میرا مذہب تبدیل نا کرو – کیا یہ مطالبہ جائز نہیں؟

#SindhRejectsForcedConversions

پاکستانی اقلیتیں آج بھی خوش کیوں نہیں ہیں؟ کیا مذہب کی تبدیلی جیسے مسئلے پر پاکستانی قوم اکٹھی ہوسکتی ہے؟ یہ وہ اہم سوال ہیں جو آج اکیسویں صدی میں بھی پاکستان کے لیئے انتہائی اہم ہیں. صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے میں بسنے والی تمام ہی اقلیتیں اکثریتوں سے نالاں ہیں اور اپنے آواز کی شنوائی کی منتظر ہیں. پاکستان میں اس ماہ یہ بحث مئی کی پانچ تاریخ کو چھڑی جب وفاقی کابینہ میں قومی اقلیتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس طرح سے ملک میں بسنے والی اقتلیوں کو کچھ امید نظر تو آئی کہ سپریم کورٹ کے کئی سال کے فیصلے پر آکر کار اس حکومت نے عملدرآمد زروع تو کیا.

مگر مسئلہ کہاں پیش آرہا ہے؟ آج، بتاریخ چھ جون کو ٹویٹر پر کچھ ہندو نوجوانوں کی جانب سے اس سوال کو اٹھایا گیا اور مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف بھرپور مہم چلائی. ٹاپ ٹرینڈ کرنے والا یہ معاملے میں کئی اہم ٹویٹس بھی دیکھنے میں آئے جس میں حال ہی میں بازیاب ہونے والی ہندو لڑکی شری متی میگھواڑے، جس کو اٹھارہ ماہ پہلے اغواہ کرکے اس کا مذہب تبدیل کروا دیا گیا تھا، کو موضوع کا حصہ بنایا گیا. یاد رہے قومی اقلیتی کمیشن کے سربراہ چیلا رام کیولانی مذہب کی جبری تبدیلی کے معاملے کو بین الاقوامی میڈیا اور پڑوسی ملک کا پروپگینڈہ قرار دیتے ہیں جس پر اقلیتی حلقوں کا شدید اختلاف اور اعتراضات سامنے آئے. اقلیتوں کے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ آراء سامنے آرہی ہیں کہ سندھ میں ہندو، پنجاب میں مسیحی، پختونخوا میں کیلاشی کمیونٹی سمیت ملک میں تمام اقلیتیں مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف ایک ہیں تو یہ مسئلہ کیسے اتنا اہم نہیں ہے؟

پاکستان میں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے ٹویٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا: بھیوش کمار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتی حلقوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو اغواء کرلیا جاتا ہے، ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے تشدد اور زبردستی سے ان کا مذہب تبدیل کروا لیا جاتا ہے . بھیوش کے مطابق پاکستان میں ایسا بیشتر اقلیتوں، ہندو، سکھ، اور مسیحی برادری کی لڑکیوں کے ساتھ ہوتا آرہا ہے.

ایک اور ٹویٹر صارف جینت کمار ٹویٹر پر لکھتے ہیں: مجھے اغواء نہیں کیا جانا چاہیئے، مجھے دھمکیاں نہیں ملنی چاہیئں، مجھے میرے خاندان والوں سے ملنے سے نہیں روکے جانا چاہیئے، میرا مذہب زبردستی تبدیل نہیں کروایا جانا چاہیئے. مزید لکھتے ہیں کہ یہ میرا حق ہے کہ میں کوئی بھی مذہب اپنی مرضی سے اختیار کروں، میرا مذہب میری مرضی.

جوالا راٹھی نامی ٹویٹر صارف کا کہنا تھا کہ 14 سالہ بچی کا 40 سال کے آدمی سے بیاہ محبت نہیں بلکہ پیڈوفیلیا ہے.

یاد رہے اقلیتی کمیشن پر اٹھائے جانے یہ اعتراضات اور سوالات غیر اہم نہیں ہیں. رنکل کماری سمیت پاکستان میں اس نوعیت کے اہم ترین کیسز سامنے آئے، حال ہی میں شری متی میگھواڑے کا کیس قومی اقلیتی کمیشن کے لیئے ایک چیلنج ہے. حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو مذہب کی آزادی اور ان کو قومی دھارے میں لینے کی یہ کوشش ہے تو اچھی، مگر کیا یہ اقلیتوں کے اصل مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو پائے گی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے