میرا جسم میری مرضی،عورت مارچ اور اس پر ہونے والی بحث کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کھلی کھلی باتیں سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
دیکھیں جناب۔۔۔
جس کا جسم ہوگا اس پر حفاظت کا مکمل حق بھی اسی کا ہوگا۔اب سوچنا یہ چا ہیے کہ ایسی تحریک کے عمل میں آنے کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا پاکستان میں آپکی جوان اور میری دو سال کی بیٹی کی عزت مکمل طورپرمحفوظ ہے؟ آپ چاہ کربھی اثبات میں سر نہیں ہلا سکتے۔
جب پشتو گلوکارہ نازیہ اقبال کی دو بیٹیوں کو اسکے اپنے بھائی نے استعمال کیا ،جب آپ لوگ معصوم زینب کو ریپ ہوتے اور پھر قتل ہوتے نہیں بچا سکے،جب گومل یونیو رسٹی کے اسلامیات کے پروفیسر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، جب مسجد میں کسی کا تین سال کا بیٹا بے لباس الٹا لٹکا ہوا تھا، جب سینکڑوں مائیں اپنے بال نوچ نوچ کے روتی رہیں تب کسی نے بے حیائی کے خلاف تحریک کیوں نہیں چلائی؟
عورت مارچ جیسی آوازیں تب اٹھتی ہیں جب پانی سر سے گزر جاتا ہے۔
کسی اور نے خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے کچھ نہیں کیا تو اب چاہے اسے فنڈڈ کیمپین سمجھیں، بے شرمی سمجھیں ۔ یہ خواتین کا وہ طبقہ ہے جسے۱۹۷۳کے آئین پاکستان میں لکھے رہنے کی حد تک تحفظ قبول نہیں۔
عورت مارچ کے۳۴مطالبات پیچیدہ نہیں ہیں نہ ہی ان میں کوئی ایسی تجویز کردہ اصلاحات ہیں جن کی ہمارے آئین میں گنجائش نہ ہو۔ معاشی انصاف، گھریلو تشدد کو جرم قرار دینا، بالغ افراد کو اپنی مرضی سے شریکِ حیات چننے کی آزادی، کام کے تمام جگہوں پر ہراسیت کے خلاف کمیٹیوں کا قیام،بچوں سے بدسلوکی کی روک تھام، فوجداری نظام میں عورتوں کی نمائندگی،تھانوں میں صنفی فہم کی تربیت ، خواجہ سراوں کے حقوق ، سیاسی شمولیت ، طلبا کے حقوق اور صحت کے حوالے سے مطالبات مناسب اور انسانی حقوق کے دائرے میں آتے ہیں۔
لیکن اگر بات اتنی سادہ ہے تو ہنگامہ کیوں ہے؟
چند پلے کارڈز گزشتہ عورت مارچ میں وائرل ہوئے اور بغیر سر پیر کے نعروں نے عورت مارچ کے اچھے خاصے منشور کی دھجیاں اڑا دیں اور اس کے مقصد کو بھی نقصان ہوا۔اپنا مقصد دو ٹوک الفاظ میں کہنا ضروری تھا بجائے اس کے مبہم قسم کے نعرے لگتے ۔ جنسی حقوق پر بنائے گئے نعروں سے اچھا خاصا انسان چکرا جائے، میرا مطلب سمجھ نہ آئے تو گوگل کر لیجئے گاآسانی سے مل جائیں گے اور کنفیوژن بھی دور ہو جائے گی۔
ایک اور غلطی جو عورت مارچ کے منتظمین سے ہوئی وہ یہ ہے کہ ٹی وی پہ زیادہ تر اپنے ان سپوٹرز کو بھیجا گیا جو منطق سے زیادہ جذبات میں آپے سے باہر ہونے پہ اڑے تھے۔
آپ اپنا مقصد ذمہ داری سے بتانے کے پابند ہیں، غیر سنجیدگی اور نا پختہ بات چیت سے یہی ہوگا جیسے کہ ماروی سرمد کی ٹویٹرپر دی گئی گالیوں کا ذخیرہ سامنے آیا اور خلیل الرحمان کا تکبر۔۔۔۔
سب کو اپنے لئے آواز اٹھنانے کا حق ہے۔اگر آپ کسی سے متفق نہیں تو تمیز سے دلیل دیں، تزلیل نہ کریں اس سے آپ کے مقصد کو نقصان پہنچے گا ،وہ مقصد جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کا اہل ہو سکتا ہے۔
جن مباحثوں میں ہم پڑ گئے ہیں ان تمام مسائل کا حل خوفِ خدا رکھنے والے ، ہمدرد اور اعلی ظرف ماں باپ کے پاس ہے جو آنے والی نسلوں کو سنوار سکتے ہیں تاکہ پھر کبھی عورت مارچ کی ضرورت نہ پڑے۔ ریاست میں قانون کا نفاذ اور انسانی حقوق کی پاسداری بہت اہم ہے مگر بنیادی پرورش میں کمی رہ جائے تو مرد حیوان بنتا ہے اور عورت غیر محفوط ۔
وعدہ کریں کہ نڈر نعرے نہیں گونجے گے، وعدہ کریں کے بچے، بچیاں، خواتین مدرسوں، سڑکوں، دوستوں، رشتے داروں ،سکولوں اور اپنے گھروں میں محفوظ رہیں گی۔
لفظ "جسم” کو متنا زعہ نہ بنائیں دوراندیشی سے کام لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔