پرائیویٹ جامعات بھی مسائل کا شکار ہیں؟

اشفاق احمد اپنی کتاب ’’زاویہ‘‘ کے اندر روم میں قیام کے دوران پیش آنے والا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہاں ان کا ٹریفک چالان ہوا اور انہیں بارہ آنے جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی گئی۔ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ جرمانہ ادا کرنے سے قاصر رہے تو انہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ جج نے مجھ سے پوچھا آپ کرتے کیا ہیں؟ میں نے بڑی شرمندگی سے سرجھکا کر جواب دیا کہ جی میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور سب کو کہا کہ ایک استاد عدالت میں موجود ہے یہ سن کر سب احترام میں اپنی کرسیوں سے کھڑے ہو گئے۔پھر جج نے انہیں یوں مخاطب کیا جیسے شرمندہ ہو۔ اسی شرمندگی میں جج نے کہا کہ ’’جناب آپ استاد ہیں، ہم جو آج جج، ڈاکٹر، انجینئر جو کچھ بھی بنے بیٹھے ہیں، وہ آپ اساتذہ ہی کی بدولت ممکن ہو پایا ہے، مجھے بہت افسوس ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر آپ کو چالان ادا کرنا ہوگا کیونکہ بہرحال آپ سے غلطی ہوئی ہے مگر میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔

یہ حقیقت ہے کہ مغرب میں استاد کے لئے بہت احترام پایا جاتا ہے، مجھے اشفاق صاحب کا واقعہ یوں یاد آیا ہے کہ ان دنوں پرائیویٹ جامعات کو حکومت سے کچھ شکوے شکایتیں ہیں، میری دلی خواہش تو ہے کہ ہماری سرکاری جامعات کی تعداد اور معیار میں اضافہ کیا جائے تاکہ والدین کو اپنے بچوں کے بہتر تعلیمی مستقبل کے حوالے سے ان جامعات کے بھاری اخراجات برداشت نہ کرنا پڑیں مگر اسے آپ بس مفروضہ ہی سمجھیں، خود مجھے بھی ان جامعات کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں لیکن تعلیم کے فروغ میں ان کے مثبت کردار سے انکار ممکن نہیں، میں نے چند روز بیشتر ان جامعات کی ایسوسی ایشن کا ایک اشتہار اخبارات میں دیکھا جس میں انہوں نے حکومت سے بہت سے ایسے مطالبات کئے تھے جن میں سے بیشتر سے مجھے اتفاق ہے، بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی شرح بہت پسماندہ ممالک سے بھی بہت کم ہے جبکہ یہ ادارے اس کمی کو بہرحال پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان اداروں سے لاکھوں طلبہ اور ہزاروں اساتذہ کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔

ظاہر ہے ان اساتذہ کو تو ہم وہ عزت نہیں دے سکتے جو اشفاق صاحب کو اٹلی کی ایک عدالت میں ملی تھی، تاہم ان اداروں کی جائز شکایات فوری طور پر دور کی جانا چاہئیں۔ پرائیویٹ جامعات کی تنظیم نے جو چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے اس میں کچھ مطالبات اور بھی ہیں مثلاً ہائر ایجوکیشن کو اولین ترجیح بنایا جائے، حکومتی سطح پر نجی شعبہ کو شراکت دار تصور کیا جائے تاکہ ایسا ماحول تشکیل دیا جا سکے جو تعلیم و تعلم میں بہتری کے لئے معاون ثابت ہو۔ خاص طور پر انرولمنٹ کی شرح میں بہتری کیلئے پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے لئے ہمیں مصنوعی ذہانت بائیو ٹیکنالوجی اینی میشن ڈیزائن جیسے شعبہ جات میں ترقی کرنا ہوگی۔ حکومتی سطح پر کسی ایک ڈیپارٹمنٹ کی منظوری میں چار سے پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے دیگر صوبوں اور پبلک سیکٹر کی طرح پنجاب میں بھی بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے طریقے کار کو اختیار کیا جائے۔ نجی شعبہ کو بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بعد ڈیپارٹمنٹ کھولنے کی اجازت دی جائے۔

اس وقت کسی بھی ڈیپارٹمنٹ کی منظوری کے لئے ایچ ای سی، پی ایچ ای سی پیٹرن فیڈرل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت 5مختلف محکمانہ منظوریاں ضروری ہیں۔ جگہ جگہ مسائل کھڑے کرنے کے بجائے ون ونڈو سسٹم کیا جائے۔ اس ضمن میں غیرمعمولی تاخیر کے عمل کو روکنے کے لئے کوئی احتسابی نظام بھی عمل میں لایا جائے۔ حکومت کی ریسرچ دشمن پالیسی کے باعث پاکستان میں ریسرچ کا معیار تیزی سے گر رہا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے اساتذہ کو دیے جانے والے ٹیکس ریٹ کو 40فیصد سے کم کرکے 25فیصد کرد یا گیا ہے۔ اسی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے تحقیق کے میدان میں دی جانے والی ٹریول اور ریسرچ گرانٹ کو بھی بند کیا جا چکا ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہےکہ ملک سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبہ سے وابستہ طالب علم اور اساتذہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ حکومت کو تشویشناک صورتحال پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ اساتذہ اور ریسرچرز کی گرانٹ بحال کی جائے۔ غریب کے بچے کو حق دیا جائے کہ وہ فیصلہ کرے اس نے سرکاری یا نجی ادارے میں سے کسے منتخب کرنا ہے۔

ایسے طالبعلم جہاں بھی تعلیم حاصل کریں ان کے لئے وہیں گرانٹ فراہم کر دی جائے، سرکاری سطح پر طلبہ کے اخراجات برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت نجی شعبہ میں علم حاصل کرنے والے غریب اسٹوڈنٹس کا بوجھ بھی برداشت کرے۔ کسی بھی نجی یونیورسٹی کے خلاف تادیبی کارروائی صرف چارٹر میں دیے گئے طریقہ کار کے تحت کی جا سکتی ہے۔ حکومت پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے موجودہ قانونی اختیارات جو ان کے چارٹر میں دیے گئے، پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ حکومت نے تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کے لئے کوئی بھی قانون بنانا ہے تو اس کے لئے پہلے اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کی جائے اور ان کو اعتماد میں لیا جائے۔ ریگولیٹنگ باڈیز مناسب میکانزم کے ذریعے اپنے آپ کو ضابطہ اور نگرانی کے لئے پابند بنائیں۔ یونیورسٹیوں کے مینڈیٹ میں کنٹرول اور مداخلت کے ایکٹ جسے گزٹ میں بیان کیا گیا ہے پارلیمنٹ کے ایکٹ کی حیثیت سے حوصلہ شکنی سے پرہیز کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مطالبات پر غور کرے اور ان میں سے جو حقیقت پسندانہ ہوں انہیں اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے فوراً پذیرائی بخشی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے