خیبر پختونخوا : یونیورسٹیاں تباہی کے دہانے پر

خیبرپختونخواکے10 سرکاری جامعات وائس چانسلرزنہ ہونے کی وجہ سے شدیدانتظامی مسائل سے دوچار ہیں ،وائس چانسلرزکی عدم تعیناتی ،تاخیراوردیگرکئی امورکے باعث سرکاری جامعات کوکئی مسائل کاسامناکرناپڑرہاہے. ان سرکاری جامعات کے وائس چانسلرزکی تعیناتی کیلئے جوسرچ کمیٹی قائم کی گئی ہے ان کے سات اراکین میں سے صرف ایک کاتعلق خیبرپختونخوا سے ہے. ڈاکٹرعطاء الرحمن کی سربراہی میں قائم سرچ کمیٹی کے فیصلوں کی تاخیرکے باعث طلبہ کے آن لائن کلاسز ،ملازمین کی تنخواہوں ،جامعات کے بجٹ اوردیگرکئی امورالتواء کاشکار ہیں۔

[pullquote]خیبرپختونخوا کے کونسی یونیورسٹیاں وائس چانسلرزکے بغیرکام کررہی ہیں۔۔؟[/pullquote]

صوبے کی سب سے بڑی پشاوریونیورسٹی ،یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈٹیکنالوجی پشاور ،باچاخان یونیورسٹی چارسدہ، وویمن یونیورسٹی مردان، صوابی یونیورسٹی اورخیبرمیڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلرزکی مدت یاتوختم ہوچکی ہے یاجولائی کے پہلے ہفتے تک ختم ہوجائے گی اس کے علاوہ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان ،عبدالولی خان یونیورسٹی مردان اورفاٹایونیورسٹی کے وائس چانسلرکابھی مسئلہ ہے ،بنوں یونیورسٹی،کوہاٹ یونیورسٹی ،اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور پرووسٹ وائس چانسلر(عارضی وائس چانسلر)کے تحت کام کررہی ہیں وائس چانسلر یونیورسٹی کے تدریسی امور کے علاوہ انتظامی امور کی بھی نگرانی کرتاہے ۔

[pullquote]وائس چانسلر کی تعیناتی کیسی ہوتی ہے ۔۔؟[/pullquote]

یونیورسٹی ایکٹ2012ء جس میں2016ء میں مزید ترامیم کی گئی تھی،کے مطابق خیبرپختونخواکی کسی بھی سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی مدت کے خاتمے میں جب چھ مہینے باقی ہوں تونئے وائس چانسلر کی تعیناتی کاعمل شروع کیاجاناچاہئے ، لیکن بدقسمتی سے خیبرپختونخوامیں ایسا نہیں کیاجارہا یونیورسٹی کے قواعدوضوابط کے مطابق یونیورسٹی کے کسی بھی وائس چانسلر کوتوسیع نہیں دی جاسکتی ، توسیع صرف اس صورت میں دی جاسکتی ہے جب اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی انتظامی،تدریسی کارکردگی لاثانی ہو.

یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی پروفیسر جس کے 15امپکٹ پیپرزہو ،پانچ سالہ انتظامی تجربہ ہو اور ساتھ ہی 15سالہ تدریس کاتجربہ ہو ،وہ وائس چانسلر بننے کے قابل ہے . ہائرایجوکیشن کے نئے قواعدوضوابط کے مطابق جس پروفیسر کا امپکٹ فیکٹرزیادہ ہو توانکاسکوربھی زیادہ ہوجاتاہے .

[pullquote]کس سبجیکٹ کے پروفیسرز زیادہ تر وائس چانسلر بنتے ہیں ؟[/pullquote]

ہائرایجوکیشن کمیشن کے اس رولزکے تحت صوبے کی سرکاری جامعات کے بیشتروائس چانسلرز سائنس کے مضامین سے تعلق رکھتے ہیں .فنون اورسوشل سائنسزکے پروفیسر امپکٹ فیکٹرکے نمبروں کی کمی کے باعث وائس چانسلر کی تعیناتی سے رہ جاتے ہیں . محکمہ اعلیٰ تعلیم کے افسرکے مطابق سائنس کے مضامین سے تعلق رکھنے والے پروفیسر امپکٹ فیکٹرکے نمبرزکے باعث اچھے سائنسدان توہوتے ہیں لیکن ان میں بیشترپروفیسرانتظامی تجربہ نہ ہونے کے باعث انتظامی مسائل سے دوچارہوجاتے ہیں اوریہی حال ہری پور اورعبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کیساتھ بھی ہوا ۔

[pullquote]وائس چانسلر کی تعیناتی کون کرتاہے۔۔؟[/pullquote]

خیبرپختونخواحکومت نے ڈاکٹرعطاء الرحمن کی سربراہی میں وائس چانسلر کی تعیناتی کیلئے جوکمیٹی قائم کی ہے اس کے سات اراکین میں سے صرف ایک غلام محمد میانہ کاتعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے لیکن وہ بھی پچھلے 40سال سے اسلام آبادمیں مقیم ہیں . اسکے علاوہ سرچ کمیٹی کے تمام اراکین کاتعلق پنجاب اور سندھ سے ہے. خودڈاکٹرعطاء الرحمن کا تعلق کراچی جبکہ دوسرے رکن ایس ایم نقوی کا تعلق پنجاب سے ہے .

ہائر ایجوکیشن کمیشن وائس چانسلرز کی تعیناتی کیلئے درخواستیں طلب کرتاہے ، انکے کاغذات کی جانچ پڑتال کرتاہے اورپھر ناموں کوشارٹ لسٹ کرکے سرچ کمیٹی کے حوالے کردیتاہے . سرچ کمیٹی ان میں سے پروفیسرزکے ناموں کو مزید شارٹ لسٹ کرکے انٹرویوکیلئے طلب کرتاہے اورکسی بھی یونیورسٹی کیلئے تین ناموں کی ایک ترجیحی لسٹ صوبائی حکومت کوبھیج دی جاتی ہے .

اس عمل کی تکمیل کے بعد حکومت گورنرکے ذریعے وائس چانسلر کے نام کی منظوری دے دیتی ہے . واضح رہے کہ صوبے کے کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے دوران نامناسب رویہ رکھنے پر پروفیسر صاحبان نے عدالت عالیہ سے بھی رجوع کیاہے۔

خیبرپختونخواکی سرکاری جامعات کو اس سال ہائرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے کم فنڈملنے کی توقع ہے جسکے باعث یونیورسٹیاں مزید مالیاتی وانتظامی مسائل سے دوچارہوسکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے