تصویر چمچہ گیری

وزیراعظم عمران خان یوٹیلیٹی سٹورز پر اپنی تصویریں آویزاں کئے جانے پر برہم اور وہ بھی اس قدر کہ انتظامیہ نے انہیں ہٹانے کیلئے ایک دن کی مہلت مانگی تو وہ بھی نہیں دی گئی۔ واقعی تصویری، تحریری اور تقریری چمچہ گیری ہمارے بےلگام، بےامان، بےسمت، بےراہرو اور بےامام معاشرہ میں بہت گہری سرایت کر چکی کہ جہاں میرٹ مر جائے وہاں ایسی لعنتیں ہی جنم لیا کرتی ہیں۔بندہ پوچھے وزیراعظم آٹا، دال، چینی، نمک، گھی اور گرم مصالحے بیچتا ہے جو جوشِ خوشامد میں پرچون کی دکانوں پر اس کی تصویریں لٹکا رہے ہو لیکن کیا کریں کہ اپنا کلچر ہی کچھ ایسا ہو چکا کہ ’’فنکاروں‘‘ نے تو ڈینگی مار مہم کے دوران پبلسٹی میٹریل پر نواز شہباز کی تصویریں بھی سجا دی تھیں جس کی قیمت ’’برادران‘‘ آج تک جگتیں کھا کھا کر چکا رہے ہیں۔اصل بات یہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تصویریں ہٹوا دیں، اصل کام یہ ہے کہ اسے ہٹوایا اور اٹھوایا جائے جس کے حکم پر یہ حرکت کی گئی، ایسا ممکن نہ ہو تو اس ’’طلائی چمچے‘‘ سے ان تصویروں کی لاگت ضرور وصولی جانی چاہئے۔

خدا جانے یہ زنگ زدہ ذہنیت آئی کہاں سے ہے کہ پچھلے دنوں بلاول بھی اس بات پر بلبلاتا پھر رہا تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈز سے اس کی والدہ مرحومہ بینظیر بھٹو کی تصویر کیوں غائب کردی گئی۔DNAکی ڈکٹیشن ہی ہو گی جو دنیا کی بہترین تعلیمی ادارے بھی اس زہریلی ذہنیت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ انسان میں تھوڑی سی گریس بھی ہو تو وہ اپنے ذاتی گھر کے باہر نیم پلیٹ لگانا بھی پسند نہیں کرتا لیکن یہ عجیب لوگ ہمیں جو اپنے تھوبڑے دیکھ دیکھ اکتاتے بھی نہیں اور لوگ انہیں سمجھاتے بتاتے بھی نہیں کہ حضور! بہت ہو گئی۔ اب ہتھ ہولا کر لو کہ اوور ایکسپوژر اکتاہٹ کو جنم دیتا ہے جو بتدریج شدید اکتاہٹ میں بدل جاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو صرف پاکستان نہیں، تقریباً پورے عالمِ اسلام میں یہ ’’مرض‘‘ بہت عام اور اپنی انتہا پر ہے۔ میں پہلی بار عراق گیا تو اکتاہٹ اپنے عروج پر تھی۔ جدھر دیکھو صدام حسین ہی صدام حسین، تصویروں سے لیکر مجسموں تک صدام کے پوز ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔

تنگ آکر میں نے اک دوست سے کہا کہ حکومت کا بس چلے تو غسل خانوں میں بھی صدام کی تصویریں، مجسمے سجا دے۔سچ مچ کے لیڈر بےنیاز ہوتے ہیں کہ ان کی نظر اس پر ہوتی ہے کہ دلوں پر نقش چھوڑ جائیں، تاریخ میں تکریم کے ساتھ محفوظ کر لئے جائیں۔’’گورپیا کوئی ہور‘‘وہ بھی زندہ ہیں جو جسمانی طور پر اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب کیمرے نہیں آئے تھے لیکن سینکڑوں ہزاروں برسوں بعد نسل در نسل وہ آج بھی آنکھوں، سانسوں اور دلوں کی دھڑکنوں میں زندہ ہیں لیکن سلسلے جب سفلوں تک پہنچتے ہیں تو یہی چمچہ گیری و سفلا گیری و سفلا پروری دیکھنے کو ملتی ہے۔کسی معاشرہ کی مسخ شدگی اور انحطاط ماپنے کے بہت سے پیمانے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی کہ وہ انسانوں کو اوتاروں اور دیوتائوں کا درجہ تو نہیں دے رہے۔

عام بالخصوص سیاسی قائدین کو مہذب دنیا میں ایک جیسے، ایک برابر لوگوں میں ’’پہلا‘‘ ہونے کا درجہ دیا جاتا ہے اور بس لیکن بیمار، خستہ، فرسودہ، ہارے، پھٹکارے ماحول میں بت پرستی سے بھی بدتر شخصیت پرستی کا کلچر ہی عام ہوتا ہے۔ عیاش، بدکردار، بیوقوف شہزادوں کو بھی یہ کہہ کر جگایا کرتے ہیں۔’’حضور! اٹھیئے سورج طلوع ہونے کی اجازت چاہتا ہے‘‘ایسوں پر سورج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہو جایا کرتے ہیں۔ویسے FLATTERYیعنی خوشامد ہے بہت ’’لذیذ‘‘چیز ورنہ JONATHAN SWIFTیہ کبھی نہ لکھتا……….”AN OLD MAXIM IN THE SCHOOLS THAT FLATTERY IS THE FOOD OF FOOLS, YET NOW AND THEN YOUR MEN OF WIT WILL CONDESCEND TO TAKE A BIT”جب خوشامدی اکٹھے ہوتے ہیں تو شیطان ہنستے مسکراتے ہوئے لمبی واک کیلئے نکل جاتا ہے کہ یہ لوگ میرا مشن مجھ سے بہتر انداز میں مکمل کریں گے اور خوشامدی جنم وہاں لیتے ہیں جہاں کی اشرافیہ بسیار خور ہونے کے ساتھ ساتھ خوشامد خور بھی ہو۔

میں یہ تکیہ کلام یونہی نہیں اٹھائے پھرتا کہ اس ملک کا اصل مسئلہ اقتصادیات نہیں اخلاقیات کی تباہی ہے۔ خوشامد غلیظ ترین ’’اخلاقیات‘‘ میں سرفہرست ہے کہ خوشامد کرنے والا اپنے مخاطب کو ہی نہیں، خود کو بھی فحش گالی سے نواز رہا ہوتا ہے اور نوبت وہاں جا پہنچتی ہے جہاں ’’پرچون‘‘ کی ماڈرن دکانوں پر بھی وزیراعظم تصویروں کی شکل میں چسپاں کر دیئے جاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے