ٹرمپ کا دورۂ بھارت

جس طرح وقت کی تقسیم ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں کی جا چکی ‘اسی طرح سٹرٹیجک سیاسی‘سماجی مطالعے اور تجزیئے کے عناصر کو بھی مائیکرو لیول پر جانچنے کے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ہر نظام کے تحت حکومتوں کے تعلقات کی بے شمار نوعیتیں ہوتی ہیں۔ان نوعیتوں‘جہتوں اور تہوں میں تقسیم اتنی زیادہ اورمائیکرو سطح پر ہو چکی کہ معلومات کی بنا ء پر سرسری غور وفکر یا تجزیوں سے ان کی حقیقت جاننا دشوار سے دشوار تک ہوتا جا رہا ہے۔

امریکی صدرٹرمپ کادورۂ بھارت بھی اسی تناظر میں عالمی و علاقائی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں شامل ہے۔دو روز قبل صدر ٹرمپ‘ بھارت کے پہلے سرکاری دورے پر پہنچے جہاں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ سب سے پہلے نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد پہنچے ‘جہاں انہوں نے سردار پٹیل کرکٹ سٹیڈیم میں بھارت کے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے اس دورے کے حوالے سے بہت پہلے ذرائع ابلاغ میں پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں۔ کہیں ٹرمپ کے دورۂ بھارت سے دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تجارتی اختلافات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں تو‘کہیں بھارت پر عالمی دباؤ بڑھانے کی باز گشت سنائی دیتی تھی‘ تاہم گزشتہ جمعہ کے روز دونوں ممالک کے مجوزہ مذاکرات کے ایجنڈے کے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کے بیان نے اچانک سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے کہاکہ ”میرے خیال سے صدر ٹرمپ جمہوریت اور مذہبی آزادی کے بارے میں ہماری مشترکہ روایت کے بارے میں نجی گفتگو اور عوامی طور پر بھی یقیناً بات کریں گے۔ وہ بطور خاص مذہبی آزادی جیسے امور کو اٹھائیں گے۔امید کرتا ہوں کہ اس معاملے پر بات ہو گی‘ کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔‘‘

ذہن نشین رہے کہ بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں ‘عیسائی یہاں تک کہ سکھ کمیونٹی کو بھی بنیادی حقوق حاصل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے دورے کے موقعے پر سکھ اقلیت خدشات کا شکار نظر آئی۔بھارتی حکومت پہلے ہی چھٹی سنگھ پورہ قتل ِ عام کے لیے مزاحمت کاروں کو موردِ الزام ٹھہراچکی ہے۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ مارے گئے تمام دہشت گرد غیر ملکی تھے‘ تاہم یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا کیونکہ مارے گئے تمام افراد مقامی تھے۔نا صرف انتہا پسند ہندوو ٔں کی کارروائیاں‘ بلکہ عام شہریوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرنے کے واقعات بھی عام ہیں۔

ماضی میں احتجاج کرنے والے ایک ہجوم پر اننت ناگ ہی کے براکہ پورہ علاقے میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی گئی فائرنگ میں شہری ہلاک ہو ئے تھے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا‘ جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے 2000ء میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے موقع پر مقبوضہ وادی کشمیر کے جنوبی ضلع اننت ناگ کے چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں بھارتی فوج کی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے سکھ اقلیت سے تعلق رکھنے والے 35 افراد کو گھروں سے زبردستی باہر نکال کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔دوسری بات مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز ماضی کی طرح مسلسل پیلٹ گنوں کا وحشیانہ استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں‘ جس سے اب تک سینکڑوں افراد زخمی ہوچکے ہیں‘ جبکہ بھارتی سکیورٹی فورسز کالے قوانین کے تحت حاصل بے پناہ اختیارات کے تحت انسانی حقوق سنگین پامالیاں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ سال جون میں فوجی عدالت نے 2010ء میں زاہد فاروق نامی 16سالہ لڑکے کے قتل میں ملوث بھارتی فوجی افسر کو بری کر دیاتھا۔امسال جولائی میں بھارتی سپریم کورٹ نے 1989ء میں 700کشمیری پنڈتوں کے قتل کے 215کیسوں کی ازسر نوتحقیقات سے بھی انکارکردیا تھا‘اسی ماہ ایک بھارتی فوجی عدالت نے مڑھل جعلی مقابلے میں تین افراد کے قتل میں ملوث فوجی اہلکاروں کی عمر قید کی سزا کو بھی معطل کر دیا تھا۔جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید ابن رعد حسین نے بھارت میں مسلمان تاجروں پر حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاکہ گائے اور مویشیوں وغیرہ کے تحفظ کا بہانہ بنا کر ہجوم کے ہاتھوں معصوم لوگوں کی ہلاکت کی نئی قاتلانہ لہر پر شدید تشویش ہے۔

صدر ٹرمپ کادورہ بھارت ایک ایسے وقت پر ہو ا، جب افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ اس ماہ کے آخر تک حقیقت کا روپ دھاررہا ہے۔ ایسے میں کیا صدر ٹرمپ بھارت سے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کروانے پر بات کریں گے یا نہیں؟کیا بھارت اس معاملے پر کسی بین الاقوامی دباؤ کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے گا؟ایسے کئی سوالات ہر ذی شعور کے اذہان میں زیر گردش کر رہے تھے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق، مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارت پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا ۔

انہوں نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر زور دیا‘اسی دوران ایک برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیبی ابراہمز کومقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے کی وجہ سے بھارت اترتے ہی ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ وہ ای ویزا پر بھارت آ ئی تھیں‘ لیکن انہیں ایئرپورٹ سے ہی دبئی بھیج دیا گیا۔ابراہمز جو کہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق کل جماعتی گروپ کی چیئرپرسن ہیں،مقبوضہ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے پر سخت اعتراضات اٹھاتی رہی ہیں۔حال ہی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسلام آباد میں مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے موقف کی حمایت کی، جس کا بھارت نے برا منایا۔ بھارتی وزارت ِخارجہ میں ترکی کے سفیر کو بلا کر اردوان کے بیان پر سخت اعتراض کیا گیا۔

ادھر مودی دہلی میں اپنی ہار نہیں بھولے،شاید یہی وجہ ہے کہ شکست کا بدلہ لینے کے لیے‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے موقع پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال اور نائب وزیر اعلیٰ کو مدعو نہیں کیا گیا۔ٹرمپ کی آمد سے قبل بھارت میں مسلم مخالف شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج اور ریلیاں بھی جاری رہیں۔ بھارتی شہر حیدرآباد کا ممتاز باغ، شاہین باغ بن چکا ہے۔ کالے قانون کے خلاف خواتین نے بھارتی پولیس کی رکاوٹوں کے باوجود ممتاز باغ میں دھرنا دے رکھا ہے۔ مذاکرات کے باوجود مظاہرین نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا اور مودی سرکار پر واضح کیا کہ کالے قانون کی واپسی تک احتجاج جاری رکھا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے