بعد دیگر مصروفیات کے دوران انہیں خبر ملی کہ وقوعے پر صورتحال بے قابو ہو چکی ہے

اور پولیس کے ساتھ ساتھ عام لوگ جاں بحق اور ذخمی ہو گئے ہیں ۔ اس صورتحال کی انکوائری کے لئے ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبیونل بنانے اور سی سی پی او لاہور ، ڈی آئی جی آپریشن اور ایس پی ماڈل ٹاون کو فوری معطل کرنے کے احکامات جاری کئے۔

ہوم سیکرٹری پنجاب :
وزیر قانون پنجاب کے زیر نگرانی 16-6-2014 کو سول سیکریٹریٹ میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی ۔ جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ادارہ منہاج ا لقرآن کے ارد گرد پبلک مقامات پر لگائے گئے بیرئیرز کو ہٹایا جائے ۔ اجلاس میں 23-6-2014 کو ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے موقع پر پپدا ہونے والی امن عامہ کی صورتحال کے پیش نظر رانا ثناء اللہ نے قانون کے مطابق رکاوٹوں کو ہٹانے کے احکامات جاری کئے۔

ان کے مطابق 9 سے 11:30 کے دوران صورتحال پریشان کن نہیں تھی ۔ اور نہ ہی اس سے پبلک لائف کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ۔ ان کے مطابق انہوں نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر صورتحال کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی ۔

آئی جی پولیس
آئی جی پنجاب کے مطابق چارج سنبھالنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ تحصیل میونسپل آفس کو بیرئیر ہٹانے کے سلسلے میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ انہیں معلومات ملیں کہ پاکستان عوامی تحریک کے تین سو کے قریب کارکن ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر موجود ہیں ۔

اور ان کی طرف سے پولیس اور TMO پر پتھراو ٗ اور فائرنگ کی جا رہی ہے ۔ فائرنگ اور پتھراوٗ کے نتیجے میں دونوں فریقین میں سے آٹھ لوگ جاں بحق اور ایک سو تین کے قریب افراد زخمی ہوئے ۔

سی سی پی او لاہور
سی سی پی او لاہور کے مطابق انہیں اطلاع موصول ہوئی کہ دو سے تین ہزار کے قریب تحریک کے کارکنان ادارے میں جمع ہو چکے ہیں ۔ اور انہوں نے علاقے کو یر غمال بنا کر ادارے کی چھت سے فائرنگ کی ۔

جس کے نتیجے میں تین پولیس والے زخمی ہوئے اور ادارے کے تین کارکنان ، جو وہاں سے نکل رہے تھے جاں بحق ہو گئے ہیں ۔ ان کے مطابق پولیس نے بھی اپنے دفاع میں فائرنگ کی ۔ پاکستان عوامی تحریک کے باون ورکرز کو گرفتار کیا گیا ۔ اور 2 ایس ایم جیز اور تیس بور کے تین پستول قبضے میں لئے گئے .

معراج الدین (واقعے کا زخمی)
میں اعتکاف کے سلسلے میں ادارے میں ہی موجود تھا کہ میں نے اسلحے سے لیس تین سے چار سو کے قریب پولیس کو دیکھا ۔ جو براہ راست فائرنگ کر رہے تھے ۔ مجھے ٹانگ کے اوپر کے حصے میں گولی لگی جب کہ میرا بھائی اسی واقعے میں شہید ہوا ۔

ہارون خالد:
میں آٹھ بجے کے قریب اعتکاف سیشن میں شرکت کے لئے پہنچا تو ۲ سے ۳ ہزار پولیس والوں کو دیکھا ۔ جو آنسو گیس کا استعمال کر رہے تھے ۔ جب کہ وہاں بچے اور عورتیں بھی موجود تھیں۔ موقع پر موجود ایس پی کو ادارے کے زمہ داروں نے بیرئیرز کے حوالے سے ہائی کورٹ کے احکامات دکھائے

لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں وزیر اعلی اور وزیر قانون کی طرف سے رکاوٹیں ہٹانے کے سخت احکامات ہیں ۔ ابھی مذاکرات ہو ہی رہے تھے کہ ایلیٹ فورس آ گئی اور انہوں نے آپریشن شروع کر دیا۔

رانا عبد الجبار ڈی آئی جی
ان کے مطابق 16-6-2014 کو انہیں روٹین میں اطلاع ملی کہ ادارہ منہاج ا لقرآن کے بیرئرز ہٹانے کے لئے پولیس کی معاونت درکار ہے ۔ لیکن اگلے دن پاکستان عوامی تحریک کے پر تشدد رویے کی وجہ سے انہیں ڈی سی او سمیت خودمو قع پر جانا پڑا ۔

رانا ثنا ء اللہ وزیر قانون
جون میں ڈاکٹر طاہر القادری کی متوقع آمد اور ان کے روالپنڈی ۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے اعلان کے سلسلے میں امن عامہ کی صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں ادارہ منہاج القرآن کے ارد گرد موجود غیر قانونی بیرئیرز کو ہٹانے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ۔ کمشنر لاہور نے پہلے ہی اس بارے میں رپورٹ دے رکھی تھی ۔

تمام حاضرین کے نقطہ نظر کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ دیا ۔ 17 جون کو ٹی وی رپورٹس اور ڈاکٹر توقیر کی طرف سے تشویش کا فون موصول ہونے کے بعد انہوں نے سی سی پی او لاہور اور ہوم سیکرٹری کو فون کیا ۔ جن کی طرف سے بتایا گیا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے ۔

میٹنگ میں وزیر اعلی کی نمائندگی کے لیئے ڈاکٹر توقیر شاہ بھی موجود تھے ۔ جہاں انہوں نے اس فیصلے سے اتفاق کیا۔ جب کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم نمبر ICA No 155 ,2011 کی تشریح کے حوالے سے مشورہ نہیں لیا گیا تھا۔

ان کے مطابق اس میٹنگ میں ہوم سیکرٹری اور سپیشل برانچ کے نمائندے بھی شریک تھے ۔ انہوں نے سی سی پی او کو ہدایت کی تھی کہ کوئی تماشا نہیں لگنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے 17 جون کو 12:15 سے 12:30 کے درمیان ڈی آئی جی آپریشن کو کال کی ۔ لیکن اس وقت بھی شوٹنگ کا کوئی آرڈر نہیں دیا۔ انہوں نے اس بدقسمت واقعے کی کوئی بھی ذمہ داری لینے سے انکار کیا۔

ان کے مطابق ، انہیں واقعے کی شدت کا نہیں بتایا گیا تھا ۔ اور انہیں ڈی آئی جی کی طرف سے وزیر قانون رانا مشہود کے زریعے اطلاع دی گئی کہ آپریشن مکمل ہو چکا ہے ۔ انہوں نے اس وقت تک کسی کی بھی ہلاکت کا انکار کیا تھا۔

ڈاکٹر توقیر شاہ
ڈاکٹر توقیر کے مطابق وہ 16 جون کی میٹنگ میں لیٹ پہنچے تھے اسلئے کافی سارے نکات زیر بحث لائے جا چکے تھے ۔ جس وقت وہ پہنچے اس وقت بیرئیرز ہٹانے کے حوالے سے بات چیت ہو رہی تھی ۔

17 جون کو طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھے کہ انہیں وزیر اعلی کی واقعے کے متعلق کال موصول ہوئی ۔ جس میں انہیں بتایا گیا کہ اجلاس میں بیرئیر سے ہٹانے کے متعلق احکامات جاری ہوئے تھے ۔

انہوں نے 11:15 پر دوبارہ وزیر قانون کو کال کی اور ان کو وزیر اعلی کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ کمشنر لاہور نے اس فیصلے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا ۔

اور کسی بھی موقع پر پولیس یا فورس استعمال کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا تھا ۔ انہوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ وزیر اعلی کے تحفظات اور Dis-engage ہونے کےاحکامات پر عمل کیوں نہیں کیا گیا ۔

رپورٹ کا خلاصہ
خلاصے میں بتایا گیا ہے کہ آپریشن میں شامل کسی بھی پولیس والے نے یہ نہیں بتایا کہ گولی چلانے کا آرڈر کس نے دیا Code of Criminal Procedure 1898 کے سیکشن 128 کے مطابق گولی چلانے کا آرڈر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے نیچے کے رینک کا افسر نہیں دے سکتا ۔

اس معاملے پر پولیس کی خاموشی اور حقائق کو چھپانے نے ٹریبیونل کو اس معاملے کے حوالے سے تشویش میں رکھا اور ٹریبیونل اس حوالے سے یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کسی خفیہ یا (ظاہری) حکم پر ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لئے نہتے پاکستانیوں کی قیمتی جانوں کاقتل کیا گیا۔ اور لگتا ہے کہ پولیس نے جان بوجھ کر حقائق کو چھپانے کے لئے قانون سے دھوکہ کیا ۔

ٹریبیونل کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت پنجاب نے پنجاب ٹریبیونل آرڈیننس 1959 کے سیکشن 11 کے مطابق ان کو اختیارات تفویض نہیں کئے ۔ جس سے لگتا ہے کہ ٹریبیونل کو حقائق کی چھان بین سے روکا گیا ۔اس بات سے عیاں ہے کہ حکومت پنجاب کا سچائی جانچنے کے حوالے سے ارادہ درست نہیں تھا۔

17-6-2014 کو 10 سے 12 بجے کے دوران آئی جی پنجاب کا پولیس کو براہ راست کمانڈ نہ کرنا اور اسی وقت میں چیف جسٹس کا حلف ہونا اور پھر اس وقت کے دوران وزیر اعلی کا تقریب حلف برادری میں شرکت کرنا۔ اس سب واقعات کی تفتیش کے لئے ٹریبیونل کے پاس اختیار نہیں تھا۔

یہ اہم اسلئے ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نے اپنی بیان حلفی میں خاص طور پر تقریب حلف برادری میں شرکت کرنے کا ذکر کیا ہے جو عین آپریشن کے وقت ہو رہی تھی ۔ بعد کے ٹیلی فون اور روابط کے بعد دو ذمہ دار افسران کی طرف سے یہ بیان دینا کہ حالات قابو میں ہے ۔ یہ سارے واقعات بھی معاملے کو مشکوک کرتے ہیں ۔

حیران کن طور پر رانا ثنااللہ نے وزیر اعلی کی طرف سے Disengagement کے احکامات کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا ۔ ہوم سیکرٹری سمیت پولیس اور دیگر افسران کی طرف سے کسی بھی حلف نامے میں اس لفظ کا زکر موجود نہیں ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعلی کے یہ احکامات کسی کو بھی نہیں پہنچائے گئے ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ ٹرییونل انتہائی دکھ کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ پنجاب حکومت نے کسی بھی موقع پر ہائی کورٹ کے آرڈرز کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بیرئیرز کے نصب ہونے سے لے کر آپریشن کے دن تک تین سال میں کسی بھی مقامی رہائشی نے ان بیرئیرز کے متعلق کوئی شکایت نہیں کی۔

ان سب حالات سے صرف نظر کیا گیا اور وزیر قانون کے احکام پر یہ اس آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا۔ اگر ان چیزوں کو مد نظر رکھا جاتا تو بہت سی قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ کرمنالوجی میں یہ ایک اہم اصول ہے کہ آدمی جھوٹ بول سکتا ہے لیکن حالات نہیں۔

اس واقعے میں حالات اور شوائد واضح طور پرنشاندہی کرتے ہیں کہ پولیس اس قتل عام میں بھرپور طور شامل تھی ۔ رپورٹ کا مواد مدد دیتا ہے کہ اس سے واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے ۔

واضح رہے کہ ٹریبیونل کے اس رپورٹ پر نظر ثانی کرنے کے لئے پنجاب حکومت نے جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن پر مشتمل کمیٹی بنائی ۔ جنہوں نے اپنی سفارشات میں رپورٹ کے کئی حصوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پنجاب حکومت کو مشورہ دیا کہ اس رپورٹ کو تسلیم نہ کیا جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے