کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو

یہ بات ہمیں گھر سے درس گاہ تک متواتر ازبر کرائی جاتی ہے کہ ہر معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت پہلو۔ ہمیں منفی سے زیادہ مثبت پہلو کو دیکھنا اور اجاگر کرنا چاہیے۔

جیسے گلاس پانی سے آدھا بھرا ہوا ہے اور آدھا خالی ہے تو ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ گلاس آدھا خالی ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔ اس طرح سوچنے سے انسان میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور مایوسی قریب نہیں پھٹکتی۔

مثلاً ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں سے آدھا وقت ملک پر براہِ راست عسکری حکمرانی رہی بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں آدھا وقت سویلین بھی تو حکمران رہے اور آج بھی کم و بیش سویلین حکمرانی ہے۔

ہمیں یہ نہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ملک سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو آدھا رہ گیا بلکہ نئی نسل کو یہ بتانا چاہیے کہ ملک کا جو آدھا حصہ بچ گیا وہ پورا ہونے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔

کیا ہوا کہ چند سو یا چند ہزار لوگ غائب ہیں۔ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ بائیس کروڑ میں سے اکیس کروڑ ننانوے لاکھ پچھتر ہزار تو اپنی جگہ موجود ہیں۔

اس پر ہی کیوں نگاہ جاتی ہے کہ سکولوں میں آدھے بچے داخل نہیں ہیں۔ اس پر کیوں شکر ادا نہیں کرتے کہ پچاس فیصد بچے پڑھ تو رہے ہیں۔

یقیناً ہمارے ہاں صحت اور صاف پانی کی سہولتوں تک عام آدمی کی اتنی رسائی نہیں جتنی ہونی چاہیے مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ ہم اس معاملے میں بہت سے افریقی ممالک سے کتنے بہتر ہیں۔

جب بھی آپ کو لگے کہ پاکستان میں صحافت پابندیوں میں جکڑی ہوئی ہے اور سانس لینا مشکل ہے تو پھر چین، ایران، خلیجی ممالک، ترکی اور انڈیا کا تصور کر لیں۔ آپ کو فوراً لگنے لگے گا کہ ہمارے ہاں صحافت آج بھی کتنی آزاد ہے۔ شکر ہے کہ سوائے دو تین ٹی وی چینلز اور مٹھی بھر صحافیوں کے سب ہی کو گلاس آدھا بھرا ہوا نظر آ رہا ہے۔

بال کی کھال نکالنے والے کچھ صحافی دوست میڈیا پر پابندی کی تازہ ترین مثال یہ پیش کرتے ہیں کہ حساس اداروں اور عدلیہ پر تنقید کی حوصلہ شکنی اور ازقسم مریم نواز اور آصف زرداری کے انٹرویوز کے نشر کرنے پر پابندی تو کھینچ تان کے سمجھ میں آ سکتی ہے مگر اب تو آپ پاکستان کی سب سے بڑی تعمیری شخصیت ملک ریاض کا نام بھی نہیں لے سکتے۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی حساس یا غیر حساس سرکاری عہدہ بھی نہیں۔

کسی نے یہ بھی بتایا کہ تین روز پہلے ہی ایک اینکر عاصمہ شیرازی کے ٹاک شو میں مدعو ایک سابق گورنر نے ملک ریاض کہنا چاہا تو تکنیکی خرابی کے سبب ملک کی میم کے بعد آواز غائب ہو گئی اور ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوا۔

ایسے بودے اعتراضات وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اثاثوں اور سٹرٹیجک اثاثوں میں بنیادی فرق نہیں معلوم۔ جس شخص کو عدلیہ، احتسابی حکومت، نیب، سرکردہ قومی سیاسی جماعتوں اور ننانوے فیصد میڈیا مالکان کی جانب سے کلین چٹ ملی ہوئی ہے کم از کم اس کا پیچھا تو چھوڑ دیں۔

آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر ملک ریاض صاحب کے اثاثوں کی منی ٹریل ثابت نہ ہوتی، اگر وہ ملک کو معاشی نقصان پہنچا رہے ہوتے، اگر انہیں بیرونی قوتوں کا آشیر واد ہوتا اور اگر وہ قانون کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے کاروبار کر رہے ہوتے تو کیا عمران خان خاموش رہتے؟ کچھ تو عقل کو ہاتھ ماریں۔

حسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو

کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے