نوازشریف،جنرل اسددرانی اوردفاعی تجزیہ کار

تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل (ر)اسد درانی کی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر لکھی گئی ”سپائی کرانیکلز:را، آئی ایس آئی اینڈ الوژن آف پیس” نامی کتاب سے متعلق فوج نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے واقعات حقائق کے برعکس پیش کیے گئے ہیں ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ جنرل درانی کو جی ایچ کیو وضاحت کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے۔

جنرل اسد درانی کا نام آج کل جنرل اصغر خان کیس (1990 کے الیکشن میں سیاست دانوں کو خفیہ طریقے سے رقوم دینے)کی وجہ سے خبروں میں تھا ہی لیکن اب اس کتاب کی وجہ سے نئی پیچیدگی نے جنم لیا ہے ۔

اس کتاب کی اشاعت کی ٹائمنگ اسٹیبلشمنٹ کے لیے کافی کل کا باعث بن چکی ہے ۔ ایک طرف اس وقت اسٹیبلشمنٹ نواز شریف سے نمٹنے کی کوشش میں مصروف ہے اور وہ تمام ذرائع کام میں لا کر نواز شریف کا ہر سطح پر ٹرائل کر رہی ہے جبکہ نواز شریف ہر تیسرے دن کوئی سخت بیان جاری کر دیتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی ٹی وی چینلز پر درجن بھر کے قریب معروف دفاعی تجزیہ کار(جن کی اکثریت سابق فوجی افسران پر مشتمل ہے) کافی بجھے بجھے سے دکھائی دے رہے ہیں ، حالانکہ یہ دفاعی تجزیہ کار عام طور پر بہت اونچی آواز میں قوم کو حب الوطنی اور غداری کی تعریفیں سکھاتے رہتے ہیں۔

نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی توقع کے برعکس ابھی تک جھکنے کی بجائے میدان میں تن کر کھڑے ہیں ۔ وہ عدالت سے تاحیات نااہلی کا پروانہ لینے کے باوجود مسلسل بڑے بڑے عوامی اجتماعات سے بہت زور دار تقریریں کر رہے ہیں۔ جو کسر رہ جاتی ہے وہ ان کی صاحبزادی پوری کر دیتی ہے۔

نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ مسلسل احتساب عدالت میں بھی پیش ہو رہے ہیں اور ہر پیشی کے بعد وہاں موجود صحافیوں کی رپورٹس کے مطابق وہ ڈٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کے لیے مزید پریشانی کا باعث ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ ”بدلے ہوئے نواز شریف” کو دیکھ کر حیران ہے۔

ہم نے دیکھا کہ ڈان اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں کے بارے میں ایک استفہامیہ جملے کے بعد نواز شریف اور ان کی پارٹی دفاعی پوزیشن میں چلی گئی تھی ۔اس غیر محتاط بیان کے بعد پورا میڈیا خاص طور پر دفاعی تجزیہ کار اور ان کے ہمنوا انہیں غدار قرار دے رہے تھے ۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما اس کے بعد سخت مشکل میں دکھائی دیے ۔

اب جنرل درانی کی را کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر لکھی گئی کتاب کی اشاعت کے بعد صورت حال ایک بار پھر پلٹ گئی ہے ۔ اب اسٹبلشمنٹ اور اس کے ہمدرد پریشان ہیں کہ جنرل درانی کو کیسے غدار کہا جائے ۔ ان کے لیے نواز شریف کو غدار کہنا نسبتاً بہت آسان تھا۔ اسد درانی کے نام کے ساتھ لگا سابقہ یعنی ”لیفٹینٹ جنرل (ر)” ان کے لیے سنسر کا کام دے رہا ہے ۔ میں دیکھا کہ وہ اب دھمیے سے ہو گئے ہیں۔

تین بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے نواز شریف کو خوب ادراک ہے کہ لوہا کب گرم ہوتا ہے اور کب اس پر وار کرتے ہیں ۔(جی ناقدین کے بقول وہ لوہے کی خو خصلت بہت جانتے ہیں) انہوں نے گرم لوہے پر یہ وار 25 مئی 2018کو احتساب عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا اور ان سے یہ بھی پوچھا کہ کیا تم میری یہ بات میڈیا پر چلا سکو گے؟ نواز شریف نے کہا ”جنرل درانی کے بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے پر بھی ایک قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے اور اس کو اسی طرح زیر بحث لایا جائے جس طرح ڈان اخبار میں ممبئی حملوں سے متعلق شائع ہونے والے میرے بیان پر اجلاس ہوا”

اب نواز شریف کی میڈیا میں مسلسل پسپائی میں کمی آئی ہے اور ان کے وفادار لوگ کافی دنوں بعد چڑھ اور بڑھ کر ناقدین سے بات کر رہے ہیں لیکن میرا نہیں خیال کہ نواز شریف کی عدالت میں پسپائی کا عمل اس سے رُک سکے گا۔

نوٹ : میں یہ تحریر لکھ کر ٹوئیٹر کی جانب متوجہ ہی ہوا تھا کہ سامنے فوج کے اطلاعاتی ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ کی ٹوئیٹ نظرآئی ، جس میں کہا گیا ہے کہ ”لیفٹینٹ جنرل اسد درانی کو 28مئی 2018کو جی ایچ کیو طلب کیا گیا ہے تاکہ ان باتوں کے بارے میں وضاحت طلب کی جائے جو ان کی نسبت سے اس کتاب سپائی کرانیکلز:را، آئی ایس آئی اینڈ الوژن آف پیس’ میں شائع ہوئی ہیں۔ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ کتاب میں جنرل درانی سے منسوب باتیں فوج کے اس ضابطہ اخلاق کے مغائر تصور کی گئی ہیں جس کا اطلاق ہر حاضر سروس اور ریٹائر فوجی ملازم پر ہوتا ہے۔ ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے