میری ساری زندگی کو بے ثمر کس نے کیا؟

ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دوران کرنل مجیب الرحمٰن شہید ہوگئے۔ شہید کے جنازہ پر ان کے بارہ سالہ بیٹے نے کہا ’’آپ نے میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو نہیں بتانا کہ بابا کو کیا ہوا ہے‘‘۔ اس ملک میں کوئی اتنا جری، مضبوط اور دلیر جو چند لفظوں پر مشتمل اس جملے کا بوجھ سہار سکے؟ ہے کسی کے پاس اتنی دولت جو شہید کے بارہ سالہ بیٹے کے اس ایک جملے کی قیمت چکا سکے جو کم سنی میں ہی بالغ بلکہ بوڑھا ہو گیا، کس کی آنکھوں میں اتنے آنسو ہیں جو شہید کو خراجِ تحسین پیش کر سکیں، کس ماں کے لعل کے قلم میں اتنی روشنائی ہے جو نوحہ لکھنے کا حق ادا کر سکے۔ 72سال میں فوجی اور غیرفوجی شہیدوں کی تعداد سے کوئی واقف ہے تو مجھے بتایا جائے۔ پنجاب اسمبلی کے عقب میں جو سڑک ہے، انوار الحق شہید روڈ وہ میرے ایک کزن کے نام پر ہے جو 65کی جنگ میں شہید ہوئے اور مجھے یقین ہے کہ اب تک اس سڑک سے گزرنے والے کروڑوں لوگوں میں سے شاید ہی کبھی کسی نے سوچا ہو کہ انوار کون تھے؟ ان کا خاندان کہاں ہے۔

انوار بھائی جب شہید ہوئے میں سکول میں پڑھتا تھا، شہید کے معنی بھی کم کم ہی جانتا اور سوچتا تھا کہ یہ کیسے ’’زندہ‘‘ ہیں جنہیں سپردِ خاک کر دیا جاتا ہے۔ تب سے اب تک اتنے شہید سنے کہ گنتی بھول گیا لیکن کرنل مجیب الرحمٰن شہید کے بارہ سالہ بیٹے کے اس جملے نے میرا جو حشر کیا، وہ صرف میں جانتا ہوں یا میرا خدا۔’’آپ نے میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو نہیں بتانا کہ بابا کو کیا ہوا ہے‘‘۔بارہ سالہ بچہ جب اپنے ’’چھوٹے بہن بھائیوں‘‘ کا ذکر کرتا ہے تو یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ وہ بچے کتنے کم سن ہوں گے اور یہ جاننے کے لئے انہیں مزید کتنے سال درکار ہوں گے کہ ان کے بابا کو کیا ہوا تھا؟ کیسے ہوا تھا؟ کیوں ہوا تھا؟ کس کی خاطر ہوا تھا؟جن کی خاطر ہوا تھا کیا ان کو بھی کبھی اس بات کا اندازہ ہوا یا ہو گا کہ ہوا کیا ہے؟

10مارچ 2020بروز منگل اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی تھی جس کے ساتھ شہید کی سنگل کالمی تصویر بھی تھی یا اس سے پہلے ٹی وی پر یہ حادثہ، سانحہ، قیامت ٹیلی کاسٹ ہوئی اور بس لیکن مجھے بات کی سمجھ ہی اس جملے سے آئی کہ ’’میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو نہیں بتانا کہ بابا کو کیا ہوا‘‘۔یہ تو تھا اور ہے ’’پاکستان‘‘ نامی تصویر کا ایک رخ۔

دوسرا رخ اس سے بالکل ہی مختلف ہے، بہت ہی مختصر ہے کہ ’’ٹھٹھہ اور پاک پتن میں غربت سے تنگ دو مائوں نے اپنے 5بچے قتل کرنے کے بعد خودکشی کر لی‘‘۔ شہید کا بارہ سالہ بچہ، اس کے چھوٹے بہن بھائی، شہید کی اہلیہ، ماں باپ اگر حیات ہیں اور پھر ٹھٹھہ پاک پتن کی یہ دو مائیں اور 5مقتول بچے یہ ہے میری کل کمائی، میری اب تک کی زندگی کا خلاصہ، میری آپ بیتی، جالندھر، امرتسر، لدھیانہ سے ہجرت کر کے لائل پور، لاہور سیٹل ہونے والے میرے بزرگوں کی منزل۔ بچپن سے سنتے آئے کہ یہ ملک بےپناہ، لازوال قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوا تھا، شہادتوں کے سلسلے طویل تر قربانیوں اور شہادتوں کا یہ عظیم امتزاج بیشتر کن کے پنجوں اور جبڑوں میں جکڑا رہا۔

دولخت ہونے کے بعد آج کس حال میں کہاں کھڑا ہے؟میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیاعمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیااور اس سے بھی ایک قدم آگےشہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیرشہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیایہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟اور یہ کھیل کب تک جاری رکھا جا سکتا ہے؟قربانیوں اور شہادتوں کی یہ داستان کب رنگ لائے گی؟ جس درخت کو سمندروں لہو سے سینچا، اسے پھول اور پھل کب نصیب ہوں گے؟ ہماری کون سی خوش بخت نسل ہو گی جو اس کی چھائوں میں سکھ کا سانس لے گی؟ کہاں پارک لین اور سرے محل، کہاں مائوں کے ہاتھوں مرے بچے اور خودکش مائیں۔فرمایا’’جب کچھ لوگوں کے پاس ضرورتوں سے بہت زیادہ مال جمع ہو جائے تو جان لو لاتعداد لوگ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہو گئے‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے