صحافی ہوش کے ناخن لیں ۔

وقت تبدیل ہو چکا ہے ۔ کل کمپیوٹر آنے سے تمام کاتب بے روزگار ہو گئے تھے اور پھر کاپی پیسٹر کی باری آئی تھی ۔ اب رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کی باری ہے ۔ جو اخبارات ابھی تک اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہیں ،انہیں بھی آئندہ مہینوں میں اپنی اشاعت بند کرنا ہے ۔ ملک کا سب سے بڑا میڈیا جنگ گروپ جس میں ہم نے اپنے کیریر کے 18 یا بیس سال رپورٹنگ کی وہ بھی بتدریج تباہی کے گھات اتر رہا ہے ۔ اخبارات چراغ سحری ہیں انہیں بند ہونا ہی ہے ۔

کبھی جنگ گروپ ہاتھی کا پاوں تھا ۔ صرف جنگ کی ایک دن کی اشاعت ایک لاکھ روزانہ سے زیادہ تھی اور کل جنگ راولپنڈی کے کل پانچ ہزار پرچے فروخت ہوئے ہیں ۔ بسوں کے آڈوں یا بھرے بازاروں میں بیٹھے اخبار فروشوں سے پوچھیں لوگ اب اخبار نہیں خریدتے ۔ اسلام آباد کے پشاور موڑ ،کراچی کمپنی یا صدر جیسے بارونق بازروں میں گزشتہ سال ہاکر سے اگر دو سو لوگ اخبار خریدتے تھے اب سارا دن بیٹھ کر بیس 25 اخبار فروخت ہوتے ہیں ۔

سوشل میڈیا نے روائتی میڈیا کی دنیا میں تباہی مچا دی ہے رہی سہی کسر معاشی بحران نے پوری کر دی ہے ۔ نہ الیکٹراونک میڈیا کے پاس پہلے کی طرح اشتہارات ہیں نہ پرنٹ میڈیا کے پاس موجود ہیں ۔حکومت نے الیکٹرانک میڈیا کے اشتہارات کا ریٹ کم کر دیا ہے جبکہ نجی شعبہ کے اشتہارات ویسے ہی 90 فیصد کم ہو گئے ہیں ۔

صحافی میڈیا مالکان کے داماد نہیں جو انہیں اپنی جیب سے تنخواہیں دیں ۔ انہیں پرانے زمانے کے غلام میسر ہیں جو چھ ماہ ،آٹھ ماہ ،دس ماہ اور ایک سال کی تنخواہوں کے بغیر اچھے دنوں کی امید میں کام کرتے ہی جا رہے ہیں

قلم کار ہیں ، باشعور ہیں جب تنخواہ نہیں تو لعنت بھیجیں اس فیلڈ پر کوئی اور کام تلاش کریں ۔ گزشتہ ماہ فصیح الرحمن سے پارلیمنٹ ہاوس میں ملاقات ہوئی تھی ایک میڈیا ہاوس میں اپنے چھ ماہ کی تنخواہوں کے واجبات اور نئی ملازمت کیلئے مضطرب تھا ۔اسے سمجایا تھا دفع کرو اس شعبہ کو کوئی اور کام کرو اس میں اب نہ نوکری ہے اور نہ پوٹینشل باقی بچا ہے ۔

جن لوگوں کو اس شعبہ سے عشق ہے اور جنون ہے وہ رہیں باقی چلے جائیں اور کوئی اور کام کریں ۔ جن کے گھر میں پیسے ہیں کہ تنخواہ کے بغیر گھر چل سکتا ہے وہ رہیں باقی کوئی اور کام کریں ۔ صحافت کا اتنا شوق ہے تو یوٹیوب چینل کھول لیں ،ان لائین اخبار شروع کر لیں ۔کیوں بے شرموں کی طرح بغیر تنخواہ کے غلیظ مالکان کے پاس کام کر رہے ہیں ۔

ایشین نیوز کے ارب پتی اور سنٹورس مال کے مالک نے اپنا اخبار ایشین نیوز مسلسل نقصان کے بعد بند کر دیا ہے ۔ نیوز روم میں صحافی گدھ لیڈر اظہار یکجہتی کیلئے پہنچے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر اظہار یکجہتی کی تصویریں جاری کی گئی ہیں۔ کھلا فراڈ ہے یہ صحافی لیڈر کیا ایشین نیوز کے مالک کے پاس گئے ؟

کیا اس ایڈیٹر کے پاس گئے جس نے مالک کو دھوکہ دیا کہ یہ اخبار بہت جلد جنگ گروپ کو بھی شکست دے دے گا ؟ کون اس ایڈیٹر سے پوچھے گا کہ تم نے پہلے کون سے تیر چلائے تھے جو مختلف میڈیا ہاوسز سے صحافیوں کو توڑ کو لے آئے اور آج سب کے سب بے روزگار ہو گئے ہیں ۔

فصیح الرحمن ایسا شاندار صحافی وقت کی نبض نہ جانچ سکا اور پھر بیماریاں لگوا کر مر گیا ۔ کل ڈان کراچی کا ایک شاندار رپورٹرمر گیا ۔ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی مر جاتا ہے کبھی رپورٹر ،کبھی کیمرہ مین اور کبھی سب ایڈیٹر ۔

پبلک نیوز میں صحافیوں نے کام کرنا بند کر دیا انہوں نے پرانے ڈرامے چلانا شروع کر دئے ہیں ۔

نوائے وقت میں غضب خدا کا دس ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں صحافی ہیں کہ چمٹے ہوئے ہیں کوئی چھوڑ ہی نہیں رہا ۔ جو صحافی وقت کے تقاضوں کو سمجھ نہیں رہے اور یا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دئے بیٹھے ہیں وہ اپنے مجرم تو ہیں ہی اپنے گھر والوں کے بھی قصور وار ہیں ۔

پانچ سال قبل ایک اخبار جس کو جنگ گروپ چھوڑ کر بڑی تنخواہ کے لالچ میں اپنایا تھا ایک سال کے بعد پہلے انہوں نے 150 لیٹر پٹرول کی سہولت واپس لی پھر ایک لاکھ بیس ہزار ماہانہ تنخواہ کم کر کے چالیس ہزار کر دی ہم نے اخبار چھوڑ دیا کوئی دوسرا کام شروع کر دیا اور اللہ تعالی نے مدد کی ۔ خدا کی دنیا بہت بری ہے یہاں بے تحاشا اور بے شمار رزق موجود ہے کیوں نئے راستے تلاش نہیں کرتے اورتنخواہ نہ ملنے پر خود کو بھی بیماریاں لگواتے ہیں اور اہل خانہ کو بھی رسوا کراتے ہیں ۔

ایک کیمرہ مین کی والدہ انتقال کر گئی اس کے پاس گھر جانے کے پیسے نہیں تھے اور نہ دوستوں کے پاس بیس روپیہ لے کر میٹرو سے گھر گیا اب تو میٹرو کا کرایہ بھی تیس روپیہ ہو گیا ہے ۔

ایک اور کیمرہ مین جیسے چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی اور والد کینسر کا مریض تھا اس کا علاج کرانے سے قاصر تھا بے بسی کے ساتھ دل کے دورہ کا شکار ہو گیا ۔

وقت تبدیل ہو گیا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا شائد مستقبل میں معاشی استحکام کے ساتھ دوبارہ سے بحال ہو جائے پرنٹ میڈیا کا دور ختم ہو چکا ہے ۔ جنگ ملتان اور ایکسپریس نے اپنا تمام اسٹیشن سٹاف فارغ کر دیا ہے یہ وائرس بتدریج مرکزی شہروں کی طرف بڑھے گا اور ضرور پہنچے گا ۔ جب لوگ اخبار خریدتے ہی نہیں تو مالک کیا اپنی جیب سے پیسے لگا کر تنخواہیں دے گا ؟

حکومتی اشتہارات ملازمین کیلئے نہیں مالک کے اپنے لئے ہیں پہلے وہ اپنا منافع نکالے گا جس کی اس کو عادت ہے اور یہ ہر سرمایہ دار کی عادت ہے ، پھر اگر پیسے بچے تو ورکزر کو تنخواہ دے گا ۔

نوائے وقت کی مالکن رمیزہ نطامی کی ایک گفتگو لیک ہوئی ہے جس میں وہ ہنستے ہوئے کہہ رہی ہے

‘میں اور کیا کروں دس ماہ سے تنخواہیں نہیں دیں پھر بھی اخبار نہیں چھوڑ رہے ‘

جب جنگ اخبار کی اشاعت ایک لاکھ سے کم ہو کر ہزاروں میں پہنچ گئی ہو وہاں اگر کوئی سرمایہ دار اخبار شائع کر رہا ہے اور تنخواہیں دے رہا ہے وہ صحافیوں کے ساتھ نیکی کر رہا ہے اور یہ نیکی بہت عرصہ تک جاری نہیں رہے گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے