بجلی کا طویل المدت منصوُبہ حکوُمت پاکستان کے اصوُلوں پر پوُرا نہیں اُترتا: سٹڈی

نیشنل ٹرانسمین اینڈ ڈسپیچ اتھارٹی (این ٹی ڈی سی) کی جانب سے بننے والا بجلی کا نیا طویل المدت منصوُبہ حکوُمت پاکستان کے بجلی کی پیداوار سے متعلق ‘دیرپا’ اور ‘ارزاں’ جیسے اصوُلوں پر پوُرا نہیں اترتا۔ انٹیگریٹڈ جینرایشن کیپیسٹی اینھانسمینٹ پلان2047- (آئی جی سی ای پی2047-) نامی اس طویل المدت منصوُبہ میں بجلی کی طلب سے متعلق لگایا جانے والا تخمینہ درست نہیں۔ مزید براں اس طویل المدت منصوُبہ کی تیاری میں کورونا وباء (کووڈCOVID-19-) کے معیشت پر اثرات کو زیر غور نہیں لایا گیا۔ ان حقائق کا اظہار آج جاری ھونے والی ایک سٹڈی میں کیا گیا ھے۔ انسٹیٹیوُٹ آف انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل انیلسز (Institute of Energy Economics and Financial Analysis-IEEFA) کی جانب سے ھونے والی اس سٹڈی کو الائینس فار کلائمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی (Alliance for Climate Justice and Clean Energy-ACJCE) کے زیر اھتمام منعقد ھونے والے ایک آن لائن سیمینار کے ذریعے جاری کیا گیا۔ ‘پاکستان کو درپیش بجلی کی زائد پیداواری صلاحیت اور مہنگی بجلی جیسے خطرات’ کے موضوع پر ھونے والی اس سٹڈی کے مطابق طویل المدت منصوبہ میں بجلی کی طلب میں اضافہ سے متعلق تخمینہ انتہائی زیادہ ھے جس کی وجہ سے ضروُرت سے زائد پیداواری صلاحیت کا منصوُبہ تیار کیا گیا ھے۔

 

آن لائن سیمینار سے خطاب کرتے ھوُئے سٹڈی کے مُصنف سائمن نکولس نہ کہا: "بجلی پیدا نہ کرنے صورت میں بھی بجلی گھروں کو پیداواری صلاحیت کی مد میں دئے جانے والے کیپیسٹی چارجز کی ادائیگی پہلے ہی حکوُمت پاکستان کو درپیش ایک سنجیدہ معاشی مسئلہ ھے۔ اگر آئی جی سی ای پی2047- نامی اس طویل المدت منصوُبہ کے تحت پاکستان کو بجلی کی زائد پیداواری صلاحیت تیار کرنے میں جکڑا جاتا ھے تو کیپیسٹی چارجز کی ادائیگیوں کا یہ معاشی مسئلہ مستقبل میں مزید سنگین شکل اختیار کرے گا۔” اُنہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے برعکس کہ بجلی پیدا کرنے کے لئے ھوائی اور شمسی وسائل پہلے ھی انتہائی سستے ھیں اور 2030ء اور 2040ء کے عشروں میں مزید ارزاں ھوں گے، بجلی کے طویل المدت منصوُبہ میں بعد از2030ء قابلِ تجدید توانائی کے جدید ماحول دوست وسائل کے فروغ دینے کی بجائے نظر انداز کیا گیا ھے۔ اُنہوں نے کہا کہ منصوُبہ میں بعد از2030ء قابل تجدید توانائی کو فروغ نہ دینا دراصل اس طویل المدت منصوُبہ تیار کرنے والے ذمہ دار حکام کی قابل تجدید توانائی کے حالیہ رحجانات سے لاعلمی کی طرف ایک واضح اشارہ ھے۔ منصوبہ میں شامل ایل این جی سے چلنے والے بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت پر بات چیت کرتے ھوُئے انہوں نے کہا کہ طویل المدت منصوبہ میں دئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2047ء تک ایل این جی سے پیدا ھونے والی بجلی کا استعمال صفر فی صد ھو گا۔ تاھم 2030ء سے 2047ء تک ایل این جی سے پیدا ھونے والی 20,000MWمیگا واٹ بجلی کا اضافہ ھو گا، جس سے نہ صرف ایل این جی بجلی کی پیداوار انتہائی مہنگی ھو گی بلکہ ایل این جی سے چلنے والے بجلی گھر بھی بے کار اور ناکارہ ھو جائیں گے۔

طویل المدت منصوبہ میں ‘مقامیت پسندی’ کے تحت پاکستان کے مقامی کوئلہ سے بجلی کی پیداوار بڑھانے کو انتہائی مہنگی ترجیح قرار دیتے ھوئے اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کے فاسل ایندھن کی درامدی ادائیگیاں کم کرنے میں کوئلہ کی نسبت قابلِ تجدید توانائی کا فروغ زیادہ اھم اور موُئژ ھوگا۔ ھوائی اور شمسی توانائی کی نسبت کوئلہ کے وسائل کو زیادہ ترجیح دینا حکوُمت پاکستان کا بجلی کی پیداوار سے متعلق ‘ارزاں قدری’ کے اصول پر پورا نہیں اترتا۔ اس کے علاوہ ملک میں وسیع پیمانہ پر کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر لگانے سے کاربن کا اخراج خطرناک حد تک بڑھے گا۔ اس طرح بجلی کی پیداوار میں کاربن اخراج کم کرنے سے متعلق حکومت پاکستان کا بیان کردہ ‘دیرپا’ اصوُل پامال ھوگا۔

سٹڈی کے چیدہ چیدہ نکات پر مصنف کی بات چیت کے بعد آن ائن سیمینار میں پینل ڈسکشن شروع ھوئی۔ پالیسی ادارہ برائے دیہی ترقی کی ھنیہ اسعاد نے طویل المدت منصوبہ میں کم لاگت پیداواری وسائل طے کرنے والے طریقہ کار کو سوالیہ نشان بناتے ھوئے، اس منصوبہ پر سنجیدہ نظرثانی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی جی سی ای پیIGCEP-2047- نامی اس طویل المدت منصوبہ میں تھر کے کوئلہ سے چلنے والے منصوبوں کو فراھمی آب اور دیگر منسلک سہولتوں پر اٹھنے والے اخراجات کو شامل نہیں کیا گیا۔ اور نہ اِس منصوبہ میں مستقبل میں دستیاب بجلی ذخیری کرنے والی جدید سہولیات، کاربن کے اخراج میں کمی اور ماحولیات سے متعلق پاکستان کے عزائم کو خاطر خواہ اھمیت دی گئی ھے۔

آلٹرنیٹو لاء کولیکٹو کے ایڈووکیٹ سید غضنفر نے آئی جی سی ای پیIGCEP-2047- نامی طویل المدت منصوبہ کے قانوُنی پہلوُوں پر بات چیت کی۔ پاکستان فشر فوک فورم کے محمد علی شاہ نے منصوبہ کے ‘مقامیت پسندی’ کے اصول کے تحت مقامی کوئلہ کا استعمال بڑھانے کو انتہائی خطرناک قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ تھر کے لوگ پہلے ہی کوئلہ کی کان کنی اور بجلی گھروں کی وجہ سے شدید سماجی و ماحولیاتی مسائل کا شکار ھیں۔ طویل المدت منصوبہ کے تحت مقامی کوئلہ کا استعمال مزید بڑھنے سے ان سماجی و معاشی مسائل کا دائرہ اثر بھی کئی گنا وسیع ھوگا۔

[pullquote]SUMMARY OF IEEFA’s STUDY ON IGCEP-2047[/pullquote]

2020ء) کے شروع میں حکوُمت پاکستان نے ملک میں سال2047 ء تک ملک کی بجلی کی متوقع طلب اور پیداواری صلاحیت سے متعلق ایک طویل المدت منصوُبہ پیش کیا۔ آئی جی سی ای پی (Integrated Generation Capacity Enhancement Plan/EGCEP-2047) نامی یہ طویل المدت منصوبہ اپنی مندرجہ نمایاں خصوصیات اور حکوُمت کی جانب سے بجلی کی پیداوار سے متعلق وضع کردہ ‘ارزاں’ اور ‘دیرپا’ کے اصوُلوں پر پوُرا نہیں اترتا۔ آئی جی سی ای پی کے مندرجہ نمایا ں خصوصیات میں قابل تجدید توانائی اور مقامی کوئلہ سے پیدا ھونے والی بجلی کے استعمال میں خاطر خوُاہ اضافہ اور فاسل ایندھن کی درامدات اور کاربن اخراج میں کمی لانا شامل ھیں۔ تاھم اس منصوُبہ کے تفصیلی تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ھے کہ منصوُبہ میں بجلی کی طویل المُدت متوقع طلب اور پیداواری صلاحیت سے متعلق اندازہ لگانے کے لئے جن مفروُضات پر انحصار کیا گیا ھے وہ درست نہیں ھیں۔ لہذا اِن مفروضات سے اخذ کئے جانے والے نتائج بھی درست نہیں۔

آئی جی سی ای پی میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لئے بیس کیس (Base Case) منظرنامہ وضع کیا گیا ھے۔ بیس کیس منظرنامہ کی بُنیاد درمیانی پیداواری طلب کے تخمینہ پر رکھی گئی ھے۔ درمیانی پیداواری طلب کے اِس تخمینہ میں فرض کیا گیا ھے کہ جی ڈی پی (GDP) جو سال 2020ء میں 4% فی صد ھے، سال 2025ء میں بڑھ کر 5.5% فی صد ھو جائے گی اور سال 2047ء تک اِسی سطح (5.5% فی صد) پر ھی قائم رھے گی۔ آئی جی سی پی نامی اس طویل المدت منصوبہ میں درمیانی پیداواری طلب سے متعلق توقعات حقیقت سے کہیں بُلند ھے۔ کورونا وائرس (COVID-19) اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی معاشی کساد بازاری کے تناظر میں بجلی کی متوقع طلب اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا تخمینہ اِنتہائی بے بُنیاد ھے۔ اِس بے بُنیاد اور غیر حقیقی تخمینہ کی وجہ سے پاکستان بجلی کی طلب سے زائد پیداواری صلاحیت جیسے سنگین مسئلہ کا شکارھوگا۔ چائینہ، انڈیا، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا جیسے ممالک، جو ماضی میں اس طرح کے زائد تخمینے لگانے کے مُرتکب ھوئے ھیں، آج بجلی کی طلب سے زائد پیداواری صلاحیت کے اِس مسئلہ سے دوچار ھیں۔ پیداواری صلاحیت کی مد میں ادا کئے جانے والے کیپیسٹی چارجز (Capacity Charges) پاکستان کے بجلی کے شعبہ پہلے ھی ایک سنگین مسئلہ ھے۔ مستقبل میں طلب سے زائد بجلی کی پیداواری صلاحیت قائم ھونے سے، پاکستان کو ناکارہ بجلی گھروں کو بھی کیپیسٹی چارجز کی مد میں خطیر رقم ادا کرنی پڑے گی۔

بجلی کی طلب سے زائد پیداواری صلاحیت اور اس کے استعمال میں کمی کی وجہ سے بجلی گھر بے کار اثاثے بن جائیں گے اور اس طرح شعبہ بجلی میں ھونے والی سرمائہ کاری ضائع ھوجائے گی۔ بیس کیس منظر نامہ کے مطابق سال 2030ء میں درآمدی کوئلہ سے 5.3GW گیگا واٹ بجلی پیدا ھو رھی ھوگی جبکہ اس کا اجتماعی استعمال 14% فیصد ھو گا۔ اس سے یہ حقیقت واضح ھوتی ھے کہ کیپیسٹی چارجز کی مد میں خطیر رقم خرچ کئے بغیر حکوُمت پاکستان کے لئے درآمدی کوئلہ سے چلنے والے ان بے کار بجلی گھروں کو چلانا مُمکن نہیں ھوگا۔ اور اس طرح یہ بے کار بجلی گھر غیر منافع بخش اثاثے بن جائیں گے۔ بجلی کے استعمال میں کمی کا مسئلہ محض درآمدی کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھروں تک محدوُد نہیں۔ ایل این جی (LNG) پر چلنے والے تین زیر تکمیل بجلی گھروں سے بھی یہ مسئلہ پیچیدہ ھو گا۔ درآمدی کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھروں سے پیدا ھونے والی بجلی کے استعمال میں کمی کی اگر یہی شرح سال2030 ء تک عملی طور پر قائم رہی تو اس کے ایشیائی سمندری کوئلہ کی منڈی پر خاطر خواہ اثرات مرتب ھوں گے۔ اس سے پاکستان کو کوئلہ برامد کرنے والے ممالک، بالخصوص جنوُبی افریقہ، انڈونیشیا اور آسٹریلیا، متاثر ھوں گے۔

 

اگرچہ آئی جی سی ای پی نامی بجلی کے اس طویل المدت منصوبے میں قابلِ تجدید بجلی کے اضافہ کو سال 2030ء تک شامل کیا گیا ھے، جس سے حکومت پاکستان کی ڈرافٹ قابل تجدید توانائی کی پالیسی کے اھداف کا حصوُل مُمکن ھو گا، تاھم اس منصوبہ میں قابلِ تجدید توانائی کو عموُمی طور پرنظرانداز کیا گیا ھے اور سال 2030ء کے بعد ھوا سے بجلی پیدا کرنے والے کسی نئے منصوبہ کا اضافہ نہیں کیا گیا۔ بجلی کے اس طویل المدت منصوُبہ کے مطابق قابل تجدید توانائی کی اجتماعی پیداوار، جو سال 2030ء میں 31% فی صد ھوگی، سال 2047ء میں کم ھو کر 23% فی صد رہ جائے گی۔ آئی جی سی ای پی میں بعد از سال 2030ء قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار میں کمی دراصل بجلی کے شعبہ میں جدید رحجانات کے بارے میں لاعلمی کا واضح اشارہ ھے۔ آئی جی سی ای پی میں بعد از سال 2030ء بیٹریوں کی قیمت میں خاطر خواہ کمی کو زیر غور نہیں لایا گیا۔ قابل تجدید وسائل سے بجلی کی پیداوار وقفے وقفے سے رکنے جیسے مسئلہ پر قابوُ پانے کے لئے، آئی جی سی ای پی میں ایل این جی سے 20,000MW میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا حل تجویز کیا گیا ھے۔ اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے بجلی زخیرہ کرنے کے لئے مستقبل میں دستیاب جدید، سستے تکنیکی حل کے مقابلے میں آئی جی سی ای پی کا مجوزہ حل انتہائی ناقص ھے۔

 

فاسل ایندھن کی درامدات میں کمی کے لئے ملک میں دستیاب زیادہ مہنگے مقامی کوئلہ سے پر انحصار کیا گیا ھے۔ سال 2030ء اور سال 2047ء کے درمیانی عرصہ میں مقامی کوئلہ اور آبی (ہائیڈرو) وسائل سے35,000MW میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ آئی جی سی ای پی میں پاکستان کے انرجی مکس میں ملک کے مقامی وسائل سے پیدا ھونے والی بجلی کا حصہ بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ھے۔ مقامی کوئلہ اور آبی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کا جواز اِن مقامیت پسند ترجیحات کی بنیاد پر کیا گیا ھے۔ درامدی فاسل ایندھن پر پر انحصار کم کرنا بلاشبہ ایک قابل ستائش اقدام ھے۔ تاھم آئی جی سی ای پی میں مقامیت پسند ترجیحات کے تحت کم لاگت ھوائی اور شمسی توانائی کے مقامی وسائل کو کہیں بھی مناسب اھمیت نہیں دی گئی۔

کوئلہ او دیگر فاسل ایندھن کے استعمال میں کمی اور قابل تجدید توانائی میں اضافہ سے پاکستان میں بہتری آئے گی۔ آئی جی سی ای پی میں بجلی پیدا کرنے کے لئے مہنگے اور آلوُدہ مقامی کوئلہ کی بجائے قابل تجدید تونائی کے مقامی ھوائی اور شمسی وسائل، حکوُمت پاکستان کے ‘سستی’ اور ‘دیرپا’ بجلی پیدا کرنے کے اصوُلوں پر پوُرا اُتریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے