دینی مدارس اور عصری جامعات کے طلبہ کا مسئلہ ؟

آپ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کریں یا باربر شاپ پر بال ترشوانے جائیں ۔ کسی یونی ورسٹی کے ہٹ پر بیٹھیں یا کسی مدرسے میں داخل ہو جائیں ۔ آپ کو یہ جان کر ایک خوشگوار حیرت ہوگی کہ ہمارے نوجوان رومان کی عمر میں ملکی مسائل پر گفت گو کر رہے ہیں ۔ (اگر چہ میرا انہیں مشورہ ہے کہ وہ ضرور ملکی حالات پر بحث مباحثہ کریں تاہم زندگی کے اس اہم موڑ پر خیالات سے دل لگا نے کے ساتھ ساتھ کر رومان پروری سے فرار اختیار نہ کریں) ۔

میں نے کئی بار دیکھا اور سنا کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں دیر تک بیٹھے ملکی مسائل پر لمبی بحثیں کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کے مواد بھی بڑا جاندار ہوتا ہے ۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے ان کے پاس بے بہا معلومات بھی ہیں ۔ خیالات بڑے عمدہ اور انقلابی قسم کے ہوتے ہیں ۔( نوجوانوں کے ساتھ انقلابی خیالات اچھے بھی لگتے ہیں اور مجھے ان کا آستینیں چڑھا کر بھر پور تاثرات کے ساتھ گفت گو کر نا بھی بہت اچھا لگتا ہے) ۔

اس سے بڑھ کر کسی قوم کی خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی نئی نسل اپنے ملک اور قوم کے بارے میں اس حد تک باخبر اور سنجیدہ ہے ۔ آپ کو ترقی یافتہ ممالک کے نوجوان بھی شاید اس حد تک حالات اور واقعات سے باخبر نہ ملیں جتنے برصغیر میں ملتے ہیں ۔

نئی نسل کے پاس اپنی رائے کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا سمیت کئی اہم فورم موجود ہیں جہاں وہ اپنا مافی الضمیر بیان کر سکتے ہیں ۔ وہ کسی واقعے یا حادثے پر فوری رد عمل دیتے ہیں ۔ ان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اس کے ذریعے مین سٹریم میڈیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔ وہ بلاگ لکھتے ہیں اور نئے خیالات کی آمد کے ساتھ ساتھ اس میں رد و قبول کر کے ترمیم بھی کر تے رہتے ہیں ۔

ابھی حال ہی میں بھارت کی جواہر لال یونی ورسٹی کے طبہ نے اپنے مسائل کے حل کے لیے بھرپور جدوجہد کر کے عالمی توجہ حاصل کی ، میڈیا نے جب انہیں کوریج نہیں دی تو انہوں نے سوشل میڈیا کا زبردست استعمال کیا اور اپنا ہدف مقرر کر بھرپور نتائج حاصل کئے ۔

یہ ساری باتیں اتنی خوش آئند ہیں جنہیں دیکھ کراس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان ایک پڑھی لکھی ، باشعور اور شانستہ نسل کے ہاتھوں میں جا رہا ہے ۔ یہ احساس مستقبل سے مایوس ہوکر ملک چھوڑنے والوں کے قدم جکڑ لیتا ہے اور فیصلے تبدل کروا دیتا ہے ۔ یہ نوجوان اپنے ملک کی امید اور روشن مستقبل ہیں ۔

تاہم میں اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ اپنی ایک پریشانی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔ میں آپ کی گفت گو بڑی توجہ سے سنتا ہوں ۔ خود بھی رفاہ یونی ورسٹی راولپنڈی میں ایم ایس میڈیا اسٹڈیز کا طالب علم ہوں ۔ اسلام آباد سے راولپنڈی جاتے ہوئے مجھے تقریبا پون گھنٹہ میٹرو پر سفر کرنا پڑتا ہے ، اس دوران مجھے آپ کے خیالات سننے کا موقع ملتا ہے ۔ اسی طرح یونی ورسٹی میں اور پھر سوشل میڈیا پر بھی آپ کے خیالات کو پڑھتا رہتا ہوں۔

میں نے جو چیز محسوس کی ، وہ یہ ہے کہ آپ کے پاس ٹیلی ویژن پر چلنے والے ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر چلنے والی بے شمار خبروں کی وجہ سے انفارمیشن بہت زیادہ ہے، یہ ایک اچھی چیز ہے تاہم انفارمیشن اتنی تیزی سے آرہی ہوتی ہے کہ آپ کو اس پر غور کرنے اور سمجھنے کا موقع کم ملتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے میڈیا پر سماج سے متعلق گفت گو کرنے والے افراد کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جو ان موضوعات پر بہتر انداز میں رہ نمائی کر سکیں ۔ میڈیا اپنی ترجیحات سماج کے بجائے کمرشل ازم کی بنیاد پر طے کرتا ہے ۔

میں دیکھتا ہوں کہ آپ بیٹھے ایک جگہ گفت گو کر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک آپ کے سمارٹ فون پر فیس بک کا نیا اسٹیس یا نئی ٹویٹ آ جاتی ہے ۔ آپ پچھلا موضوع چھوڑ کر نئی بحث چھیڑ دیتے ہیں ۔ ہم آدھی بات کرت ہیں اور آدھی چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں وہ بات مکمل طور سمجھ ہی نہیں آتی ۔ وہ جون ایلیا نے کیا خوب کہا تھا کہ ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی جب پوری بات نہ کی جائے یا پوری بات نہ سمجھی جائے تو اس کے نتیجے میں ذہنی انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ یہ ذہنی انتشار کبھی بھی نتیجہ خیز مباحثے یا مکالمے کو فروغ نہیں دے سکتا ۔ انفارمیشن کے ساتھ ریفارمیشن بھی ضروری ہے ۔ جس طرح مزید کھانے کے لیے پہلا کھانا ہضم کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ معدے پر بوجھ ڈالتا ہے ۔

یہ دور ایک دوسرے سے سیکھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا دور ہے ، تاہم ایک دوسرے سے سیکھا اور سمجھا اسی وقت جا سکتا ہے جب ہم اس کام کے لیے معیاری وقت نکال سکیں ۔

اس دوران آپ اپنے کسی اچھے دوست کے ساتھ واک بھی کر سکتے ہیں اور طے شدہ موضوع پر ایک اچھی بحث بھی کر سکتے ہیں ۔ اس بحث کے اہم نکات آپ واپس آکر سوشل میڈیا پر شئیر بھی کر سکتے ہیں ۔ اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو اس عمل سے وسیع مکالمے کا ماحول بنے گا ۔ لوگ آپ کی رائے پر تبصرہ کریں گے ۔ اس بات کا امکان ہے کہ ان کی تبصرے میں تنقید ہوگی ، احتجاج ہوگا ، تعریف ہو گی یا کوئی تجویز ہو گی ۔ آپ نے سوچ لینا ہے کہ آپ نے ہر چیز کو خوش آمدید کہنا ہے ۔ مزید سوالات اور جوابات آپ کو حقائق کی کھوج کی طرف لے جائیں گے ، اس سے آپ کی سوچ ، فکر اور رائے میں مسلسل تطہیر ہوتی رہے گی ۔

یہ رائے جلد ہی ایک پختہ اور منظم رائے کی شکل اختیار کر جائے گی کیونکہ اس رائے کے پیچھے کئی دماغوں کی سوچ شامل ہو گی ۔ یہ اس ملک میں مکالمے کے کلچر کے فروغ کے لئے آپ کی ایک اہم کاوش ہو گی ۔ آپ خود بھی ذہنی انتشار سے نکل سکیں گے اور اپنے ہمعصر نوجوانوں کو باہر نکلنے کا عملی راستہ بھی بتا دیں گے ۔ یہ عملی راستہ سوچ کو خود کش بنانے کے بجائے پڑھنے ، لکھنے ، جدوجہد کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھ کر جاننے کا راستہ ہوگا ۔ یہ راستہ آپ کو ایک احساس دے گا ۔ ایک ایسا خوبصورت احساس جیسے جھیل کے کنارے سبزے پر بیٹھ کر جھیل میں کنکر پھینکنے سے دائرے بنتے ہیں ۔ آپ کی سوچ کے دائرے وسیع ہوتے جائیں گے اور ذہنی انتشار کنکر کی طرح جھیل میں کہیں ڈوپ جائے گا۔

بشکریہ: تجزیات آن لائن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے