بازگشت

کہتے ہیں پہاڑوں اور کھنڈرات میں آوازیں ٹھہر جاتی ہیں اور پھر دیر سے ان کی بازگشت ہم تک پہنچتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ میں دوستوں کے ہمراہ ایک عرصے کے بعد ٹیکسلا کی قدیم ترین یونیورسٹی جولیاں کے کھنڈرات دیکھنے آیا تھا۔ ٹیکسلا، اسلام آباد اور راولپنڈی سے تقریباً 32 کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس کا قدیم نام تکشلا تھا۔ یہ پتھر تراشنے والوں کا شہر تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بھی اس علاقے کے گردونواح میں پتھر تراشنے کے کئی مراکز ہیں۔ کہتے ہیں‘ ٹیکسلا کی تہذیب کا آغاز قبل مسیح کے زمانے سے ہوا۔ اس کی دریافت کا سہرا معروف آرکیالوجسٹ سر جان مارشل کے سر ہے‘ جس نے ایک گمشدہ تہذیب کا سراغ لگایا اور انتہائی محنت سے وہ آثار دریافت کیے جن سے ٹیکسلا میں رہنے والے لوگوں کی معیشت، معاشرت اور ثقافت کا پتہ چلتا ہے۔

چھٹی کا دن تھا۔ سردیوں کی نرم دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ بس یونہی بیٹھے بیٹھے پروگرام بنا کہ ٹیکسلا کے قریب دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کے آثار دیکھنے چلیں۔ جولیاں کی یہ قدیم درسگاہ بدھ مذہب کے پیروکاروں نے بنائی تھی‘ جہاں مختلف ممالک سے طلبا آتے تھے۔ میں یہاں پہلے بھی کئی بار آیا ہوں لیکن اتنی بار آنے کے باوجود بھی اس کی کشش کم نہیں ہوتی۔ ہر بار ایک نیا طلسم مجھے اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ جولیاں کی یہ درسگاہ گائوں سے تقریباً سو میٹر بلند ٹیلے پر بنائی گئی تھی‘ جس تک پہنچنے کے لیے تقریباً دو سو سیڑھیاں ہیں جن پر چڑھتے ہوئے سانس پھولنے لگتی ہے۔ شاید اسی لیے نصف سیڑھیاں چڑھنے کے بعد بینچ رکھے ہیں جن پر کچھ دیر آرام کرکے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ میں بھی ایک بینچ پر بیٹھ گیا‘ پانی کی بوتل نکال کر چند گھونٹ لیے اور پھر دوستوں کے ہمراہ سیڑھیاں طے کرنے لگا۔ میں سوچنے لگا‘ میں یہاں پہلی بار کب آیا تھا؟ شاید آج سے پینتیس برس پہلے۔ اس وقت میرے ہمراہ جی اے الانا تھے۔

الانا صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی پہچان ایک ماہرِ لسانیات کی ہے۔ یہ سندھ کی زبان اور ثقافت کے معروف ادارے سندھالوجی کے چیئرمین اور سندھ لینگوئج اتھارٹی کے ڈائریکٹر رہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور بعد میں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ الانا صاحب جیسے متحرک، محنتی اور اپنے کام سے مخلص افراد ہمارے معاشرے میں اب خال خال ملتے ہیں۔ یہ ان دنوں کا تذکرہ ہے جب الانا صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ الانا صاحب کو زبان، کلچر اور ثقافت سے جنون کی حد تک لگائو تھا۔ اس وقت میں یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں بطورِ لیکچرر کام کر رہا تھا۔ الانا صاحب نے نجانے مجھ میں کیا دیکھا کہ جب بھی وہ کسی پرانی جگہ یا کسی تاریخی مقام پر جاتے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہتے۔ جولیاں سے میری پہلی شناسائی الانا صاحب کی بدولت ہوئی۔ یہ آج سے تقریباً پینتیس برس پہلے کا ذکر ہے مگر یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ان دنوں جولیاں کے بلند مقام پر جانے کے لیے اس طرح کی باقاعدہ سیڑھیاں نہیں تھیں۔ آج سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے اور جاتے جاتے چیزوں کی ترتیب بھی بدل جاتا ہے۔ آج ایک طویل عرصے کے بعد میں یہاں آیا ہوں۔

ہمارا گائیڈ ٹیکسلا کا رہنے والا ایک ادھیڑ عمر شخص ہے جس نے یہاں کے بارے میں معلومات ازبر کر رکھی ہیں اور ہر آنے والے کو یوں فر فر سناتا ہے‘ جیسے ٹیپ ریکارڈ کا بٹن آن کر دیا جائے۔ گائیڈ ہمیں بتا رہا تھا کہ جولیاں دنیا کی قدیم ترین بدھ یونیورسٹی تھی جس کی تعمیر تیسری صدی قبل مسیح میں ہوئی یہاں دور دور سے لوگ تعلیم اور اور گیان حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ یہاں ایک بڑا سٹوپا اور ستائیس چھوٹے سٹوپاز ہیں۔ ایک دائرے کی شکل میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔ دوسری منزل پر ایسے ہی کمرے ہیں جہا ں طلبا رہتے تھے۔ اوپر والی منزل پر جائیں تو ایک تالاب نظر آتا ہے جہاں کسی زمانے میں پانی ہوا کرتا تھا۔ ایک اسمبلی ہال جہاں کبھی اسمبلی ہوا کرتی تھی۔ کچن، سٹور، چکی اور کچن میں استعمال ہونے والے آلات۔ میں نے جولیاں کی درسگاہ کی چھت سے دیکھا‘ دور درختوں کے جھنڈ نظر آ رہے تھے اور ان درختوں کے درمیان ٹھہری ہوئی خاموشی تھی۔ ہم سب حیران تھے کہ دیواروں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے اتنے بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر کیسے لائے گئے۔

کیسے ان کو تراشا گیا اور کس طرح جیومیٹری کے اصولوں پر کمروں کی تعمیر کی گئی۔ گائیڈ بتا رہا تھا کہ یہ جگہ بلندی پر تھی۔ لوگ یہاں زندگی کے ہنگاموں سے دور سکون کی تلاش میں آتے تھے۔ یہ بدھ بھکشو تھے جنہوں نے دنیا کو تیاگ دیا تھا اور تنہائی کی آغوش میں شانتی کے متلاشی تھے۔ اس کے بعد گائیڈ کیا کہتا رہا‘ مجھے معلوم نہیں۔ میں سوچ رہا تھا‘ زندگی میں وہ کون سا لمحہ ہوتا ہے‘ جب انسان زندگی کے ہنگاموں سے پردہ کر لیتا ہے اور تنہائی کا متلاشی ہو جاتا ہے۔ آج جولیاں کی درسگاہ کی کھلی چھت پر ایک بڑے پتھر سے ٹیک لگائے مجھے وہ دن یاد آ گیا جب میں الانا صاحب کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ اتفاق سے اس دن کراچی کی ایک یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کا ایک گروپ بھی جولیاں کی اس قدیم یونیورسٹی کے کھنڈرات دیکھنے آیا ہوا تھا۔ یہ ایک مختصر سا گروپ تھا۔ تقریباً 10 بارہ لوگ ہوں گے۔ ان کے ہمراہ دو اساتذہ بھی تھے۔

گروپ کے لیڈر ادھیڑ عمر پروفیسر تھے۔ ان کے ہمراہ شعبے کی ایک لیکچرر ریحانہ تھی۔ طلبا و طالبات ادھر ادھر گھومنے لگے اور ان کے اساتذہ ہمارے ساتھ کھلی چھت پر آ بیٹھے۔ گروپ کے پروفیسر صاحب الانا صاحب کو جانتے تھے‘ اس لیے دونوں خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ میں انہیں محوِ گفتگو چھوڑ کر وہاں سے اٹھ آیا اور چھت کے کنارے جا کر دور تک پھیلے ہوئے پہاڑوں پر درختوں کو دیکھنے لگا۔ میں اسی منظر میں محو تھا کہ ایک آواز آئی ”کہیں آپ بھی جوگ لینے کا تو نہیں سوچ رہے؟‘‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ریحانہ تھی۔ میں نے کہا ”جوگ سوچ کر نہیں لیا جاتا۔ یہ تو ہم پر وارد ہوتا ہے۔ چپ چاپ، بیٹھے بٹھائے جب زندگی کا کوئی موڑ، حالات کی کوئی لہر ہمیں جوگ کے گیروے رنگ میں رنگ دیتی ہے‘‘ وہ بولی ”یہ تو فلسفے کی باتیں ہیں۔ خیر چھوڑیں۔ آپ نے نیچے بدھ کا وہ بُت دیکھا ہے جس پر ہاتھ رکھ کر جو منت مانگیں مل جاتی ہے‘‘ میں نے کہا ”اچھا ایسا ہے تو پھر تم نے کیا منت مانگی۔ وہ بولی: سچ مچ بتائوں‘ میں نے منت مانگی ہے‘ میری شادی ہو جائے اور میں کہیں دور چلی جائوں۔ ہم دونوں ہنس پڑے۔

اس بات کو کئی برس گزر گئے۔ میں ریحانہ سے ملاقات کو بھول گیا۔ اور پھر ایک دن اچانک مجھے اس کا خط یونیورسٹی کے پتے پر ملا جس میں اس نے بتایا تھا کہ اس کی شادی ہو گئی ہے اور وہ کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں سکاربرو کے علاقے میں چلی گئی ہے‘ جہاں اس کے خاوند کا ایک سپر سٹور ہے‘ لیکن شادی کے بعد جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس کا شادی کا فیصلہ غلط ہے۔ اب وہ خاوند سے الگ اپنے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے۔ ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں سیلز گرل کے طور پر کام کرتی ہے اور کسی سے نہیں ملتی۔ کبھی کبھی اس کا جی چاہتا ہے کہ جوگیوں کی طرح ویرانوں میں نکل جائے جہاں اس کے چاروں طرف تنہائی کا راج ہو۔ آج جولیاں کی درس گاہ کی کھلی چھت پر ایک بڑے پتھر سے ٹیک لگائے مجھے یوں لگا جیسے گیا وقت پھر سے لوٹ آیا ہو۔ جیسے پینتیس برس پہلے کا منظر پھر سے جاگ اٹھا ہو۔ میں نے دور پہاڑوں پر درختوں کو دیکھا ویسی ہی خاموشی تھی۔ مجھے ریحانہ سے گفتگو کی بازگشت سنائی دی ”جوگ سوچ کر نہیں لیا جاتا۔ یہ تو ہم پر وارد ہوتا ہے۔ چپ چاپ، بیٹھے بٹھائے جب زندگی کا کوئی موڑ، حالات کی کوئی لہر ہمیں جوگ کے گیروے رنگ میں رنگ دیتی ہے‘‘ کہتے ہیں پہاڑوں اور کھنڈرات میں آوازیں ٹھہر جاتی ہیں اور پھر دیر سے ان کی بازگشت ہم تک پہنچتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے