بلاول بھٹو صاحب، موہن بھگت کے دیس کو نفرت کی آگ سے بچا لیں!

میں سمجھتا ہوں کہ دو قومی نظریے کے تحت ہونے والے بٹوارے میں نا صرف لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ لوگ قتل ہوئے۔ بلکہ اب بھی سرحد کے دونوں اطراف روزانہ کی بنیاد پر لوگ اس ظلم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ بدقسمتی یہ کہ ہم صرف یہاں تک نہیں رہے. ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ملک پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ آج تک کیسا رویہ روا رکھا گیا. میرا تعلق سندھ کی مٹی سے ہے اور میں سندھ کا ہی کیس لڑوں گا. وہ سرزمین کہ جہاں محبت کے راگ گائے جاتے تھے اب ان کی جگہ گستاخ اور ہندو عیسائی کافر جیسے نعروں نے لے لی ہے. میں بات کر رہا ہوں صوبہ سندھ کے جنوب میں واقع صحرائے تھر کی جہاں پہلے یہ صورتحال کبھی نہ تھی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو برادری جو صدیوں سے یہاں آباد تھی وہ دو قومی نظریے کے تحت نئے وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل نا دیکھ کر ہندوستان نقل مکانی کر گئے۔مگر حقیقت کا دوسرا رُخ یہ کہتا ہے کہ صحرائے تھر میں آج بھی ایک کثیر تعداد ہندوؤں کی بستی ہے. یہ وہ لوگ ہیں جو یا تو کسی مجبوری کے تحت نقل مکانی نہ کر سکے، یا پھر ان لوگوں نے اپنا مستقبل پاکستان سے ہی وابستہ کرلیا جہاں وہ رہے تو روشنیوں کا خواب دیکھتے ہوئے تھے، مگر کیا معلوم تھا کہ مستقبل اس قدر تاریک ہوگا؟

ملک پاکستان کو جہنم بنانے والے جنہوں نے باقی پورے ملک میں اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔اب تھر کے لوگوں کی زندگیوں میں نفرت کا زہر بھرنے پہنچ گئے ہیں۔ وہ نفرت جس کی آگ آج بھی اقلیتوں کے گھروں و عبادت گاہوں کو جلا رہی ہے۔وہ آگ جس نے ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے لوگوں کی زندگیاں جلا دیں۔وہ آگ جس میں پڑوسی پڑوسی سے نفرت کرنے لگے. اس آگ نے امن کے پرندوں کو بھی مار دیا ہے. کیونکہ اب موہن بگھت کے میٹھے سروں والے تھر میں وہ لوگ پہنچ گئے ہیں اور اپنے آنے کی خبر چھا چھرو تحصیل میں واقع موجود ہندو مندر میں توڑ پھوڑ کرکے دی ہے۔اب شائید رانا چندر سنگھ کا دیس تھر تھر نا رہے جہنم بن جائے.

جی ہاں جہاں لوگوں کو رانا چندر سنگھ پر اتنا یقین تھا کہ رانا کی موجودگی میں کوئیاس سرزمین پر میلی آنکھ سےنا دیکھ سکتا اور جہاں لوگ عید و دیوالی اکٹھے مناتے تھے مسلمان بھائی عید کی خوشیاں منانے کے لئے ہندؤوں کو اپنے گھر وں میں بلا تے اور اکٹھے کھاتے پیتے اور کہکے لگاتے تھے. جہاں دیوالی پر ہندو بھائی مسلمانوں کی دعوتیں کرتے تھے جہاں ہولی کے رنگوں میں ہندو مسلمان سب رنگ جاتے تھے . جہاں ہندو بھائی مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھتے تھے. سبھی انسان انسان دوست تھے، مذہبی رواداری تھی. لوگ موہن بگھت کے گیت سننے کے لیئے ہندوؤں کے مذہبی تہواروں کا انتظار کرتے تھے . مگر اب لگتا ہے کہ محبت اور امن کے وہ گیت سننے کے لیئے ہمارے کان ترسیں گے.

معلوم ہے ان کا طریقہ واردات کیا ہے؟ لیجیئے سنیئے. اس معاملے کی یہ کڑی ایک اہم مثال کے طور پر پیش کی جارہی ہے. آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کے ہاں خیرات کو لے کر کئی ٹرست کام کررہے ہوتے ہیں. یہاں تھر میں ایسے ہی خیراتی پراجیکٹس کے تحت لوگوں میں راشن بانٹا جاتا ہے تاکہ اعتماد حاصل کیاجائے، پھر انہی غریب خاندانوں کے بچوں کو مخصوص بیانیے والے اسکولوں میں داخل کرایا جاتا ہے. تحقیق موجود ہے کہ ان اسکولوں میں بچوں کو ایسا نصاب پڑھایا جاتا ہےجس کو پڑھنے کے نتیجے میں کسی خاص مذہب کی طرف راغب کرنے والے ذہن پیدا ہوتے ہیں. بات اپنے پڑوس میں موجود اقلیتی گھر کو اپنے مذہب میں آنے کی دعوت دینے سے شروع ہوتی ہے. پھر اقلیتوں کی عبادتگاہوں کو جلانے اور مذہب کے نام پر قتل کرنے کی نوبت آتی ہے.

اس خوف کی فضا میں لوگ مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں. لوگ یا قتل ہوجاتے ہیں یا مذہب تبدیل کرلیتے ہیں، یا کچھ تھر چھوڑ کر بھاگنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں. نفرت کی یہ آگ تھر کو کب جل تھل بنا ڈالے، بس کچھ ہی وقت کا انتظار باقی ہے. اس سے پہلے میری بلاول زرداری سے اپیل ہے، خدارا اس امن کی سرزمین کو جل کے راکھ ہونے سے بچا لیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے