ملحدین کی نفسیات

آپ ان ملحدین سے الحاد کی تعریف پوچھ کر دیکھیے، بہت مشکل ہے کہ دو ملحد کوئی ایک تعریف آپ کے سامنے رکھ پائیں. کوئی خوش فہم ملحد اسے روشن خیالی کا نام دے گا تو کوئی مذہب کے خلاف مدافعت کا ! .. کوئی اسے عقل و شعور کی معراج بتائے گا تو کوئی اسے علمی انقلاب سمجھنے کے مرض میں گرفتار ہوگا.

حقیقت یہ ہے کہ الحاد آج ایک خود ساختہ اور بند ذہن کے مذہب کی صورت اختیار کر گیا ہے. مذہب پر کیچڑ اچھالتے اچھالتے آج یہ خود ایک مذہب کا روپ دھار چکے ہیں. یہ صرف زبان سے دلیل کی بات کرتے ہیں مگر انکے کردار پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی ہے. کسی نام نہاد جنونی مذھبی کی طرح ذرا سی بات پر آگ بگولہ ہوجانا، گندی زبان کا استمعال کرنا، انسانیت کا صرف نام لینا مگر دوسرے انسانوں کی قابل احترام شخصیات کی تضحیک کرنا، دنیا کی ہر برائی کو زبردستی مذہب سے جوڑنا، الحاد پر کسی حوالے سے بھی تنقید نہ کرنا، صرف اپنے حق میں موجود کتابوں کا مطالعہ کرنا اور الہامی کتابوں پر تحقیق سے انکار کرنا، مکالمہ کی آڑ میں اپنی نفرت و بغض کا اظہار کرنا وغیرہ .. یہ سب آج کے ملحد کے خد و خال ہیں.

ان کا حال یہ ہے کہ امریکہ، انگلینڈ کی مالا ایسے جپتے ہیں جیسے یہ ممالک ملحد ہوں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے. آج ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جو خود کو ملحد کہتا ہو اور دعا کریں کہ الله انسانیت کو انکا اقتدار نہ دکھائے. کیونکہ یہ تو ایسے تنگ نظر ہیں کہ جسکی کوئی مثال نہیں. تاریخ گواہ ہے کہ جوزف سٹالن اور مسولونی جیسے کتنے ہی ملحد ذہنیت کے افراد نے کروڑوں بیگناہوں کی جان لی مگر مذہب نے کبھی اس ظلم کا ناطہ الحاد سے نہیں جوڑا.

دوسری طرف ان ملحدین کا یہ حال ہے کہ یہ ہر سیاسی مقاصد پر کی گئی قتل و غارت کو بھی زبردستی مذہب سے جوڑ دیتے ہیں. آئین سٹائن ، نیوٹن جیسے ہزاروں لاکھوں سائنسدان گزرے جو خدا پر یقین رکھتے تھے اور جنہوں نے سائنس کو اسکی اصل بنیاد عطا کی مگر ہم نے کبھی سائنس کو دینیت اور لادینیت کی بحث میں نہیں الجھایا مگر انکا حال یہ ہے کہ آج جو سائنسدانوں میں ملحدین کی تعداد زیادہ ہے تو یہ پوری سائنس کو ہی اپنے والد صاحب کی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں.

سوچنا یہ ہے کہ آج تک انہیں اقتدار حاصل نہیں ہوا ہے تب یہ انسانیت کو اتنا نقصان پہنچاتے رہے ہیں، کہیں انہیں طاقت حاصل ہوگئی تو تنگ نظری کی وہ مثالیں قائم ہونگی جو انسان کو انسانیت کے شرف سے محروم کردیں.

ڈاکٹر علی شریعتی
٭ عالم اسلام کے مشہور دانشور اور انقلابی مفکر ڈاکٹرعلی شریعتی کی تاریخ پیدائش 23 نومبر 1933ء ہے۔
ڈاکٹر علی شریعتی ایران میں مشہد کے مضافات میں میزنن کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ 18 برس کی عمر میں انہوں نے تدریس کے پیشے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1964ء میں انہوں نے فرانس کی مشہور سوربون یونیورسٹی سے سوشیولوجی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وطن واپسی پر وہ دوبارہ مشہد یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے۔ ایک مسلمان ماہر عمرانیات کی حیثیت سے انہوں نے مسلم معاشروں کے مسائل کے حل کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا شروع کیا اور انہی اصولوں کے مطابق ان کے حل تجویز کیے، جلد ہی انہیں طالب علموں اور ایران کے مختلف سماجی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوگئی جس سے خائف ہوکر حکومت ایران نے ان کا تبادلہ مشہد سے تہران کردیا۔ تہران میں ڈاکٹر علی شریعتی کی زندگی کا ایک انتہائی فعال اور روشن دور شروع ہوا۔ یہاں انہوں نے ایک مذہبی ادارے حسینیہ ارشاد میں لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا جس کے شرکا کی تعداد رفتہ رفتہ ہزاروں تک پہنچ گئی۔ حکومت نے ان کی اس مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ان کے لیکچرز پر پابندی لگادی اور انہیں قید کی سزا سنادی تاہم عوام کے دبائو اور بین الاقوامی احتجاج کے باعث 20 مارچ 1975ء کو انہیں رہا کردیا گیا، تاہم ان پر اپنے خیالات کی اشاعت اور اپنے طالب علموں سے ملاقات کرنے پر پابندی عائد رہی۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر علی شریعتی نے انگلینڈ ہجرت کا فیصلہ کیا تاہم وہاں بھی شاہ کے کارندے ان کا پیچھا کرتے رہے اور 19 جون 1977ء کو انہیں شہید کردیا گیا۔
ڈاکٹر علی شریعتی کے متعدد لیکچرز کتابی صورت میں شائع ہوئے اور ان کے لاتعداد کیسٹس ایران میں گھر گھر تقسیم ہوئے۔ وہ علامہ اقبال کے مداحین میں شامل تھے اور انہوں نے اقبال کے حوالے سے بھی کئی لیکچرز دیئے تھے جنہیں کتابی شکل میں بھی شائع کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی دیگر تصانیف میں فاطمہ فاطمہ ہے، علی اور تنہائی، حج، مارکسزم اور مغربی مغالطے، مشن آف اے فری تھنکر، علی، مذہب بمقابلہ مذہب، جہاد اور شہادت اور سرخ شیعت کے نام سرفہرست ہیں۔
ڈاکٹر علی شریعتی کو انقلابِ ایران کامعمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ انقلاب ایران کے بعد ایران میں نہ صرف ان کی تصانیف کی اشاعت ممکن ہوئی بلکہ ان کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا اور ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے