’’اسے کہتے ہیں سہرا‘‘

بدھ کی شام پارلیمان کے پریس لائونج میں رکھے ایک صوفے میں دبک کر میں نے مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب کے طویل خطاب کو بہت توجہ سے سنا۔پچاس منٹ تک پھیلی ان کی تقریر کا موضوع افغانستان تھا۔طالبان کا امریکہ کے ساتھ 29فروری کے روز قطر کے شہر دوحہ میں ہوا معاہدہ اس موضوع پر خطاب کا باعث تھا۔ہمارے وزیر خارجہ کا رویہ اس ضمن میں کافی حیران کن تھا۔خود نمائی ان کے ’’مخدومانہ‘‘ مزاج کا کلیدی پہلو ہے۔اس سے مفر ممکن نہیں۔یہ حقیقت مگر وہ اکثر فراموش کردیتے ہیں کہ ان دنوں وہ پاکستان کے وزیر خارجہ بھی ہیں۔یہ عہدہ انہیں بہت سوچنے کے بعد محض تھوڑا بولنے کے لئے آمادہ کرنے کو کافی ہونا چاہیے۔عمران حکومت کے وزراء کو ’’پرچی‘‘ کے بغیر بولنے کی ضد لاحق ہوچکی ہے۔ وزیر خارجہ کو لیکن سوچ بچار کے بعد لکھی ہوئی تقریر کو ’’پالیسی بیان‘‘ کی صورت پڑھنا چاہیے تھا۔لکھی ہوئی تقریر کی اہمیت تو اب دُنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کے اتاولے صدر نے بھی دریافت کرلی ہے۔ وہ احمد آباد میں ہوئے ’’استقبالی جلسے‘‘ سے بھی پرامپٹر کو دیکھ کر اپنی تقریر کے لکھے ہوئے متن سے ایک لمحے کو بھی گریز کی جرأت نہیں دکھاپایا۔امریکی صدر کے مشیر زلمے خلیل زاد نے کئی مہینوں تک طالبان سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔وہ ایک بہت ہی کائیاں اور تجربہ کار سفارت ہے۔شکاگو کی ایک بہت ہی دھانسو تصور ہوتی یونیورسٹی کا ذہین ترین طالب علم رہا ہے۔

وہ بھی مگر 29فروری2020کے روز ہوئے معاہدے کی تفصیلات کو اس ’’فخراورمان‘‘ سے بیان کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں ہوگا جس کا اظہار مخدوم صاحب نے بدھ کے روز اپنی پچاس منٹ لمبی تقریر میں کیا۔بدھ کی رات سونے سے قبل ارادہ باندھا تھا کہ ان کی تقریر کی بدولت اُٹھے چند سوالات اور تفکرات کو اس کالم کے ذریعے بیان کروں گا۔صبح اُٹھتے ہی میرے فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی۔ایک صاحب جو فیس بک پر میرے ’’دوستوں‘‘ کی فہرست میں شامل نہیں اس کے میسنجروالی Appکے ذریعے مجھے گالیوں سے نواز رہے تھے۔موصوف کی صورت کافی ’’روحانی‘‘ تھی۔’’پابندِ صوم وصلوۃ‘‘ بھی نظر آئے۔ جمعرات کی صبح چھپے کالم نے مگر انہیں طیش دلادیا تھا۔ان کا اصرار تھا کہ مذکورہ کالم کے ذریعے میں نے ماروی سرمد کے ’’فاسد خیالات‘‘ کی حمایت کی ہے۔ماروی کے خیالات کو انہوں نے ایک مخصوص مسلک کا نمائندہ بھی قرار دیا۔ماروی سے میرا تعلق بہت پرانا ہے۔اس کا شوہر ہمارے لاہور کے بہت باوقار پروفیسر منظور صاحب کا فرزند ہے۔میرے چھوٹے بھائیوں جیسا ہے۔اس رشتے کی بنیاد پر مجھے یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دی جائے کہ ماروی کا تعلق ہرگز اس مسلک سے نہیں ہے جس کے ساتھ اسے جوڑا جارہا تھا۔

طیش میں آئے ’’راہِ حق‘‘ کے مسافروں کو مگر تحقیق کی عادت نہیں ہوتی۔ ماروی کے بیان کردہ ’’خیالات‘‘ کو بھلاکر ویسے بھی وہ مجھے اس کا وکیل ٹھہرا کر برابھلا کہنا شروع ہوگئے۔ان کی مغلظات اگرچہ لاہور کی گلیوں میں جوان ہوئے مجھ جیسے فرد کے لئے بہت ہی Softسنائی دیں۔ تھوڑی دیر کو البتہ جی مچل گیا کہ انہیں گالی دینا سکھائوں۔ ناصر کاظمی کا لیکن’’میں تو وہ نہیں رہا…‘‘ یاد آگیا۔ موصوف کو ٹھنڈے پانی کا گلاس پی کر اپنے فون سے بلاک کردیا۔دماغ مگر کافی دیر تک کھولتا رہا۔ننگے پائوں اپنے گھر کے بارش کی وجہ سے گیلے ہوئے لان میں چکر لگاکر خود کو ٹھنڈا کیا۔شاہ محمود قریشی کی تقریر کے حوالے سے جو نکات جمع کررکھے تھے وہ اس چکر میں ذہن سے محو ہوگئے۔کوئی اور موضوع بھی ذہن میں نمودار نہ ہوا۔قلم اٹھانے سے قبل ذرا غور کیا تو یاد آیا کہ میں نے ماروی سرمد کے خیالات کی ہرگز وکالت نہیںکی تھی۔بدھ کی صبح سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک وڈیو میرے فون پر بھی سیلاب کی صورت اختیار کرچکی تھی۔اسے دیکھ کر اصل توجہ ’’بدکلامی‘‘ پر مرکوز رکھنے کو مجبور ہوا جو میری دانست میں ریگولر اور سوشل میڈیا نے عرصہ ہوا اب روزمرہّ زندگی کا حصہ بنادی ہے۔’’بدکلامی‘‘ اب ہمیں ہرگز پریشان نہیں کرتی۔

ہماری اکثریت بلکہ اس سے لطف اندوز ہوتی ہے۔چسکہ فروشی باعث ندامت ہوتی تو ہمارے حق گواینکروں کی اکثریت راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر سے ریٹنگ کی ہوس میں ون آن ون انٹرویو کرنے کی علت میں مبتلا نہ ہوتی۔’’ستوپی کر سوجانا‘‘ ایک ایسا استعارہ ہے جو ’’غیر اخلاقی‘‘ گفتگو کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ موصوف نے اسے Mainstreamٹی وی کا روزمرہّ بنادیا۔بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے یہ صاحب ’’فنی خرابی‘‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں۔کئی بار جی چاہا کہ بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ کروں۔بہت کم لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ اپنے سکول کے زمانے میں پی پی پی کے جواں سال چیئرمین تھائی لینڈ سے ابھرے کراٹے جیسے کھیل کے ’’بلیک بیلٹ‘‘ والے چمپئن رہے ہیں۔غالباََ اس کھیل کو ’’تائی کوانڈو‘‘ کہا جاتا ہے۔جی مچلا کہ بلاول بھٹو زرداری کو قائل کروں کہ وہ بقراطِ عصر کو کسی اکھاڑے میں دوبدو ہونے کی دعوت دیں۔

یہ سوچنے کے فوری بعد مگر خود کو ملامت کرتاپایا گیا۔تمام عمر خود کو دھیمے مزاج والا ’’دانشور‘‘ ثابت کرنے میں مبتلا رہنے کے بعد ایسے خیالات کا میرے ذہن میں آنا قابل مذمت سمجھا۔اپنے سے شرمسار محسوس کیا۔جمعرات کے روز چھپے کالم میں جو بدھ کی صبح لکھا تھا میں نے بنیادی طورپر یہ اصرار کیا تھا کہ ایک ٹی وی ڈرامہ کی وجہ سے بے انتہا مشہور ہوئے لکھاری کی ماروی سرمد سے گفتگو ہرگز ’’بدکلامی‘‘ شمار نہیں ہوگی۔موصوف بلکہ اس کی وجہ سے ٹی وی ٹاک شوز کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے نہایت کارآمد شمار ہوں گے۔ بدھ کی رات سونے سے قبل اپنے فون پر نگاہ ڈالی تو بالآخر دریافت ہوا کہ مذکورہ لکھاری ایک نہیں کم از کم تین پرائم ٹائم شوز میں اپنی موجودگی سے رونق لگاتے پائے گئے۔ اس ضمن میں حسنِ اتفاق یہ بھی ہوا کہ ایک ٹاک شو میں موصوف کا ٹاکرا میرے بہت ہی چہیتے ڈاکٹر عامر لیاقت سے ہوگیا۔عامر لیاقت جن دنوں ریٹنگ کے حوالے سے ریکارڈ توڑ پروگرام کرتے ہوئے شہرت کی بلندیوں کو چھورہے تھے تو میں نے ایک کالم میں انہیں ’’بالم آن لائن‘‘ پکارا تھا۔عامر لیاقت کی وسیع القلبی ہے کہ اس کے باوجود جب بھی ملاقات ہوئی تو گرم جوشی سے گلے لگاتے رہے۔

ٹی وی ڈرامہ کے لکھاری کے روبرو آکر انہوں نے جس انداز میں حساب برابر کیا اس نے مجھے غالبؔ کا’’اسے کہتے ہیں سہرا‘‘ یاد دلادیا۔ مجھے گماں ہے کہ بدھ کے روز جو ٹاک شوز ہوئے ہیں۔ان میں ’’عامر لیاقت بمقابلہ…‘‘ والے شو نے بے پناہ ریٹنگ لی ہوگی۔میں نے دست بستہ عرضٗ کیا تھا کہ ماروی سرمد کے ساتھ مبینہ طورپر ’’بدکلامی‘‘ کرنے والے لکھاری کو بالآخر مداحین کی کثیر تعداد نصیب ہو جائے گی ۔ بدھ کی شام ان کے بیان کردہ خیالات کی حمایت میں پاکستان مسلم لیگ نون کے ’’خوش کلام‘‘ مشاہد اللہ خان اور عمران حکومت کے پارسا وزیر علی محمد خان باہمی اختلافات بھلاکر سینٹ میں کھڑے ہوکر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والوں کی سخت الفاظ میں کلاس لیتے رہے۔ مجھے یقین ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری ’’لبرل کلاس‘‘ کی جانب سے ’’بدکلام‘‘ ٹھہرائے لکھاری بتدریج دورِ حاضر کے اکبر آلہ آبادی کا درجہ حاصل کرلیں گے۔وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے تو ’’ہماری اقدار‘‘ کی محافظ کوئی سیاسی جماعت انہیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دے کر قومی اسمبلی بھی پہنچاسکتی ہے۔مشاہد اللہ خان کو چاہیے کہ انہیں ابھی سے اپنی مسلم لیگ کے لئے ’’بک‘‘ کرلیں۔

آپ سے عرض کیا تھا کہ ٹی وی ٹاک شوز میں مکالمہ نہیں مناظرہ ہوتا ہے۔ہمارے دلوں میں موجود تعصبات کی ترجمانی جو شخص ٹھوک بجاکر کرے وہ ہمارا’’ہیرو‘‘ بن جاتا ہے۔ایک مرد ہوتے ہوئے میں یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ پاکستانی مردوں کی اکثریت ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگانےوالوں کے بارے میں وہی محسوس کرتی ہے کہ جس کا اظہار حال ہی میں بے انتہامقبول ہوئے ڈرامہ کے لکھاری نے اس کلپ میں کیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے۔موصوف کی ’’بدکلامی‘‘ قابل مذمت ہوتی تو ہمارے سلیبرٹی اینکروں کی ایک کثیر تعداد بدھ کے روز ان کی اپنے ٹاک شوز میں شرکت کو یقینی بنانے کے لئے اتنی بے چین نہ ہوتی۔’’بقراطِ عصر‘‘ اب وزارت کی وجہ سے بہت زیادہ مصروف ہوچکے ہیں۔لال حویلی میں بیٹھ کر DSNGکے انتظار کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ان کی عدم دستیابی نے Ratingsکے حوالے سے ایک خلاء پیدا کردیا تھا۔اس خلاء کو پُرکرنے کو ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی بھداُڑانے اب ایک لکھاری نمودار ہوگیا ہے۔ٹی وی ٹاک شوز کے ’’بھاگ لگ‘‘ گئے ہیں۔ٹی وی سکرینوں پررونق لوٹ آئی ہے۔مخدوم شاہ محمود قریشی کے افغانستان جیسے اہم مسئلہ پر طویل خطاب پر غور کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے