سابق اٹارنی جنرل کی طرف سے ججوں پر یہ الزام
“آپ سب ملے ہوئے ہیں”
کا معاملہ 18 فروری کی سماعت میں ایک
“اچھا”
سمجھے جانے والے جج نے یہ کہہ کر بظاہر نپٹا دیا تھا
“آپ اپنا الزام واپس لیں”
سابق اٹارنی جنرل نے الزام واپس لے لیا اور ایک جج نے میڈیا سے شائع نہ کرنے کی درخواست کی ۔
معاملہ اگلی سماعت پر پھر اچانک کھڑا ہو گیا ۔
کیا کہیں سے کسی جج کو کچھ کہا گیا تھا؟
یہ بہت معنی خیز بات ہے کہ ججوں نے جو معاملہ بظاہر 18 فروری کو ختم ہو گیا تھا اس پر سخت موقف اختیار کر لیا ۔آٹارنی جنرل کیلئے لکھے گئے حکم میں ابتدائی رسمی لفظ بھی ختم کر کے صرف انور منصور لکھا گیا ۔سابق اٹارنی جنرل کو تحریری معافی اور اگلی سماعت سے پہلے تحریری جواب دینے کا حکم جاری ہو گیا ۔
یہ دس رکنی بینچ کا کھلا پیغام تھا ۔بات یہاں ختم نہیں ہوئی ۔اٹارنی جنرل نے استعفی دیا اور جواز پاکستان بار کونسل کا مطالبہ تھا ۔
وفاقی وزیر قانون اچانک پالتو نجی چینلز پر نمودار ہوئے ۔سب کو خبر ہے فروغ نسیم کن کا نمائندہ ہے ۔نجی چینلز پر وزیرقانون بتاتے ہیں کہ انور منصور سے استعفی لیا گیا ہے انہوں نے دیا نہیں ۔
سابق اٹارنی جنرل نے ایک ملفوف دھمکی دے ڈالی ۔
“کس نے معلومات دیں بتاوں گا نہیں لیکن ضرورت پڑی تو شائد بتا دوں”
انور منصور نے یہ بھی کہا کہ
سب ملے ہوئے ہیں
کہ موقف سے وزیر قانون اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر واقف تھے اور یہ مشترکہ حکومتی موقف تھا ۔
اس کہانی میں نیا موڑ جسٹس قاضی فائز عیسی کی وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ہے اور شنوائی دس رکنی طاقتور بینچ نے کرنی ہے ۔
“اگر سب ملے ہوئے ہیں “
والی بات سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ سمجھنا چاہئے کہ عدلیہ طاقتوروں سے سینگ لڑانے جا رہی ہے ۔طاقتور اسٹیبلشمنٹ نااہل چنتخب اور معاشی تباہی کی وجہ سے تنگ یا بند گلی میں آن پھنسی ہے ۔ایک طرف افغانستان کی صورتحال ہے جسکی سنگینی کابل ٹی وی کی اس خبر سے واضح ہوتی ہے کہ آرمی چیف نے بگرام ائر بیس کا خفیہ دورہ کیا ہے ۔دوسری طرف آئی ایم ایف پروگرام کی قسط ملتی نظر نہیں آ رہی اور تیسرا پاکستان گرے لسٹ سے نہیں نکل سکا یعنی تلوار سر پر لٹک رہی ہے ۔
امریکی صدر ٹرمپ بھارت کا دورہ کر رہا ہے اور چند گھنٹوں کیلئے بھی پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں ۔معیشت بد سے بدتر ہو چلی ہے ۔پی ٹی ایم والوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔میاں نواز شریف پکڑائی نہیں دے رہے اور عدلیہ جان گئی ہے کہ اب طاقتور کمزور ہو رہے ہیں ۔
قاضی فائز عیسی کی توہین عدالت کی درخواست پر اگر دس رکنی بینچ نے کوئی فیصلہ کر دیا تو پھر چنتخب جائے گا اور بغیر کسی کی مرضی اور ڈیل سے جائے گا ۔
طاقتور ملبہ حکومت پر ڈال رہے ہیں اور قاضی فائز عیسی کیس میں خود کو غیر جانبدار ظاہر کرنے کی تگ و دو میں ہیں ۔
حکومت سے ایسٹ ریکوری یونٹ کی تشکیل اور جج کے غیر ملکی اثاثوں کی تحقیقات کیلئے غیر ملکی کمپنی کی خدمات لینے کا جواز پوچھا جائے گا اور کوئی آئینی و قانونی جواز موجود نہیں ۔کسی جج کے متعلق غیر قانونی تحقیقات کس طرح کی جا سکتی ہیں ۔
بظاہر لپیٹ میں صدر اور وزیراعظم آئیں گے کیونکہ توہین عدالت کی درخواست ان کے خلاف ہے اور شنوائی دس رکنی بینچ کرے گا ۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ معاملات پر گرفت پہلے کی طرح ہوتی تو قاضی فائز عیسی کا انجام اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس صدیقی جیسا ہوتا لیکن یہاں تو کھیل ہی بدلتا نظر آ رہا ہے ۔صرف اٹارنی جنرل نے استعفی نہیں دیا جنکی معاملات پر گرفت ڈھیلی ہو رہی ہے وہ خود کو کھیل سے الگ کرنے اور مدعا چنتخب حکومت پر ڈالنے کے چکر میں ہیں ۔
ناکامی کا کوئی باپ نہیں ہوتا ۔معاشی تباہی سب کے کس بل نکال دیتی ہے ۔بلاول بھٹو سے ڈیل بھی کامیابی نہیں دلا سکتی معاشی بحران سب اقدامات اور چالاکیوں کو ناکام بنا دے گا اور ناکام بنا رہا ہے ۔
حالات کا جبر پیچھے دھکیل دے گا اور پیچھے دھکیل رہا ہے ۔سیاستدانوں سے نئے سوشل کنٹریکٹ کا وقت بھی ختم ہو جائے گا اور حالات غیر مشروط پسپائی نہیں بلکہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیں گے ۔
ایسٹ ریکوری یونٹ کو ابتدائی معلومات ایک وحید ڈوگر نامی صحافی نے درخواست کے زریعے دیں ۔ وحید ڈوگر کی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا غیر ملکی نام ایک پنڈورہ باکس ہے ۔ایک پراکسی سمجھے جانے والے صحافی نے کس طرح سپریم کورٹ کے سٹنگ جج جس نے مستقبل میں چیف جسٹس بننا ہے کی اہلیہ کا غیر ملکی نام معلوم کیا ؟
ایف بی آر اور ایف آئی اے کی تحقیقات کے متعلق تو جواز دیا جا سکتا ہے صحافی بہت بڑا تھا اس نے معلومات حاصل کر لی ہونگی لیکن اہلیہ کے غیر ملکی نام اور چند دیگر معلومات کس طرح ملیں اس پر دس رکنی بینچ چل پڑا تو یہ نامعلوم بڑا صحافی لاپتہ ہو جائے گا ۔
ایسٹ ریکوری یونٹ نے کس اتھارٹی اور حکم پر تحقیقات کرائیں اس سے اہم بات یہ ہے کہ اس صحافی کو کس نے معلومات دیں جسکی درخواست پر ایسٹ ریکوری یونٹ نے جسٹس فائز عیسی کے متعلق تحقیقات شروع کر دیں ؟