پل دو پل کے عیش کی خاطر…

خبر دینے والوں کو اکثر یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ایک خبر بن سکتے ہیں۔ کوئی خوف کے مارے خبر روک لیتا ہے، کوئی خبر نہیں روکتا اور پھر خود بھی خبر بن جاتا ہے۔ عزیز میمن بھی ایک ایسا ہی صحافی تھا جس کو پتا تھا کہ اُس کی خبریں طاقتور لوگوں کو ناراض کر رہی ہیں۔

یہ طاقتور لوگ بڑے بزدل ہوتے ہیں۔ صحافیوں پر سامنے سے حملہ نہیں کرتے۔ کبھی نامعلوم بن کر پیچھے سے وار کرتے ہیں اور کبھی دوست بن کر دھوکا دیتے ہیں۔ ایسے بزدل اور کمینے دشمنوں کے بارے میں فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا؎

نہ خاک پہ کوئی دھبہ، نہ بام پہ کوئی داغ

کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

عزیز میمن کو قتل کرکے اُس کی لاش محراب پور کی ایک نہر میں پھینک دی گئی۔ اُن کی گردن کے گرد اُن کے ٹی وی چینل کا مائیک اور تار لپیٹی گئی لیکن اُن کی موت گردن دبانے سے نہیں بلکہ زہریلا انجکشن لگانے سے ہوئی۔

عزیز میمن محراب پور پریس کلب کے صدر بھی تھے اور پچھلے سال پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کے ٹرین مارچ کے دوران اُنہوں نے کچھ عورتوں سے بات کی جو محراب پور ریلوے اسٹیشن پر بلاول کے استقبال کیلئے موجود تھیں۔

ان عورتوں نے عزیز میمن کو سندھی میں بتایا کہ پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما انہیں دو ہزار روپے کا لالچ دے کر یہاں لائے لیکن اُنہیں صرف دو سو روپے دیے گئے۔ عزیز میمن نے ان عورتوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ اپنے چینل کو فراہم کی لیکن چینل نے یہ گفتگو نشر نہیں کی۔

اس دوران عزیز میمن نے اس گفتگو کی وڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ پیپلز پارٹی والوں نے اس وڈیو کو ایک سازش قرار دے دیا اور عزیز میمن کو دھمکیاں ملنے لگیں لہٰذا اُنہوں نے ایک وڈیو بیان میں ایک مقامی پولیس افسر اور پیپلز پارٹی کے مقامی لیڈروں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کا ذکر کیا اور بلاول بھٹو زرداری سے مدد کی اپیل کی۔ اس وڈیو کی وجہ سے اُن پر دبائو کچھ عرصہ کے لئے کم ہو گیا لیکن 17؍فروری کو اُنہیں بڑے ظالمانہ طریقے سے ایک دہشت ناک خبر بنا دیا گیا اور اُن کے گلے میں چینل کا مائیک اور تار لپیٹ کر پیغام دیا گیا کہ جو بھی ہمارے بارے میں خبر دے گا ہم اُسے خبر بنا دیں گے۔

عزیز میمن کے قتل پر تحریک انصاف کے وفاقی وزرا اور پیپلز پارٹی کے صوبائی وزرا کے بیانات ثابت کر رہے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان آج کل میڈیا کو مافیا قرار دینے سے گریز نہیں کرتے لیکن اُن کے وزرا کو اچانک آزادیٔ صحافت یاد آ گئی ہے اور وہ عزیز میمن کے قتل کی آڑ میں پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں۔

کوئی جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ پچھلے بیس سال میں ڈیڑھ سو سے زیادہ صحافی قتل ہو چکے ہیں، کسی صحافی کے قاتل کی سزا پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ عدالتی کمیشن تو حیات اللہ خان کے قتل پر بھی بنا تھا۔

اس عدالتی کمیشن کو بیان دینے پر اُن کی اہلیہ کو بھی قتل کر دیا گیا لیکن شمالی وزیرستان کے اس بہادر صحافی کے قتل کی تحقیقات کے لئے بننے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی۔ عدالتی کمیشن سلیم شہزاد کے قتل پر بھی بنا لیکن قاتلوں کی نشاندہی نہ کر سکا۔

جے آئی ٹی تو ولی خاں بابر کے قتل پر بھی بنی کچھ ملزم بھی گرفتار ہوئے لیکن پھر تمام گواہ قتل کر دیے گئے۔ پاکستان میں صحافیوں کے قتل کی کہانیاں بہت خوفناک ہیں۔ حیات اللہ خان اور موسیٰ خان خیل کو اپنے قتل سے پہلے پتا تھا کہ وہ خبر بننے والے ہیں۔

وہ چاہتے تو مصلحت کی چادر اوڑھ سکتے تھے لیکن اُنہوں نے موت کو گلے لگا کر کفن اوڑھ لیا۔ 2014میں لاڑکانہ کے صحافی شان ڈاہر کو جعلی ادویات اسپتالوں کو فراہم کرنے والوں کے خلاف خبر دینے پر گولیاں ماری گئیں۔ شان ڈاہر نے مرنے سے قبل دو افراد کو اپنا قاتل قرار دیا، دونوں کو سزا نہ ملی۔

ایک اور بہادر صحافی ارشاد مستوئی کو کوئٹہ میں اُن کے دفتر میں گھس کر شہید کر دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد ایک کالعدم تنظیم کے دو ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

ان ٹارگٹ کلرز نے ارشاد مستوئی کے علاوہ بی این پی مینگل کے رہنما حبیب جالب بلوچ کو قتل کرنے کا اعتراف کیا اور بتایا کہ وہ ماما قدیر کو بھی قتل کرنا چاہتے تھے۔ کچھ دنوں بعد ان دونوں ٹارگٹ کلرز کو مستونگ میں ایک پُراسرار مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا اور ارشاد مستوئی کے قتل کی فائل بند ہو گئی۔

2017میں ہری پور کے ایک صحافی بخش الٰہی کو قتل کر دیا گیا۔ خیبر پختونخوا پولیس نے اُن کے قتل کے الزام میں تحریک انصاف کی ایک مقامی لیڈر کونسلر کو گرفتار کیا لیکن اُسے سزا نہیں ہوئی۔

2018میں سمبڑیال کے ایک صحافی کو بیگووالہ یونین کونسل کے چیئرمین عمران اسلم چیمہ نے قتل کی دھمکیاں دیں تو صحافی ذیشان اشرف بٹ نے فون پر پولیس کو اطلاع دی کہ اُنہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ابھی اُن کی فون کال ختم نہیں ہوئی تھی کہ اُنہیں گولیاں مار دی گئیں۔

قاتل کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔ وہ آج تک گرفتار نہ ہو سکا۔ کراچی کے ایک صحافی نصراللہ چوہدری کو گھر سے قابلِ اعتراض مواد برآمد ہونے پر پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی لیکن صحافیوں کے قاتلوں کے خلاف ٹرائل ہی مکمل نہیں ہوتا۔

پاکستان کی صحافی برادری کئی سال سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے جرنلسٹس پروٹیکشن بل کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) آزادیٔ صحافت کی حمایت تو کرتی ہیں لیکن دونوں جماعتوں نے صحافت کو سیڑھی بنا کر کچھ من پسند صحافیوں کو سرکاری نوکریاں دینے کے سوا کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔

تحریک انصاف کی حکومت نے جرنلسٹس پروٹیکشن بل کا ایک مسودہ تیار کر لیا ہے لیکن وزارتِ قانون اس مسودے میں سے کیڑے نکال رہی ہے۔

جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے ذریعہ کم از کم صحافیوں کے خلاف جرائم کے ذمہ داروں کو سزا دلوانے کے لئے ایک طریقہ کار وضع ہو جائے گا اور اگر موجودہ حکومت یہ بل منظور کرا لے تو اس کا کریڈٹ صرف ایک پارٹی کو نہیں تمام پارٹیوں کو ملے گا۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ زور زبردستی اور طاقت سے صحافیوں کو دبا لے گا تو وہ احمقوں کی جنت کا مکین ہے۔ ہاں ہم جانتے ہیں کہ خبر دینے والوں کو خبر بنانے کے زعم میں مبتلا لوگ بہت طاقتور ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر جعلی ناموں سے گالیاں دیتے اور نامعلوم افراد کے ذریعہ عزیز میمن کو قتل کرا دیتے ہیں لیکن عزیز میمن جیسے سر پھرے یہاں بہت ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے اور خبر بننے سے بھی نہیں ڈرتے بقول جالبؔ؎

پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا دبنا، کیا جھکنا

آخر سب کو ہے مر جانا، سچ ہی لکھتے جانا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے