بنی نوع انسان کی توہین

اپنا آپ سنبھالا نہیں جاتا لیکن دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے مستقبل کی فکر نے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ گزشتہ کالم کا موضوع بھی یہی تھا کہ آج سے 100 سال بعد ہم کہاں ہوں گے اور کیسے ہوں گے؟ اس سے پہلے گزشتہ سے پیوستہ اتوار’’میرے مطابق‘‘ میں بھی یہ خاکسار’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘کا مرتکب ہوا۔ اس پروگرام میں عرض کیا کہ انسان نے دو ورلڈ وارز میں کروڑوں انسان مروانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد’’لیگ آف نیشنز‘‘ بنائی جو بیکار ثابت ہوئی جس کے بعد’’اقوام متحدہ‘‘ کا ڈول ڈالا گیا جو اب تک جیسے تیسے گھسٹ رہا ہے۔

تقریباً پون صدی کے بعد اب اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ’’اقوام متحدہ‘‘ کے کردار کو ری ڈی فائن اور ری وزٹ کیا جائے اور اس’’الماس بوبی‘‘ٹائپ ادارے کے دانت اور پنجے تیز اور مضبوط کئے جائیں وغیرہ وغیرہمیں یہ سوچ سوچ کر واقعی حیران اور پریشان ہوتا ہوں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹریلینز + ٹریلینز + ٹریلینز ڈالرز کا بھیانک جدید ترین اسلحہ بھی’’بیکار‘‘بیٹھے بیٹھے زنگ آلود ہوتا رہے اور حضرت انسان بھی کرہ ارض پر یونہی دندناتا پھرے۔ نہیں…..ہر گز نہیں، یہ انتہائی غیر منطقی بات ہے۔ کوئی ہٹلر کوئی نریندر پٹڑی سے اتر گیا تو سمجھو سب کچھ گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے ایٹم بم’’لٹل بوائے‘‘اور ’’فیٹ مین‘‘ تو کھلونے بھی نہیں تھے لیکن آج ؟؟؟

میں نے عرض کیا تھا کہ اس دنیا کو آج ’’گلوبل ویلیج‘‘ کہا جاتا ہے جسے میں نے ’’گلوبل سٹریٹ‘‘ کا نام دے رکھا ہے اور سوچتا یہ ہوں کہ اگر ایک گلی میں بے تحاشہ اسلحہ سے لدے پھندے دو خاندان آپس میں ٹکرا جائیں تو اس گلی کا کیا حشر ہو گا؟مختصراً یہ کہ مجھے مستقبل اگر روشن دکھائی دیتا ہے تو یہ روشنی ایٹمی ہتھیاروں سے جنم لینے والی روشنی ہو گی جس کے بعد میں کچھ بھی دیکھنے سے عاجز اور قاصر ہوں۔ دوسری طرف یہ احساس بھی پورے جوبن او رعروج پر تھا کہ ہم جیسے تو ملکوں کی کوئی نہیں سنتا کہ کہیں نریندر مودی کا جنون ہے تو کہیں ٹرمپ کی نام نہاد ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ تو ہم جیسے گھامڑوں کو گھاس کون ڈالے گا جبکہ ’’بالائی سطح‘‘ پر ہر طرف ’’برپشم قلندر‘‘ اور ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ جیسی کیفیت ہے لیکن سیکرٹری جنرل یو این گوتریس کی تشریف آوری پر ان کے بیانات سے اندازہ ہوا کہ بالائی سطح پر ابھی ’’زندگی‘‘ اور ’’ضمیر‘‘ دونوں موجود ہیں۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا یہ اعتراف بہت حوصلہ افزا اور امید کی کرن سے کہیں بڑھ کر ہے کہ……..

’’سلامتی کونسل کے صرف 5 ممالک کے پاس ویٹو پاور دینا میں نابرابری اور عدم مساوات کی ایک بڑی مثال ہے‘‘آپ نے درست کہا کہ…..’’اداروں کے درمیان مباحثہ ضروری ہے‘‘اور یہ بات تو حرف آخر کا سا درجہ رکھتی ہے کہ….’’مستقبل کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب میں تبدیلی کرنا ہو گی‘‘گوتریس صاحب کی سوچ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے کچھ اور بااثر لوگ بھی یقیناً انہی خطوط پر سوچ رہے ہوں گے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کا ہر باشعور اور ذمہ دار شخص اس سوچ کو بڑھاوا دینے میں اپنا حصہ ڈالے۔ ’’گلوبل ویلیج‘‘ کے ہر باسی کو جنونیوں اور مہم جووئوں سے اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس گلوبل ویلیج کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اگر اس محاذ پر ’’ایکٹو‘‘ ہو گئے تو دنیا کی کوئی سپر پاور یا نیم سپر پاور اسے نظر انداز نہیں کر سکے گی اور گوتریس جیسے انسان دوستوں اور منصف مزاج لوگوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے۔

اس سکول آف تھاٹ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ضروری ہے۔دوسری طرف یہ جاننا بھی خاصا دلچسپ ہو گا کہ اگر گلوبل لیول پر اس قسم کی رائے سازی مہم چلتی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے کہ اگر سوشل میڈیا پر رطب و یا بس کا سیلاب جاری ہے تو چند لہریں لاجک اور انسان دوستی کی کیسے ماحول کو جنم دیتی ہیں؟ شروع میں گوتریس صاحب کا یہ ایک سوال ہی کافی ہو گا کہ ….’’کیا سلامتی کونسل کے صرف 5 ممالک کے پاس ویٹو پاور ہونا باقی ممالک بلکہ پورے بنی نوع انسان کی توہین نہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے