اعتراف کرتا ہوں کہ سائلین کو فوری اورسستا انصاف نہیں مل رہا، چیف جسٹس

390331-Justicejawadskhuwaja-1441787378-309-640x480

اپنے اعزاز میں دیئے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ کمزور نظام کے نتیجے میں احتساب کی روایت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے جب کہ بعض وکلاء کے منفی کردار کا منہ بولتا ثبوت روز افزوں ہڑتالوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدل کسی منصب، پیسے اورنوکری کا نام نہیں بلکہ یہ ایک خدائی صفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے عدل اور انصاف کے ایوانوں میں دھونس، دباؤ اور اثرورسوخ والوں کی ناراضگی جیسے خوف کے کئی روپ دیکھے ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بہت سے مقدمات 3، 3 نسلوں تک چلے تھے، ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک کیس دائر ہونے سے فیصلہ ہونے تک اوسطاً 25 سال لگ جاتے ہیں، بدقسمتی سے اعتراف کرنے پرمجبور ہوں کہ سائلین کو فوری اورسستا انصاف نہیں مل رہا، ایسا نظام جو فوری اور سستا انصاف مہیا نہ کرسکے اسکو بدلنا حکومت، ججوں سمیت ہر شخص کی ذمہ دار ی ہے۔

دوسری جانب نامزد چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، بطور جج چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی سوچ و فکر اور تجربے کو قانون کی حکمرانی کی ترویج کے لئے استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کو ایک عظیم قانون دان اور قانون و انصاف کے محافظ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

جسٹس ظہیر انور ظہیر جمالی نے کہا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے فیصلوں سے جمہوری روایات اور انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق شعور اجاگر کیا، فیصلہ متفقہ ہو یا اختلافی جج اپنا نکتہ نظر بتانے سے نہیں ہچکچاتا اور چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے فیصلوں سے ثابت کیا کہ انہوں نے تمام دباؤ سے بالاتر ہو کر اپنا نکتہ نظر بیان کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے