ڈالر روکو، جنگ رکے گی۔۔۔

۲۰۱۴سے لے کر اب تک ۴۵۰۰۰افغان سکیورٹی اہلکارمارے گئے۲۰۰۱ سے اب تک بین الاقوامی فوجی اتحاد کے۳۵۰۰۰ ممبران ہلاک ہوئے جن میں ۲۳۰۱ امریکی فوجی تھے۔ واٹسن انسٹیوٹ آف براﺅن یونیورسٹی کے مطابق ۴۶۰۰۰ مخالف جنگجو ہلاک ہوئے، ۲۰سال سے افغانستان میں جنگ نے افغانیوں کو موت اور خوف کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

افغانستان میں تعینات برطانوی فوج کی سینکڑوں خود کشیاں اور اتحادی فوج کے بڑے حصے میں سامنے آنے والے نفسیاتی مسائل نے بھی افغان جنگ کا وہ نتیجہ نہیں نکالا جو افغان جنگ کی نگرانی کرنے والے پہلے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش چاہتے تھے۔ جارج بش کا کہنا تھا کہ ہمارا مشن طالبان کی عسکری قوت کو ختم کرنا ہے۔ طالبان کی عسکری قوت کم ہونے کی بجائے بڑھی اور آخر کار امریکہ ،اتحادی اور طالبان جنگ سے تھک گئے، نہ افغان حکومت کے گرنے کا خطرہ ٹلا نہ افغان طالبان کے حملے رکے۔

افغان حکومت کی قبائلی تقسیم، سیاسی بصیرت کی کمی، امریکی اسٹریٹجی کا اثر، غیر موئثر امن مزاکرات اور دولت ِاسلامیہ کے چیلنج نے جنگ کو رکنے نہیں دیا۔ 18 سال افغانستان نے لاشیں اٹھائیں۔

۷اکتوبر ۲۰۰۱میں افغانستا ن میں پہلی ائیر اسٹرائیک سے لے کر۲۹فروری۲۰۲۰ تک امریکہ اور افغان طالبان کے امن معاہدے تک، افغان عوام ایسی حکومت کو ترسی ہے جو انکے حقوق کو ڈالر سے زیادہ اہمیت دیں۔اب بھی دو صدر اور ایک امیر کیا تیر مار لیں گے؟ جبکہ نہ وہ خود ایک پیج پر ہیں اور نہ افغان طالبان حکومت کو جائز مانتے ہیں۔بین الافغان مزاکرات کیسے ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی جنگ افغان سیاسی اور قبائلی گروہ بندی کو نہیں توڑ سکی۔
۱۸سالوں میں غیر فوجی امداد کی مد میں ۹۰۲بلین ڈالر دیئے گئے۔

آج افغانستان میں۳۰۵ملین لڑکیاں سکول جاتی ہیں۸۵۰۰۰ خواتین مختلف شعبوں کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ امداد افغان طالبان کا نظریہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے نہیں بدل سکی۔ ٹی وِی پہ بیانات کی حد تک خیالات میں تبدیلی واقع ہوِئی مگر در حقیققت مشکل ہے۔ امن معاہدہ بھی ہو گیا اور امن بھی نہیں۔حملے اور جوابی کارواﺅں کے لئے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اشرف غنی نے۵۰۰۰ قیدی تو رہا کرنے کا وعدہ تو کیا جس کا طریقہ کار طالبان کو قبول نہیں۔

متفقہ فارمولہ کیسے پیش کریں گے جو سب کو قبول ہو۔ طالبان ،القاعدہ کے مہمان نواز تھے اب اگر ایسا نہیں بَھی ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ مستقبل میں دولتِ اسلامیہ اور دوسرے گروپ سکون سے بیٹھں گے۔ اگر افغان حکومت اور افغان طالبان میں بد اعتمادی برقرار رہی تو شدت پسند گروپ اکٹھے بھی ہو سکتے ہیں۔

جن علاقوں میں طالبان کا کنٹرول رہا وہاں دنیا میں سب سے زیادہ افیون کی پیداوار کی گئی، جیسے ہلمنداور کندھار،اس کے ساتھ ساتھ طالبان کے علاقوں میں سفر کرنے والے سے ٹیکس لے کر سالانہ 1.5بلین کمائے گئے۔

طالبان کے پاس پیسے کی کمی نہیں رہی لیکن طالبان کی حکومت کےدورکے بارے میں” گھٹن "کے علاومورخ کیا لکھے گا ؟
۲۰۲۰کےامریکی صدارتی انتخابات سے پہلے افغانستان میں نیٹو افواج میں کمی ٹرمپ کی سیاسی ضرورت بھی ہے۔ ۲۹امریکی اتحادی بھی جنگ سے نکلنے کے لیے تیار ہیں۔

امریکہ جنگ سے تنگ آکر اب مشکل سے۱۲۰۰۰ فوجی افغانسان میں رکھے گا اور باقی انخلا کا ٹائم ٹیببل سیٹ کیا گیا ہے۔ سفارتی حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ قطر میں ہونے والے امن معاہدے کو کیا واقعی ایک معاہدہ کہنا چاہئے یا امریکا کی جانب سے اس کو ہتھیار ڈالنا کہا جانا چاہئے۔
۱۹۷۳کے امریکہ ویتنام او۱۹۸۹ کے جنیوا معاہدے میں بھی امریکہ کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں تھا، سوائے امن کے بوکھلائے ہوئے نعرے کے۔اور اب افغانستان میں ۲ٹریلین ڈالر ضائع کرنے کے بعد امن کون نہیں مانگے گا۔ امریکہ کا مانگنا تو بنتا ہے۔۵۰۹ ٹریلین ڈالر،۲۰۰۱سے اب تک عراق،شام اورپاکستان میں جھونکے۔
جنگ اصل میں رکے گی نہیں صرف وقتی طو پر شکل تبدیل کر سکتی ہے۔

پاکستان کو بھی تیاری پکڑنی چاہئے۔اگر پالیسی ساز، سازیشوں سے بریک لیں اور پالیسی بنانا چاہیں کچھ کتابیں انکی مدد کر سکتی ہیں۔
"The Anatomy of Failures” امریکی پالیسی ساز ہارلن کے اولمن کی کتاب
۔۔۔۔۔۔۔Why America Loses Every War It Starts پڑھِیں اور سمجھِیں۔

افغان پالیسی ساز کے لیے ڈیرن امغلو اور جیمز اے روبنسن کی کتاب Why Nations fails بہترین ہے۔کیونکہ دو افغان صدور” انکلوسیونیس” یعنی شراکت داری کی بات کر رہے ہیں۔

پاکستانی پالیسی ساز اگر وقت نکال کر بینظیر بھٹوکی2008میں شائع ہونے والی کتاب”Reconciliation: Islam, Democracy, and the West”
پڑھیں اورسمجھیں تو پیچیدہ مسائل کا سادہ حل نظر آئے گا۔برطانوی نوآبادیاتی نظام میں یہ خیال عام تھا کہ” بلوچ کو عزت دو، پشتون کو خریدواورسندھی کو ڈراﺅ ” اس طرح کے دقیانوسی خیالات نے برطانوی راج کی سیاسی اور معاشرتی حکمتِ عملی کو بہت اثرانداز کیا لیکن دلچسب بات یہ ہے کہ ماضی کی فوجی مہم جوئیوں میں کچھ جگہ یہ عام خیال درست بھی ثابت ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا کے عظیم تایخ دان کی کتابیں”Return of the King”
The First war in Afghanistan 1842۔۔۔۔۔1839۔۔۔
اس عام خیال کی مثالوں سے بھر پور ہے۔ اور افسوس اس بات کا ہے کی قبائلی پٹی میں کچھ عناصر اور افغان قیادت میں اب تک ڈالر کا بڑا اثرورسوخ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے