ریٹائرڈ فوجی افسران کا جنرل(ر)عاصم باجوہ سے مطالبہ

معروف تحقیقاتی صحافی احمد نورانی کی وزیراعظم کے معاون خصوصی جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کے بارے میں شائع شدہ خبر پر پاک فوج کے ریٹائرڈ جرنلز نے بھی تبصرے کیے ہیں ۔

سیاسی مبصر جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اس معاملے کے بہت سے ٹیکنکل پہلو ہیں، جس پر وہ تبصرہ نہیں کر سکتے، ”تاہم یہ بات واضح ہے کہ احمد نورانی را، پی ٹی ایم، ن لیگ اور حسین حقانی کے ساتھ مل کر فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ نورانی نے کبھی نواز شریف یا سیاست دانوں کے کرپشن کو بے نقاب کر کے ریاست پاکستان کی مدد تو نہیں کی۔ قاضی فائز عیسیٰ کی منی ٹریل نہیں مانگی۔ ماضی میں ان کے الزامات جھوٹے بھی ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ میں معافی مانگی ہے۔ اب وہ سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسے الزامات لگا رہے ہیں۔‘‘

امجد شعیب ان کا کہنا تھا، ”عاصم سلیم باجوہ کو چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے سے بالکل استعفی نہیں دینا چاہیے۔ وزیر یا معاون بن کر انسان تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن سی پیک اتھارٹی میں تو وہ ملازم ہیں، جہاں ان پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور وہ تفتیش پر اثر انداز بھی نہیں ہو سکتے۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفے بھی عاصم سلیم باجوہ کے استعفے کے مطالبے کو بلاجواز قرار دیتے ہیں۔

ان کے خیال میں جنرل عاصم کے خلاف بدنیتی پر مبنی ایک پروپینگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے۔ ”تین وجوہات کی بنا پر یہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ پہلی یہ ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کے ایک ایسے وقت میں سربراہ رہے، جب پاکستان کے خلاف بہت پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا اور انہوں نے آئی ایس پی آر کو بہت موثر انداز میں چلایا۔ دوسرا یہ کہ ان کا تعلق آرمی سے ہے۔ تو ان کو بدنام کر کے آرمی کی ساکھ کو بھی خراب کیا جارہا ہے اور تیسرا یہ کہ وہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین ہیں۔ آج ان پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور انہیں بدنام کیا جارہا ہے لیکن کل سی پیک پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے اور اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم عاصم سلیم نے ان الزامات کا سامنا کیا اور اس کا موثر جواب دیا۔‘‘

معروف تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے خلاف صرف الزامات ہیں، ”اور یہ الزامات بھی سوشل میڈیا پر لگائے گئے۔ اس کے باجود انہوں نے ان الزامات کا بھرپور جواب دیا۔ اپنے اور اپنے گھر والوں کے حوالے سے وضاحت کی۔ اب ان سے ان کے بھائیوں کے حوالے سے تو سوالات نہیں کیے جا سکتے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس منی ٹریل اور دوسری چیزیں ہیں۔ یقینا وہ یہ سب کچھ کسی اخبار کو تو نہیں دے سکتے۔ اگر کوئی قانونی فورم ان سے پوچھے گا تو وہ جواب دیں گے۔ تو میرے خیال میں ان کے استعفے کا مطالبہ بالکل بلاجواز ہے۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے