عمران خان ، سلیم صافی اور جاوید غامدی

کل رات محترم جاوید احمد غامدی صاحب "بدقسمتی” سے سلیم صافی کے پروگرام جرگہ میں مہمان تھے۔ موضوع تھا "عمران اور مدینے کی ریاست”۔ غامدی صاحب بڑےمعتدل، سُلجھے ہوئے عالمِ دین سمجھے جاتے ہیں۔ میں ان کا بڑا قدردان ہوں۔ دینی فکر میں کچھ جسارت کے ساتھ دورِ حاضر کی مناسبت سے وہ اپنا الگ نکتہء نظر رکھتے ہیں۔ جس میں بہت سی باتوں سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، مگر اُن کی ساری فکر مسترد کرنا علمی اور دینی بددیانتی ہوگی۔ اب تک میں نے اُنہیں جتنا پڑھا اور جتنا سُنا اُس کے مطابق میری یہ ادنٰی رائے ہے۔ آپ میں سے ہر کوئی اس معاملے میں مجھ سے اختلاف کرنے میں مکمل آزاد ہے۔

مگر کل کا پروگرام ۔۔ نجانے سلیم صافی کی صحبتِ بد کا اثر تھا یا کچھ اور۔۔ مجھے غامدی صاحب غامدی صاحب نہیں لگے۔ اُن کے معتدل اور سُلجھے ہوئے ہونے کی میری رائے میں بھی بال آگیا۔ کاش کہ وہ اس پروگرام میں ہی نہ آتے یا کاش میں یہ پروگرام نہ دیکھتا۔ میرے دل میں ان کا جو "مقدس امیج” تھا وہ باقی رہتا۔

علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
"ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی،
خراب کرگئی شاہیں بچّے کو صحبتِ زاغ”

سلیم صافی نے اُن کی بھی مٹی پلید کردی۔ یہ پروگرام بالکل اُسی طرح فکسڈ لگا کہ جیسا کہ ملک ریاض، مبشر لقمان اور مہر بخاری (مہر کاشف عباسی) کا مشہورِ زمانہ انٹرویو تھا۔ اس پروگرام میں صافی کے عمران سے بغض بھرے سوالات اور غامدی صاحب کے "پوپولر” جوابات ۔۔ سب کے سب پلانٹیڈ لگ رہے تھے۔ مجھے انتہائی حیرت ہوئ کہ غامدی صاحب جیسا صاحبِ علم بندہ صافی کے ہاتھوں استعمال ہوگیا۔
افسوس صد افسوس!

سلیم صافی تو خیر وہی کر رہا ہے جو اسے اس دور میں کرنا ہے مگر اگر غامدی صاحب کا کوئی چاہنے والا میری یہ بات اُن تک پہنچا دے کہ آپ نے اس پروگرام میں آکر اچھا نہیں کیا۔ آپ سیاست سے دور رہیں تو اُسی میں آپ کی عزت ہے۔ عمران مدینے کی ریاست کا ذکر کرکے کہاں نعوذباللہ نبوّت یا خلافت کا دعویدار ہے۔ وہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح ایک گناہگار بندہ ہے۔ ہمارا وہ کوئی مذہبی پیشوا نہیں ۔ ایک سیاسی لیڈر ہے۔ غلطیوں سے مبرا نہیں۔ بے عیب نہیں۔ تجربہ کار بھی نہیں۔ ہم نے اسے دو وجوہات کی بنیاد پر سپورٹ کیا۔

اول سیاست کے حاضر اسٹاک (نواز، شہباز، مریم، زرداری، بلاول، فضل الرحمان، الطاف حسین، اسفند یار ولی وغیرہ) میں یہ سب سے بہتر تھا۔
دوم باقی زیادہ تر آزمائے ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا اسے بھی آزما لیں۔

اب اگر وہ ڈلیور نہیں کرپایا تو پانچ سال بعد کچھ اور سوچیں گے لیکن فی الحال اس کی کامیابی کے لئے دعا کرتے رہیں گے کہ اللہ کریم اُس سے کوئی اچھا کام کروا دے۔ یہی مولانا طارق جمیل صاحب بھی چاہتے تھے۔ اسی لئے اُنہوں نے عمران کی حمایت کی۔ غامدی صاحب کو یہ لگتا ہے کہ عمران وہ سب کچھ نہیں کرپائے گا کہ جس کا اس نے دعوٰی کیا ہے تو ایسا سوچنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس کی نیّت پر شک کرنا کہ اس نے ضیاءالحق کی طرح مذہب کے نام کو استعمال کیا۔ یہ مناسب نہیں۔

مدینے کی ریاست یا خلافتِ راشدہ جیسی ریاست تو خود غامدی صاحب اگر مولانا فضل الرحمان، طاہرالقادری، الیاس قادری اور سراج الحق کو اپنے ساتھ ملا لیں بلکہ ساری دنیا کے مولوی ملالیں پھر بھی نہیں بناسکتے۔ چونکہ وہ ایک نبی اور اُن کے زیرِ تربیت مقدس ہستیوں کی بنائی ہوئی ریاست تھی۔ عمران اور اس کے خود غرض ساتھی کیا بیچتے ہیں اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کے آگے مگر اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں انصاف و عدل کے معاملے میں اُن کی طرف دیکھتا ہوں تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے۔ اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آئیڈیل کہتا ہے تو اُس میں کیا حرج ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ گوتم بدھ کو اپنا آئیڈیل کہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے