تبدیلی کا راگ اور الیکٹ ایبلز کو ٹکٹیں!

الیکشن الیکٹیبلز کے گرد گھوم رہے ہیں۔ نئے چہرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ یہی ملکی سیاست کی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔ لچھے دار گفتگو اور تقریرں اپنی جگہ ۔ لیکن یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ ملکی سیاست کے اندر پیسہ اور پاور ہی سب سے بڑی سچائی ہے ۔الیکشن سے پہلے بھی اوربعد میں بھی۔ اگر آپ طاقتور ہیں تو ٹکٹ آپ کا ہے ۔چاہے آپ کا ماضی جیسا بھی ہو۔ مگر اگر آپ نظریاتی ہیں ۔ایماندار ہیں ،محب وطن ہیں ۔یہ سب باتیں آپ کو انتخابات لڑنے کے قابل بالکل بھی نہیں بناتیں ۔

اگر آپ کے پاس بے پناہ دولت نہیں ہے ۔ بڑی بڑی گاڑیاں اور ڈیرے داریاں نہیں ہیں ۔آگے پیچھے گن مین اور پروٹوکول نہیں ہے ۔تو آپ سیاستدان نہیں ہیں ۔آپ انتخابات ،لڑنے کے اہل نہیں ہے ۔ 2018 ءتک ملکی سیاست کی یہی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔

موجودہ الیکشن میں پارٹیاں ابھی تک تبدیلی کی باتیں کررہی ہیں ۔سب ہی جماعتیں نوجوانوں کے حقوق کی صرف زبانی کلامی بات کرتی ہیں ۔انہیں ہلاشیری دیتی ہیں ۔اپنی الیکشن مہم میں انہیں استعمال کرتی ہیں ان کے جذبات کے ساتھ کھیلتی ہیں ۔مگر کوئی جماعت ان کو اسمبلی میں لے کر جانے کو تیارنہیں ہے ۔کیااسمبلی میں بیٹھنے کا حق انہی گھسے پٹے چہروں کوہے جن کو دیکھ دیکھ کر سب اکتا چکے ہیں اور جن کی ”کارکردگی “ کے باعث آج ملک کی یہ حالت ہے کہ ہم عالمی سطح پر ایک بھکاری بن چکے ہیں ۔ پوری قوم قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہے ۔نئی سوچ ، نئے خیالات اور تازہ ذہنوں کو جگہ کیوں نہیں د ی جارہی ؟

سب سے زیادہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت تحریک انصاف تھی مگر اس جماعت کا حال بھی یہ ہے کہ اب اس میں بھی وہی روایتی سیاستدان اکھٹے ہوگئے ہیں ۔عمران خان کو سائیڈ پر کر دیں تو باقی سب پیپلز پارٹی ، ق لیگ، اور ن لیگ کے لوگ ہیں ۔امید ہے کہ ٹکٹیں بھی ان کو ہی ملیں گی کیونکہ وہ ہر صورت جیتنا چاہتے ہیں اوراقتدار کی راہداریوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو کیاوہ لوگ جو پہلے بھی اقتدار میں رہے ہیں ۔ آخری دنوں میں جماعت تبدیل کرکے اگر دوبارہ انتخابات جیت کر اسمبلی میں پہنچ گئے تو کیا یہ ووٹرز کے ساتھ مذاق نہیں ؟

مسلم لیگ ن کی بھی یہی پالیسی ہے ۔ یوتھ ونگز آپ بنالیں ان سے کام بھی لیں لیکن ان کو آگے کبھی نہیں لے کے آئیں گے ، ان کوبالواسطہ طریقے سے بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کی ایک حد ہے ، آپ بس اس میں رہیں ۔

پیپلزپارٹی جو کبھی بھٹو کی جماعت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت پر پور ے ملک کے نوجوان فداتھے۔ سٹوڈنٹس بھٹو کے دیوانے تھے۔ بھٹو بھی ان سے پیارکرتے تھے اور نوجوانوں کے لئے انہوں نے اچھے اقدامات بھی اٹھائے ۔آج بھٹو کے نام پر ووٹ لینے والی پارٹی ذرا اپنے گریباں میں جھانکے ۔ خود احتسابی کرے کہ آج وہ جماعت کہاں کھڑی ہے ؟ اپنی قیادت کو لائن میں کھڑا کرکے ان کے چہروں کو غور سے دیکھے تومعلوم ہوگا کہ بھٹو کی جماعت کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیاہے ۔یہ بھٹو کی جماعت نہیں ہے نہ ہی اس کی پالیسیوں اورمنشور کے اندر بھٹواز م کی ذراسی بھی جھلک ہے ۔ اس نے سندھ کے لوگوں کے ووٹ کی جو پامالی کی ہے وہ ریکارڈکا حصہ ہے اور اسے کوئی بھی جاکر دیکھ سکتاہے ۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ کراچی کے لوگوں کے زیادہ ووٹ ایم کیوایم کے پاس ہیں ۔ کراچی کا برا حال ہے ۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی آپسی ٹسل کراچی کو بھگتنا پڑتی ہے ۔ کراچی کے لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں اور یہاں تک کہ ان کے پاس سفر کرنے کے لئے معیاری ٹرانسپورٹ نہیں ہے ۔کراچی کے لوگ پنجاب کے وزیر اعلی کو رینٹ پرلینے کے لئے بھی تیار تھے کیونکہ کراچی میں عوام کو ڈیلیورنہیں کیا گیا۔

لاڑکانہ جو کہ بھٹو کا آبائی شہرہے ۔ اس کے باسی جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ تھر کے صحرا میں انسان اور جانورمیں کوئی فرق نہیں ۔ دونوں ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں اور آج بھی باقی علاقوں سے دو سو سال پیچھے ہیں۔بھٹو کا نام استعمال کرکے زرداری اینڈ کمپنی نے نہ صرف جماعت بلکہ سندھ کا بھی بیڑا غرق کردیاہے ۔ بلاول کو چاہئے کہ وہ پارٹی کی فل کمانڈ اپنے ہاتھ میں لے ۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے لے کر آئے اور دوبارہ سے اس جماعت کے اندر جان ڈال کر اسے دوسروں کے لئے مثال بنا دے ۔

پاکستان کا نوجوان بہت زیادہ ٹیلینڈ ہے ۔ اس ٹیلنٹ کے اظہار کے انہیں مواقع فراہم کرکے تو دیکھیں ۔ان نام نہاد ”الیکٹبلز “ نے ملک کو چولیں ہلا کررکھ دی ہیں ۔ ان کے بینک بیلنس، خاندان اور جائیدادیں بیرون ملک ہیں انہیں اب اس مٹی سے کوئی سروکارنہیں رہا۔ وہ صرف ملک کے اندر اقتدار اپنی عیاشیوں کے لئے حاصل کرتے ہیں اور غریب لوگوں پر راج کرنا ہی ان کا مطمع نظر ہوتاہے ۔ ان سے چھٹکارے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو اس حوالے سے شعور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ان کی باتوں میں مت آئیں۔

ووٹرز کے لیے آئندہ انتخابات کے لئے یہی ہدایات ہیں کہ وہ نظریاتی ووٹ دیں ۔ لوٹوں کو مسترد کردیں ۔ تاکہ ان کوسبق ملے کے انتخابی عمل کوئی مذاق نہیں ہے کہ آپ جس بھی جماعت کی آڑ لے کر آجائیں گے اورجیت بھی جائیں گے ۔جمہور ہی جمہوری گند کو صاف کرسکتے ہیں ۔ اب انہیں اس بات کا احساس دلوانے کی ضرورت ہے ۔ یہ احسا س پڑھے لکھے نوجوان دلائیں گے ۔عوام ان انتخابات میں الیکٹبلز والی تھیوری کو غلط ثابت کردیں تو ملک میں واقعی تبدیلی آجائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے