نویں پارے کے مضامین

اس پارے کے شروع میں قومِ شعیب کے سرکش سرداروں کی اس دھمکی کا ذکر ہے کہ اے شعیب ! ہمارے دین کی طرف پلٹ آؤ ‘ ورنہ ہم تمہیں اور تمہارے پیرو کاروں کو جلاوطن کردیں گے ۔ شعیب علیہ السلام نے اللہ سے التجاکی کہ اے اللہ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے‘پھر اُن پر قومِ ثمود کی طرح عذاب نازل ہوااور وہ ایسے نیست ونابود ہوئے کہ جیسے کچھ تھاہی نہیں ۔ آیت نمبر:96میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اگر اِن بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور تقوے کو اختیار کیاہوتا توہم انہیں زمین و آسمان کی نعمتیں فراوانی سے عطا کر دیتے ‘لیکن حق کو جھٹلانے کے سبب وہ انجامِ بد سے دوچار ہوئے ۔ان بستی والوں کو ا س سے بے پرواہ نہیں ہونا چاہئے تھاکہ اِن پر ہمارا عذاب رات کو سوتے میں یا دِن چڑھے آسکتاہے ۔گزشتہ امتوں کے احوال سنا کر رسول اللہ ﷺ کو کفارِ مکہ کی ایذا رسانیوں پر تسلی دینا اور مشرکینِ مکہ کو عبرت دلانا مقصود ہے ۔

آیت نمبر:103سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت اور فرعون اور اس کے پیروکاروں کا ذکر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو دعوتِ حق دی اور کہا کہ میں تمہارے پاس واضح نشانیاں لایا ہوں اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو ‘ فرعون نے معجزات پیش کرنے کے لئے کہا : حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ ایک واضح اژدھا بن گیا ‘ انہوں نے اپنا ہاتھ (گریبان سے) نکالا تو وہ دیکھنے والوں کے لئے روشن ہوگیا۔ فرعون کے سرداروں نے حق کو قبول کرنے کے بجائے اسے جادو قرار دیااور کہا کہ یہ تمہیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتاہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ذرا ڈھیل دو اور جادوگروں کو جمع کرو ‘ جادو گر آئے اور انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہمارا انعام کیا ہو گا‘ اس نے کہا کہ تم ہمارے مقربین میں سے ہوجاؤگے۔ جادو گروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ پہلے کریں گے یا ہم کریں؟۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم پہل کرو‘ جب جادو گروں نے اپنی (رسیاں) زمین پر ڈال دیں تو لوگوں کی نگاہوں کو سحرزدہ کردیا اور انہیں ڈرا دیا اور (انہوں نے کہایہ تو) بڑا جادو لے آئے ۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنا عصا (زمین پر) ڈالیں‘ وہ عصا سانپ بنا اور جادو گروں کی چیزوں کو نگلنے لگا۔ اس طرح معجزے کی حقانیت اور جادو کا بُطلان ثابت ہوا اور فرعونی رسوا ہوئے ۔

جادوگر سجدے میں گر پڑے ‘ اللہ پر ایمان لے آئے ‘ فرعون نے انہیں دھمکی دی کہ میری اجازت کے بغیر تم ایمان لے آئے ‘ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمہیں سولی چڑھاؤں گا‘ انہوں نے کہا کہ ایمان لانے کی پاداش میں تم ہمیں سزا دینا چاہتے ہو؟پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے صبرواستقامت کی دعا کی۔ اس کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم دیا ۔

آیت نمبر:130سے بتایا کہ اللہ نے فرعونیوں پر قحط سالی کا عذاب نازل کیا‘ فرعونیوں کا طریقہ یہ تھا کہ اچھائی کو اپنا کمال گردانتے اور برائی کو بدشگونی کے طور پر موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے۔ پھر ان پر ٹڈیوں ‘ دل‘ جوؤں ‘ مینڈکوں اور خون کاعذاب نازل کیا۔ جب عذاب میں مبتلا ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے یہ عذاب ٹل جائے ‘ اگر ایسا ہوا تو ہم آپ ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کردیں گے‘ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے نتیجے میں عذاب ٹل جانے کے بعدبنی اسرائیل اپنے وعدے سے پھر گئے ‘تو اﷲتعالیٰ نے بھی اُنہیں سمندر میں غرق کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے کمزور لوگوں کو مشرق ومغرب کو وارث بنا دیا اوربنی اسرائیل سے جو خیر کا وعدہ تھا وہ پورا ہوا ۔

بنی اسرائیل سمندر پار کرکے ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بتوں کو پرستش کرتی تھی‘ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے لئے بھی ایک خدا بنادیجئے ‘حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : بت پرستی کرنے والے جاہل ہیں اور اپنی جاہلیت کے باعث ہی ہلاک ہونے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم میں ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا اور کوہِ طور پرتشریف لے گئے اور یہ چالیس دن کا عرصہ تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنا جلوہ دکھانے کی دعا کی ‘ لیکن جب اﷲتعالیٰ بالواسطہ جلوہ فرما ہو ا‘ تو موسیٰ علیہ السلام اس کی تاب نہ لاکر بیہوش ہوگئے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا۔

آیت نمبر:144سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسالت عطا کرنے ‘ کلیم اللہ کا منصب عطا کرنے اور تورات عطا کرنے کا ذکر ہے ۔ آگے چل کر بتایا کہ متکبر آیاتِ الٰہی سے اعراض کریں گے اور جو لوگ اللہ کی آیات اورقیامت کو جھٹلاتے ہیں ‘ ان کے اعمال باطل ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر قیام کے عرصے میں بنی اسرائیل کے زیورات سے بچھڑا بناکر اسے معبود بنانے کا ذکر ہے؛ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تو قوم پرغصے اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا : میرے پیچھے تم نے ایسا برا کام کیا‘ انہوں نے تورات کی تختیاں زمین پر ڈالیں اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر ان سے جواب طلبی کی ۔ انہوں نے کہا : اے میرے بھائی قوم نے مجھے بے بس کر دیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیں ‘ اب آپ مجھ پر سختی کرکے دشمنوں کو ہنسی کا موقع نہ دیں ‘ پھر آیت نمبر:151میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا اور کلماتِ استغفار کا ذکر ہے ۔ آگے چل کر بتایا کہ غصہ ٹھنڈا ہونے پر موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی تختیوں کو اٹھایا ‘ جن کی تحریر میں اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت کی نوید تھی۔

آیت نمبر:155تا 158میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے ‘ جس میں انہوں نے اپنی قوم کے لئے اللہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگی۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کامل نعمت میں ان لوگوں کو عطا کروںگا جوایمان کے ساتھ تقویٰ اختیار کریںگے ‘ زکوٰۃ دیںگے اوراس عظیم رسول نبیِ امی کی پیروی کریں گے ‘ جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور یہ نبی ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال کرے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرے گا اور بدا عمالیوں کا بوجھ اور ان کے گلوں میں پڑے ہوئے طوق اتار دے گا ‘ سو جو لوگ ان پر ایمان لائے ‘ ان کی تعظیم اور نصرت کی اور اس نورِ(ہدایت) کی پیروی کی جو اُن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے ‘ وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی رسالتِ عامّہ کا ذکر ہے۔

آیت نمبر:160سے موسیٰ علیہ السلام کی پتھر پر ضرب سے ان کی قوم کے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہونے کے معجزے کابیان ہے۔ اس کے بعد اس امر کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ معافی مانگتے اور سجدہ کرتے ہوئے بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ‘ مگر انہوں نے اس مسئلے میں بھی تحریف کی‘ مزید بتایا کہ سمندر کے کنارے ایلا نامی بستی میں انہیں ہفتے کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا‘ مگر انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ۔بنی اسرائیل کی ان نافرمانیوں کے باعث اُن کی صورتوں کو مسخ کرکے بندر بنا دیا گیا ۔آیت نمبر:172میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی ارواح کو جمع کیا اور ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار کروایا ‘ اس اقرار کو ”عہدِ اَلَسْت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

آیت نمبر:179میں اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عقل کو قبولِ ہدایت کے لئے استعمال نہ کرنے والوں کو چوپایوں سے بد تر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ : ان کے دل ہیں مگر وہ (حق کے دلائل کو)سمجھتے نہیں ‘ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ (آیاتِ الٰہی کو) دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ (دعوتِ حق کو ) سنتے نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کو بارگاہِ الوہیت میں عجز ونیاز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ”کہو!میں اپنی ذات کے لئے (خود سے) کسی ونفع ونقصان کا مالک نہیں ‘ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں (اپنی ذات سے) غیب کو جانتا تو میں (ازخود) خیرِ کثیر جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘یعنی غیب کے علوم اور ساری نعمتیں رب ہی کی عطا سے ہیں اور کبھی کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی قضا وقدر سے پہنچتی ہے ۔

آیت نمبر:188میں بتایا کہ تمام بنی آدم کو ایک جان (آدم علیہ السلام) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بھی بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے ۔آیت نمبر:184سے مشرکوں کے معبودانِ باطلہ کے بارے میں بتایا کہ وہ تمہاری ہی طرح مخلوق ہیں اور آنکھ ‘ کان ‘ہاتھ اور پاؤں کی نعمت سے بھی محروم ہیں ‘ یعنی وہ خود ہی عاجز وبے بس ہیںاور کسی کو نقصان یا نفع پہنچانے پر قادر نہیں ہیں۔سورۂ اعراف کے آخر میںہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو‘ تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کوصبح وشام خوف اور عاجزی کے ساتھ پست آواز میں دل میں یاد کرواور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔

[pullquote]الانفال[/pullquote]

انفال مطلقاً مالِ غنیمت کو بھی کہتے ہیں اور کسی مجاہد کو غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے دوسرے مجاہدین کے مقابلے میں کچھ زائد دیا جائے‘ تو اسے بھی نفل یا انفال کہتے ہیں ۔ آیت نمبر:02میں کامل مؤمنوں کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں : ۱۔ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ۲۔ آیاتِ الٰہی سن کر ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے۔۳۔وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔۴۔اقامتِ صلوٰۃ اور(۵)ادائے زکوٰۃ ان کا شِعار ہے اور یہ سچے اور پکے مومن ہیں۔آیت نمبر:05 میںفرمایا کہ کچھ لوگ جہاد کے لئے دل وجان سے آمادہ نہ تھے اورمجاہدین کی خواہش تھی کہ ابوجہل کی قیادت میں مشرکینِ مکہ کے مسلح ومنظم لشکر کی بجائے ابوسفیان کے تجارتی قافلے سے ٹکراؤہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین ِ مکہ سے تصادم کو مقدر فرمایا‘ تاکہ حق کی حقانیت اور غلبہ ثابت ہوجائے ۔

آیت نمبر:8سے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر میں مجاہدین کے اطمینانِ قلب کے لئے اور فتح کی بشارت کے طور پر فرشتے نصرت کیلئے بھیجے۔میدانِ بدر میں سخت زمین اور پانی کے چشمے کفار کے پاس تھے اور نرم زمین (جس پر چلنا دشوار ہوتاہے) مسلمانوں کے پاس تھی اور پانی کی بھی قلت تھی ‘ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کے توہمات پیداہوتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے بارش برسائی اور مسلمانوں نے وافر پانی جمع کر لیا اور ان کی شرعی اور طبعی ضروریات بھی پوری ہوئیں اور دلوں کو بھی اطمینان ملا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے