سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا ہے۔

عدالت نے جمعے کو مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست بھی قابل سماعت قرار دیتے ہوئے منظور کر لی ہے۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا ہے۔

فل کورٹ کے سات ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کے ٹیکس معاملات ایف بی آر کو بھجوانے کا حکم دیا جب کہ بینچ کے سربراہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کی مخالفت کی۔

سات ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر 60 دن کے اندر تحقیقات مکمل کرے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر حکام تحقیقات کے بعد رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے جو یہ تفصیلات سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے کریں گے۔

فیصلے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر تحقیقات کا جائزہ لے کر جج کے خلاف کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ازخود کرے گی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کی درخواستوں پر 46 طویل سماعتوں کے بعد محفوظ فیصلہ سنایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر یہ الزام تھا کہ اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کے نام بیرونِ ملک جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہ کر کے ججز کے طے شدہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی۔

جمعے کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منی ٹریل کی دستاویز عدالت میں پیش کر دیں۔ اُن کے وکیل نے کہا کہ فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہو گئے۔ جج کے اہل خانہ کی تفصیلات ویب سائٹ سے تلاش کی گئی ہیں تو حکومت ادائیگی کی رسید دے۔

جمعے کو جب سماعت شروع ہوئی تو وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی دستاویزات سر بمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرا دیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کریں گے۔ معزز جج کی بیگم صاحبہ تمام دستاویزات ریکارڈ پر لاچکی ہیں۔ آپ اس کی تصدیق کرائیں ہم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر ملک کو سنتے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے بھی سر بمہر لفافے میں دستاویزات عدالت میں پیش کیں اور جواب الجواب میں کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی لیکن سمجھ نہیں آرہی حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جب کہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں۔ الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آ گئی۔

منیر اے ملک نے دلائل دیے کہ ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا۔ چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کا موقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویزات لی جائیں۔ کل کی سماعت کے بعد آپ کے موقف کو تقویت ملتی ہے جس پر منیر اے ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے جج کے بنیادی حقوق ذیادہ اہم ہیں، یا ان کا لیا گیا حلف؟ منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت درخواست کو انفردی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو) نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے، حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے جواب الجواب پر دلائل مکمل کیے تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔ انہوں نے دوران دلائل سورہ النساء کا حوالہ بھی دیا۔

[pullquote]’اے آر یو یونٹ کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی'[/pullquote]

سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے دلائل میں کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو لیگل فورس ہے۔ حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیں، وزیر اعظم وزارت یا ڈویزن بنا سکتے ہیں۔ قواعد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو یونٹ کو لامحدود اختیارات دیے گئے۔ نوٹی فکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے لیکن اے آر یو یونٹ کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔

خیبرپختوںخوا بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل میں کہا کہ خیبرپختونخوا کے 20 ہزار وکلا کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

اس مقدمے میں 39 درخواستیں مختلف بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز نے دائر کی ہیں۔ یہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے رشتہ دار نہیں، یہ درخواست گزار عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ عدالت سے درخواست ہے کہ آئین کا تحفظ کرے۔ ملک کی وکلا برادری عدالت عظمی کے سامنے کھڑی ہے، آئین کے تحفظ اور بحالی کے لیے آمروں کے دور میں جیل جانا پڑا۔

[pullquote]جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟[/pullquote]

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرونِ ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کر دیا تھا۔

بعد ازاں جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمٰی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور بابر ستار نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جن میں انہوں نے حکومتی ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا ہے۔

اس ریفرنس میں اٹارنی جنرل انور منصور کے مستعفی ہونے کے بعد خالد جاوید کو اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی فروری میں اس کیس کی سماعت کے دوران وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔

اس کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر عدالت میں دلائل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے