امریکی وسط مدتی انتخابات اور جمہوریت کا امتحان

ہم سے کہیں زیادہ اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے ان دنوں کے امریکہ میں یہ کالم لکھتے وقت مڈٹرم انتخابات شروع ہوچکے ہیں۔ وسط مدتی انتخابات اس ملک میں درحقیقت قومی اسمبلی کی تمام اور سینٹ کی آدھی نشستوں کے لئے ہوتے ہیں۔ چند ریاستوں کو نئے گورنر بھی منتخب کرناہوتے ہیں۔

صدارتی انتخاب کے عین دو برس بعد ہونے والے انتخابات کئی حوالوں سے کسی صدر کی کارکردگی کو ماپنے کا معیار تصور کئے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کے مخالفین کو قوی اُمید ہے کہ منگل کے روز امریکی رائے دہندگان کی ایک مو¿ثر تعداد گھروں سے نکل کر ڈیموکریٹ جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کی حمایت میں ووٹ ڈالے گی۔ وہاں کی قومی اسمبلی میں جسے Houseکہا جاتا ہے اگر ٹرمپ مخالفین اکثریت دکھانے میں کامیاب ہوگئے تو ٹرمپ کے ”پاگل پن“ کو لگام دینے کی گنجائش نکل آئے گی۔امریکہ سفید فارم تعصب پرستوں کے پھیلائے ہوئے ”فاشزم“سے محفوظ ہوجائے گا۔ نام نہاد ”سسٹم“ کے زندہ رہنے کی اُمید جاگ اُٹھے گی۔

امریکہ کو ”فاشزم“ سے بچانے کی خواہش میں وہاں کے کئی نامور صحافی اور کالم نگار اپنے پیشے سے متوقع” غیر جانبداری“ کو بھلاتے ہوئے یکسوہوکر عوام سے فریاد کررہے ہیں کہ وہ کثیر تعداد میں گھروں سے نکل کر ٹرمپ مخالفین کو کامیاب ہونے میں مدد دیں۔ یقینا پراپیگنڈہ دِکھتی یہ صحافت امریکہ کے لئے ایک نئی بات ہے۔ صحافی مگر اپنی ”غیر جانب داری“ بھلانے پر شرمسار نہیں۔ اپنی دانست میں اپنے ذمہ آئے ایک ”تاریخی“ فرض کو نبھارہے ہیں۔ ”ضمیر کی آواز“ وغیرہ۔

مجھ جیسے کئی جھکی اور شکست خوردہ ذہن مگر متفکر ہیں کہ امریکی میڈیا کے ایک مو¿ثر عملے کی جانب سے مچائی یہ دہائی کسی کام نہیں آئے گی۔ سفید فام امریکی ووٹروں کی اکثریت کو ٹرمپ سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ بہت شدت سے بلکہ یہ محسوس کررہے ہیں کہ بالآخر انہیں ایک ایسا صدر مل گیا ہے جو ”واشنگٹن کے جوہڑ“ پر کئی دہائیوں سے مسلط اشرافیہ کو ان کی اوقات یا ددلارہا ہے۔ ان کے وطن کو غیر ملکی تارکین وطن کی یلغار سے محفوظ بنارہا ہے۔ چین کی دلجوئی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اس کی سستی مصنوعات کو امریکی منڈیوں میں موجودگی کو مشکل تربنانے کی کوشش کررہا ہے۔

ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے کئی دہائیوں کے جمود کے بعد امریکی معیشت بحال ہوتی نظر آرہی ہے۔بے روزگاری میں نمایاں کمی ہورہی ہے۔ حال ہی میں جمع ہوئے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں لوگوں کی تنخواہوں اور روزانہ اُجرت میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا ۔ امریکی سیاست کا فیصلہ بالآخر "It is the Economy Stupid”کیاکرتی ہے۔ اس حوالے سے ٹرمپ کے دوبرسوں نے Feel Goodماحول بنادیا ہے۔ ووٹ کے ذریعے اسے قابو میں لانے کی Spaceموجود نہیں رہی۔

ٹرمپ کے حامی جن کی کثیر تعداد نسبتا چھوٹے شہروں یا قصبات میں مقیم ہے بہت شدت سے یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ کا روایتی اور بہت طاقتور تصور ہوتا میڈیا-واشنگٹن،نیویارک ٹائمز اور CNNوغیرہ-درحقیقت ”واشنگٹن کے جوہڑ“ پر کئی دہائیوں سے مسلط اشرافیہ کا ذہنی غلام ہے۔بھاری بھر کم تنخواہوں پر کام کرتے اور سٹار بنے اینکر خواتین وحضرات جو خود کو ”لبرل“ بناکر دکھاتے ہیں،ٹرمپ کے برپا کئے”انقلاب“ سے خوفزدہ ہیں۔ ان کے لکھے اور بولے الفاظ پر عام آدمی اب بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ ”لبرل صحافی“ ایک سفید فام اور سفید پوش شہری کی بنیادی ضروریات و ترجیجات کے بارے میں بے خبر ہیں۔ محض ٹرمپ کی ذات کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔

اسے دنیا کے سامنے ایک مسخرہ بناکر پیش کررہے ہیں۔ اپنے صدر کو اس انداز میں پیش کرتے ہوئے روایتی اشرافیہ کے ذہنی غلام ٹرمپ کی ذات کو نہیں بلکہ امریکہ کو برا دکھا کرپیش کررہے ہیں۔ اسی باعث جب ان کا صدر انہیں Fake Newsپھیلانے والے غدار کہہ کر پکارتا ہے تو وہ پریشان نہیں ہوتے۔ واقعتا یہ مانتے ہیں کہ ٹرمپ کی اہانت امریکہ کی اہانت ہے۔

ٹرمپ کے حامیوں کے دلوں میں موجزن جذبات کا منطقی بنیادوں پر ہوا تجزیہ پڑھتے ہوئے مجھے وطن عزیز کی موجودہ صورت حال زیادہ صاف دِکھنا شروع ہوجاتی ہے۔حکمران جماعت کے حامیوں کی جانب سے ”لفافہ“ ٹھہرائے صحافیوں کی صورتیں ذہن میں ابھرتی ہیں اور اکثر آئینے میں خود کو دیکھ کر تھوڑاغور کرنے کو مجبور ہوجاتا ہوں۔ حوصلہ مگر یہ جان کر نصیب ہوتا ہے کہ فی الوقت نظام کہنہ کو تباہ کرنے کے وعدے پر 25جولائی 2018کے انتخابات کے ذ ریعے ہمارے حکمران ہوئے افراد نے معاشی میدان میں کوئی رونق نہیں لگائی ہے۔ اس رونق کے بغیر ”لفافہ“ صحافیوں کی لکھی اور کہی باتوں کو ہمارے عوام کی کثیر تعداد پوری توجہ سے پڑھنے اور سننے کو مجبور رہے گی۔

اپنے حالات کے تجزئیے کو کسی اور دن کے لئے مو¿خر کرتے ہوئے امریکہ کے وسط مدتی انتخاب کی طرف لوٹیں تو بہت پریشانی مجھے یہ جان کر بھی ہوئی کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں ووٹروں کی رجسٹریشن اور پولنگ کے لئے جدید ترین مشینوں کا استعمال ہوتا ہے46فی صد افراد کو یہ اعتبار ہی نہیں رہا کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت ان کا دیا ووٹ اسی امیدوار کی حمایت میں ڈالا دکھائی دے گا جسے انہوں نے پولنگ کے دن دیا تھا۔46فی صد ایک حیران کن تعداد ہے۔ اس تعداد کی حقیقت کو ذہن کرتے ہوئے کئی تجزیہ کار یہ سوچنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ ”تاریخی فریضہ“ نبھاتے صحافیوں کی تمام تر فریادوں کے باوجود ٹرمپ مخالفین کی ایک کثیر تعداد وسط مدتی انتخابات کے دوران گھروں سے نکل کر پولنگ سٹیشن جاکر ووٹ ڈالنے کا تردد ہی نہ کرے گی۔

انتخابی نظام پر اعتماد اُٹھ جانے کا بحران ہے جو اس وجہ سے بھی سنگین تر ہورہا ہے کہ ووٹروں کی رجسٹریشن کے عمل کو بہت پیچیدہ بنادیا گیا ہے۔ سیاہ فام اور ہسپانوی تارکینِ وطن کئی برسوں سے باقاعدہ امریکی شہری ہوتے ہوئے بھی جب اپنا ووٹ رجسٹر کروانے کا فیصلہ کریں تو رجسٹریشن کے لئے ضروری ٹھہرائی شرائط سے گھبرا جاتے ہیں۔ اسی باعث تو ایک مبصر یہ کہنے پر مجبور ہواکہ امریکہ میں اب ووٹر کسی سیاستدان کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ سیاست دان امریکی پارلیمان میں پہنچنے کے لئے اپنے حلقہ انتخاب اور ووٹروں کا ”انتخاب“ کرتا ہے۔ امریکہ میں اس سارے عمل کو Gerrymandering کہا جاتا ہے جو دن بدن توانا تر ہورہا ہے۔

کسی بھی ملک میں عام ووٹرجب نام نہاد ”سسٹم“ سے شکست کھاکر یہ سوچنے کو مجبور ہوجائے کہ اس کی رائے جس کا اظہار ووٹ کے ذریعے ممکن بنانے کی امید دلائی جاتی ہے اگر فیصلہ سازی کے اختیار کے حامل حکمرانوں کے چناﺅ میں کوئی دقعت نہیں رکھتی تو جمہوریت نام کا تماشہ کیوں۔”دنیا کی سب سے طاقت ور جمہوریت“ میں اگر جمہوری نظام کے بارے میں ایسے سوالات کا سیلاب اُمڈ آیا ہے تو پاکستان جیسے ملکوں میں اس نظام کے لئے فقط خیر کی دُعاہی مانگی جاسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے