بابو سر ٹاپ سے نظر آنے والے دیامر کے سندھ میں بہتے آنسو

[pullquote]دیامر کا تعارف [/pullquote]

قراقرم ہائی وے پر واقع ضلع دیامر خیبر پختونخوا سے جڑا ہوا گلگت بلتستان کا پہلا ضلع ہے ۔ دیامر 1974 سے قبل گلگت میں شامل تھا۔ 1974 میں اس کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ نانگا پربت کو مقامی زبان میں دیامری کہتے ہیں ، اسی نسبت سے اس کا نام دیامر رکھا گیا ۔خیبر پختونخوا کا بلند سیاحتی مقام بابو سر ٹاپ ، بلتستان کو خیبر پختونخوا سے جدا کرتا ہے جہاں سے ضلع دیامر کی حد شروع ہوتی ہے ۔ اس کا صدر مقام چلاس ہے ۔ دریائے سندھ کے ساتھ بسا ہوا یہ شہر تاریخی اعتبار سے بہت ہی اہم ہے ۔ پہاڑوں سےگزرتی ہوئی شاہراہ قراقرم کے آس پاس کی چٹانوں اور پتھروں پر علاقے کی تاریخ اور بلخصوص بدھا سے متعلق پہاڑوں پر نقش و نگار کا تعلق 7 ہزار قبل از مسیح سے لے کر 16 صدی عیسوی تک کے مختلف ادوار سے ہے۔ یہ آثار حملہ آوروں، تاجروں اور زائرین کی یادگار ہیں جنھوں نے اس قدیم تجارتی راہدری میں سفر کیا۔ یہ گلگت بلتستان کا واحدضلع ہے جو اکژیتی سنی آبادی پر مشتمل ہے ۔ علاقے کا رہن سہن ، مذہبی عقائد اور کلچر بلتستان کے دیگر اضلاع سے مختلف جب کہ کوہستان سے زیادہ قریب ہے – اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سید نور شاہ ، جن کو غازی بابا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ان کی تبلیغ سے اس علاقے کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ چلاس میں شینا زبان بولی جاتی ہے۔ اگرچہ چلاس مختلف ادوار میں کشمیر سمیت کئی دیگر راجاؤں کی زیر نگرانی رہا لیکن چلاسیوں نے کبھی بھی باہر سے آئے لوگوں کے رسم و رواج کو قبول نہیں کیا۔

[pullquote]سیاست [/pullquote]

تین تحصیلوں چلاس ، داریل اور تانگیر پر مشتمل ضلع دیامر کی آبادی لگ بھگ 2،20000 ہے ۔ دیامر گلگت بلتستان اسمبلی کے چار حلقوں پر مشتمل ہے . ان میں حلقہ نمبر 15، 16، 17اور 18 شامل ہیں ۔ جی بی 15 تا 18 کے حلقوں پر مشتمل اسمبلی کی چار سیٹوں پر گزشتہ الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے تین امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ ایک سیٹ پر جمعیت علماء اسلام ف کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔ عام طور پر انتہائی مذہبی سمجھے جانے والا علاقے دیامر میں روایتی سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہی الیکشن ہوتا ہے ۔

[pullquote]بجلی اور پانی کا مسئلہ[/pullquote]

پاکستان کا دیامر بھاشا ڈیم اپنی تعمیر مکمل ہونے پر ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہوگا جس سے 4800 میگاواٹ کے قریب بجلی حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی ہے ۔ لیکن اس منصوبے کے حوالے سے وقت کا تعین تاحال نہیں ہو سکا۔ دیامر کے علاقے میں بجلی پیدا کرنے کی اتنی صلاحیت کے باوجود پورا علاقہ لوڈ شیڈنگ میں ڈوبا رہتا ہے – دیامر گرمی اور سردی کے موسم کے حوالے سے سخت شمار ہوتا ہے- تاہم ابھی تک کئی علاقوں میں بجلی نہیں پہنچائی جا سکی اور جہاں بجلی کی سپلائی موجود بھی ہے وہاں بھی کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ جاری رہتی ہے ۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح دیامر میں بھی پانی کی زمینی سطح اور چشموں کی روانی کو متاثر کیا ہے. ہر سال بارش کے پانی کا بڑا حصہ یا تو ضائع ہو جاتا ہے یا سیلاب کی شکل میں آبادیوں کو متاثر کرتا ہوا آگے نکل جاتا ہے ۔پانی کی سپلائی اور اس کو محفوظ کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی بڑا منصوبہ سامنے نہیں آ سکا ۔ تاہم دیامر بھاشا ڈیم علاقے میں ترقی و خوشحالی لانے کا ایک بڑامنصوبہ سمجھا جا رہا ہے ۔ ابتدائی طور پر متاثریں ڈیم کی زمینوں اور املاک کا معاوضہ ادا کیا گیا ہے لیکن بعد میں زمین کی ادائیگیوں میں مختلف قبائل کے آپس میں جھگڑے باعث کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔جبکہ دوسرے مرحلے میں متاثرین کی آبادی کی مد میں وفاقی حکومت اور واپڈا نے 13 ارب روپے ضلعی انتظامیہ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 4128 متاثرہ گھرانوں کی تعداد آباد کاری کا عمل جاری ہے۔وفاقی حکومت اور واپڈا نے متاثرین کی آبادکاری کے لئے چلاس ہرپن داس میں متاثرین ڈیم کے لئے 4000 کنال اراضی حاصل کی ہے جہاں پانی بجلی سکول شاپنگ مال اور مساجد کی تعمیر کی گئی ہے .متاثرین کی آباد کاری کا عمل تیزی سے جاری ہےتاہم ڈیم کی حدود جو دیامر اور کوہستان کے مابین وجہ تنازعہ ہے اس کا حل ابھی تک نہیں نکالا جا سکا.

[pullquote]صحت اور پینے کے صاف پانی کا مسئلہ [/pullquote]

صحت کے حوالے سے ضلعی ہیڈکواٹر چلاس میں واقع آر ایچ کیو ہسپتال میں طبی ضروریات کی کمی کا سامنا ہے. چلاس اسپتال میں اکثر حادثات کے مریض لائے جاتے ہیں تاہم ایمرجنسی کی حالت انتہائی خراب ہے.گندگی اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریض مزید بیمار ہو جاتا ہے. اسپتال کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے.واش روم تباہ حال ہیں . اسپتال قیام سے اب تک سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ انتظامی بحران کا بھی شکار ہے۔ہر شعبے میں ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال کا انحصار پیرا میڈیکل سٹاف پر ہے ۔ اسی طرح خواتین اور بچوں کی صحت کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں ۔ ہسپتال میں کوئی خاتون گائنا کولوجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے گائنی کیسز کو گلگت یا ملک کے دوسرے شہروں میں منتقل کرنا پڑتا ہے ۔ اور اس دوران زچہ و بچہ کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چلاس شہر کو پانی کی سپلائی قریبی نالہ بٹوگاہ سے ہوتی ہے . محکمہ واسا کے جانب سے چلاس شہر میں موجود واٹر ٹینک کی بروقت صفائی نہ ہونے کی وجہ سےکئی بار چوہے، بلیاں اور مینڈک واٹر ٹینک میں مردہ حالت میں دیکھے گئے ہیں . شہری مضر صحت اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہو تے ہیں- اسی طرح ضلع میں صحت کی بنیادی مراکز اور طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں .

[pullquote]تعلیم کا مسئلہ .[/pullquote]

تعلیم کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ادارے الف اعلان کے مطابق دیامر میں تعلیمی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ پاکستان کے 154 اضلاع میں دیامر تعلیمی لحاظ سے 95 نمبر پر ہے ۔ سال 2018 میں دیامر میں لڑکیوں کے 6 سکولوں سمیت 12 سکول جلا دیے گئے تھے ۔ بلخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کافی مشکلات ہیں ۔ دیامر میں فی میل ایجوکیشن کے لحاظ سے ملک کے سب سے کم اضلاع کی فہرست میں شامل ہے۔لڑکیوں کے سکول یا تو موجود ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو سہولیات کی کمی کا شکار ہیں ۔

[pullquote]سڑکوں کی صورتحال [/pullquote]

دیامر کے ہیڈ کوارٹر سمیت تمام علاقوں کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں. محکمہ ورکس کی طرف سے روڈ کی تعمیر اور منٹیننس کے نام پر سالانہ کروڑوں روپے کے ٹھیکے دیے جاتے ہیں ۔ مگر کرپشن کی وجہ سے یا تو سڑکوں کی تعمیر ہوتی ہی نہیں ہے اور اگر سڑکیں تعیر بھی ہو تو ناقص میٹیریل سے تیار ہوتی ہیں اور ایک ہی بارش ان کو بہا لے جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ گلیوں اور سیوریج کے نالوں اور گٹروں کی صورتحال بھی ابتر ہے ۔ ترقیاتی سکیموں کے نام پر لاکھوں روپے خرد برد ہو جاتے ہیں ۔

[pullquote]پارلیمان اور عوامی مسائل [/pullquote]

پارلیمانی معاملات ہوں یا انتظامی معاملات ، علاقے کے لوگ اس بات سے ناخوش ہیں کہ ان کے علاقے کے متعلق فیصلے کرنے کے لئے باہر سے بیوروکریسی تعینات کی جاتی ہے ۔ اسی طرح دیامر بھاشا ڈیم جیسے بڑے فیصلے بھی اسلام آباد میں طے ہوتے ہیں ۔ جب کی ان تنازعات کے حل کے لیے مقامی سطح پر کوششیں زیادہ بہتر ثابت ہو سکتی ہیں ۔ دیامر میں گزشتہ دونوں انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن یا جے یو آئی ف کے نمائندوں نے الیکشن جیتا ۔ تاہم اجتماعی فیصلوں اور ترقیاتی سکیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں بے چین پائی جاتی ہے .

[pullquote]سیاحت[/pullquote]

دیامر گلگت بلتستان کا گیٹ وے ہے ۔ ہر سال لاکھوں سیاح دیامر سے ہوتے ہوئے گلگت ، کریم آباد ، ہنزہ ، نگر اور خنجراب میں واقع چائنا بارڈر تک جاتے ہیں ۔ جب کہ دوسری طرف سکردو ، غذر اور شنگریلا کی گزرگاہ بھی دیامر ہی ہے ۔ یہاں کے مشہور سیاحتی مقامات میں فیری میڈوز، نانگا پربت ، ستل تانگیر ، آٹھ داریل سمیت کئی مقامات سیاحوں کے لئے باعث کشش ہیں۔ اسی طرح تاریخی پہاڑیاں نقش و نگار اور بدھا سے متعلق پہاڑوں ، چٹانوں اور پتھروں پر کندہ عبارات اور تصاویر تاریخ دانوں ، سائنس دانوں ، آرکیالوجسٹس کے لیے معلومات کا ایک خزانہ ہیں۔ لیکن قابل افسوس یہ ہے کہ دیامر ابھی تک ایک سیاحتی مقام نہیں بن سکا ۔ کیونکہ عام طور پر دیامر کے بارے میں یہی مفروضہ عام ہے کہ اس علاقے کا کلچر گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مقامیت پسند ہے ۔

[pullquote]دیامر کے مسائل کا حل [/pullquote]

دیامر میں سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو بڑھایا جائے .

دیامر میں سیاحت کو فروغ دیا جائے اور سیاحوں کو خوبصورت مقامات تک رسائی دی جائے.

دیامر کا چلغوزہ بین الاقوامی معیار کا ہے ، اس کی عالمی سطح پر پروموشن کی جائے . اس سے کاروبار اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے.

نواجوانوں کے لیے کھیل کے گراؤنڈ، فیملی پارک اور سماجی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ہال بنائے جائیں.

غیرت کے نام پر قتل ایک قبائلی رواج بن چکا ہے۔ اس کا واحد حل مقامی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کو عام کرنا ہے۔ تعلیم ہی شعور دیتی ہے ۔ جوں جوں آگاہی بڑھتی رہے گی ۔ یہ معاشرتی برائیاں ختم ہوتی جائیں گی۔

قبائلی تنازعات بھی عام ہیں ۔ یہاں چونکہ مذہبی رجحانات ذیادہ ہے ۔ اس لئے لوگ مقامی مذہبی علماء کی رائے کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ قامی قبائلی تنازعات کو حل کرنے کے لئے علماء کا تعاون حاصل کیا جائے ۔

ڈسٹرکٹ ہسپتال کو اپ گریڈ کرکے ڈاکٹرز تعینات کئے جاسکتے ہیں۔ اسپتال کا بجٹ بڑھایا جائے تا کہ اسپتال میں بنیادی علاج کی پر سہولت موجود ہو۔ گائنی ڈاکٹر کی تعیناتی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔

دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ دیامر کے بڑے نالہ جات میں پانی کے منصوبے لگائے جاسکتے ہیں۔اسی طرح پانی کے بہاؤ کو استعمال کرتے ہوئے پن بجلی کے چھوٹے منصوبے بھی لگائے کا سکتے ہیں ۔ علاقے کی تعمیر و ترقی کا مستقبل دیامر بھاشا ڈیم سے جڑا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم میں مقامی افراد کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں۔ ان کی تربیت کی جائے .

متاثرین بھاشا ڈیم کی آبادکاری اور ان کی املاک کے معاوضے کا مسئلہ جلد سے جلد حل کیا جائے ۔ اسی طرح دیامر اور کوہستان کے مابین ڈیم کے حوالے سے جو حدود کا تنازع ہے اس کو مقامی جرگوں کے زریعے حل کیا جائے ۔

جنگلات نہ صرف علاقے کا حسن ہیں ۔ بلکہ ماحول کو سازگار رکھنے کے لئے بھی اہم ہیں ۔ اس لئے جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لئے قابل عمل منصوبہ بنایا جائے ۔ تا کہ اس قیمتی نعمت کو بچایا جا سکے ۔ یہی جنگل ، جنگلی حیات کی زندگی کے ضامن ہیں ۔ اداروں کو اس بارے میں پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے علاقے کی دیگر سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ تتہ پانی کے لئے متبادل روڈ بنایا جائے۔

[pullquote]یہ مضمون آئی بی سی اردو کے زیر اہتمام فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے اشتراک سے منعقدہ ورکشاپ کے دوران چلاس کے صحافی محمد قاسم اور تحقیق میں امجد قمر نے معاونت کی ہے. ورکشاپ میں انتخابات سے پہلے "گلگت بلتستان کے ترقیاتی منشور ” کی تیاری کے بارے میں صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا . مکالمہ کے رپورٹ آپ اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں .

.[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے