منٹو سے مہارانی تک

بندہ امریکہ آئے اور شاہین صہبائی سے نہ ملے یہ ہو نہیں سکتا۔

شاہین صہبائی کے گھر کی بیسمنٹ میں داخل ہوں تو ان کے دفتر کی میز پر رکھے تین چار کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اور کہیں ہاتھ سے لکھے اردو کالمز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ صحافی کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا۔

میں اگر کسی کو جرنلزم میں اپنا mentor سمجھتا ہوں تو وہ شاہین صہبائی ہیں۔ میرے جرنلزم کیرئیر میں جن دو چار بڑے صحافیوں کا رول ہے ان میں شاہین صہبائی سرفہرست ہیں۔ضیاالدین ‘ ناصر ملک ‘ سلیم بخاری اور مظہر عارف کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔پاکستانی انگریزی جرنلزم میں بڑے ایڈیٹر پیدا ہوئے‘ ان میں احمد علی خان اور شاہین صہبائی بھی شامل تھے۔ احمد علی خان کیلئے دل سے آج تک دعا نکلتی ہے کہ کیسے ان کے ایک فیصلے نے میری قسمت بدل دی تھی‘ جب انہوں نے مجھے ملتان سے اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا تھا۔آج کی نسل شاہین صہبائی کو اس طرح نہیں جانتی ہوگی‘ اگرچہ وہ ٹوئٹرپر ایکٹو ہیں اور اپنا اردو کالم لکھتے ہیں۔ مجھے شاہین صہبائی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور مجھے کہنے دیں کہ ان جیسا ذہین‘ طاقتور اور نیوز سینس رکھنے والا ایڈیٹر کم ہوگا۔ ایڈیٹر کے طور پر میں نجم سیٹھی صاحب کی قابلیت کا بھی قائل ہوں۔ سیٹھی صاحب جیسی خبر شاید ہی کوئی ایڈٹ کرسکتا ہو اور جو سکینڈل شاہین صہبائی کے ہاتھ چڑھ جاتا ‘اسکے بعد وہ بندہ مشکل ہی بچ پاتا۔

جب جنرل مشرف نے مارشل لاء کے بعد یہ اعلان کیا کہ پاکستان میں عدلیہ اور میڈیا آزاد ہیں تو وہ اس وقت امریکہ میں ڈان کے لیے کام کررہے تھے۔ وہ اسلام آباد واپس آئے اور آنے سے پہلے ایک کالم لکھا کہ سنا ہے جنرل مشرف کے دور میں میڈیا آزاد ہے‘ سوچا چلیں پاکستان چل کر دیکھتے ہیں کتنا آزاد ہے۔انہوں نے لاہور میں نوابزادہ نصراللہ خان کی سربراہی میں بننے والے اے آر ڈی کی جو رپورٹنگ کی اس کے بعد مشرف کی بس ہوگئی اور مختلف انتقامی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ ڈان چھوڑ کر وہ دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر لگے تو انہوں نے راتوں رات اس اخبار کو وہاں پہنچا دیا جہاں یا جنرل مشرف رہ سکتے تھے یا شاہین صہبائی ۔ صاف ظاہر ہے جنرل مشرف نے رہنا تھا ‘لہٰذا شاہین صہبائی کو پاکستان چھوڑنا پڑا۔

شاہین صہبائی نے امریکہ میں South Asia Tribuneنکالا‘ جسے انویسٹی گیٹوجرنلزم کا پہلا ویب پیپر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پرویز مشرف پاکستانی میڈیا کا نہیں بلکہ اس ویب پیپر کا حوالہ اپنی تقریروں میں دیا کرتے تھے۔ پرویز مشرف کا اور بس نہ چلا تو پاکستان میں شاہین صہبائی پر واشنگ مشین چوری کا مقدمہ بنا کر ان کی مسز کے بہنوئی اور ایک بھتیجے کو کراچی سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں قید کر دیا تاکہ شاہین صہبائی کو مجبور کیا جائے کہ وہ پرویز مشرف دور کے سکینڈلز فائل نہ کریں۔ اللہ بھلا کرے ڈاکٹر ظفر الطاف اور وکیل ظفرعلی شاہ کا‘ جنہوں نے پرویز مشرف کی دشمنی کے باوجود اس مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔

شاہین صہبائی نے پچاس سال پاکستان میں صحافت کی‘ اور اس دوران درجن بھر حکومتیں بنتی ٹوٹتی دیکھیں۔ہر دور میں وہ حکومتوں اور حکمرانوں سے ٹکراتے رہے ‘لیکن اب انہیں عمران خان سے ہمدردی ہے۔ ان کا خیال ہے‘ عمران خان کے بعد پاکستان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں۔ ان کی مسز‘ افسانہ صاحبہ بھی عمران خان کی حامی ہیں اور مجھے انہوں نے خوب سنائیں کہ آپ لوگ کیوں عمران خان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔اس بات پر پی ٹی آئی کی میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیموں کو داد دینا بنتی ہے کہ انہوں نے بڑی کامیابی سے اچھے اچھے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ عمران خان پاکستان کیلئے آخری آپشن ہیں۔ یوں عمران خان ”آخری آپشن ‘‘ کے خوف کو استعمال کر کے بڑے آرام سے اپنی حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے میں کامیاب ہورہے ہیں ‘خصوصا ًامریکہ میں۔

خیر‘ شاہین صہبائی بڑے عرصے سے بیسمنٹ میں بیٹھے لکھتے پڑھتے رہتے ہیں۔ ان کی میز پر ایک پرانی جلد میں ایک پرانا مسودہ دیکھا ‘جو ہاتھ سے لکھا گیا تھا‘ پوچھنے پر بتانے لگے کہ یہ مسودہ ان کے والد قدوس صہبائی کی سرگزشت تھی جو انہوں نے 1965ء میں لکھنا شروع کی تھی۔ یہ مسودہ 1970 ء میں مکمل ہوگیا تھا۔ قدوس صہبائی خود پشاور میں بڑے صحافی اور افسانہ نگار تھے‘ ان کی وفات 1985ء میں ہوئی اور اُس وقت سے یہ مسودہ گم ہوگیا تھا۔ اب شاہین صہبائی کو کراچی میں بہن کے گھر سے اچانک ملا ۔ میں نے اس غیرمعمولی آپ بیتی کے کچھ صفحات پڑھنے شروع کیے تو خود کو اس میں گم پایا۔

ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کے پس منظر میں لکھی گئی اس اہم آپ بیتی نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ میں نے کہا: شاہین صاحب یہ تو اردو کی کلاسیک تحریر کا درجہ رکھتی ہے‘ اسے اب تک چھپوایا کیوں نہیں؟ بتانے لگے کہ چند برس پہلے اسی گھر میں عامر متین‘ انور عزیز چوہدری‘ ہما علی ‘ مسعود حیدر اور دیگر دوست اکٹھے ہوئے تھے اور اس وقت اس آپ بیتی پر اہم بحث ہوئی تھی۔ شاہین صہبائی نے ہاتھ سے لکھی اس آپ بیتی کے صفحات کو سکین کر کے پاکستان سے اردو میں ٹائپ کرایا تھا‘ لیکن اب تک وہ اسے کسی پبلشر سے چھپوا نہ سکے تھے۔ کہنے لگے کہ انہیں نہیں پتہ اب اس کو کیسے اور کہاں سے چھپوایا جائے۔میں نے حیران ہوکر کہا: اتنی سنسنی خیز اور رومانٹک آپ بیتی کو آپ پانچ سالوں میں اب تک نہیں چھپوا سکے؟اس دوران اس آپ بیتی کا ہاتھ سے لکھا گیا ابتدائیہ پڑھتے ہوئے میں چونک پڑا اور رک گیا۔شاہین صہبائی نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا: آپ نے یہ پڑھا ہے؟ بولے: کیا؟

میں نے کہا: اس ابتدائیے میں آپ کے والد قدوس صہبائی لکھتے ہیں کہ ان کے ہم عصر لکھاریوں میں اشتراکی ادیب باری صاحب اور افسانہ نگار منٹو بھی تھے۔ ان دونوں سے ان کی لاہور میں دوستی تھی۔ ایک دن انہوں نے اپنی آپ بیتی کے چند واقعات منٹو اور باری صاحب کو سنائے تو منٹو نے اصرار کیا کہ قدوس صاحب ‘آپ فوراً یہ پوری داستان لکھیں۔ یوں یہ تاریخی طور پر وہ آپ بیتی ہے جو منٹو کے اصرار پر لکھی گئی تھی۔ میں نے کہا: شاہین صاحب یہ تو بہت بڑی کہانی ہے‘ جسے منٹو جیسے بڑے ادیب نے سن کر کہا تھا کہ وہ اسے لکھیں۔ میں نے کہا: آپ کے والد نے چھتیس گڑھ کی مہارانی کے ساتھ غیرمعمولی رومانٹک کہانی کو لکھ تو لیا ‘لیکن وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی زندگی میں یہ کتاب چھپے۔ ویسے حیرانی ہے کہ ان کی وفات کے چالیس برس بعد بھی ابھی تک یہ نہیں چھپ سکی۔بولے: مجھے نہیں پتہ کہ یہ کیسے اور کہاں سے چھپے گی۔

میں ہنس پڑا اور کہا: ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہوں‘ آپ کے ساتھ دو راتیں آپ کے گھر گزاری ہیں اور آپ کے پاس پاکستانی حکمرانوں کی وہ سنسنی خیز کہانیاں ہیں کہ اگر چھپ جائیں تو ہنگامہ مچ جائے اور ساتھ ہی اپنے والد کی آپ بیتی کا مسودہ بھی‘ لیکن سب کچھ آپ دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا: آپ کو دیکھ کر وہ اژدھا یاد آتا ہے جو اس غار پر پہرہ دیتا تھا جو ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔میں نے کہا :یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنی خوبصورت نثر اور اتنی سنسنی خیز آپ بیتی‘ جو منٹو کے اصرار پر لکھی گئی ہووہ پاکستان میں نہیں چھپے گی؟

بہرحال ہندوستان کی ریاست چھتیس گڑھ کی مہارانی کی زوردار داستانِ عشق ‘ جو منٹو کے اصرار پر لکھی گئی تھی‘ کا مسودہ میرے بیگ میں ہے۔ ایک سو سال پہلے کے ہندوستانی معاشرے کے پس منظر میں لکھی گئی یہ آپ بیتی اردو ادب میں بڑا اضافہ ہوگی۔ ایک طلسمی کہانی جو سانسوں کی دھڑکن تیزکردے۔ اس کہانی نے زندہ رہنا تھا‘ لہٰذا برسوں تک گم رہنے کے بعد شاہین صہبائی کے ہاتھ لگی اور اب میرے ہاتھ لگ گئی ہے۔حیران ہوتا رہا کہ یہ غیرمعمولی مسودہ کن کن ہاتھوں سے ہوتا ہوا آخر میرے تک پہنچا ہے۔ ابھی میں نے پاکستان لوٹ کر اس 55سالہ پرانے مسودے پر کچھ کام کرنا ہے۔ پھر یہ اشاعت کیلئے تیار ہوگا ۔ کیا یہ مسودہ 55سال تک انتظار کرتا رہا کہ چھتیس گڑھ کی مہارانی کی ایک مسلمان لڑکے سے محبت کی سچی داستان میرے جیسے ایک اجنبی کے ہاتھ لگے اور اسے چھپوایا جائے؟ قدوس صہبائی نے بھلا کب سوچا ہوگا کہ 1934ء کے واقعات پر مشتمل 1965ء میں لکھی گئی یہ پراسرار آپ بیتی 2020ء میں چھپے گی اور ان کا منٹو سے کیا گیا برسوں پرانا وعدہ پورا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے