پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج پارلیمان کی کارروائی کو پاؤں تلے روندا گیا اور اسپیکر اسد قیصر نے ہماری ترامیم پر بحث ہی نہیں ہونے دی، اپوزیشن ایف اے ٹی ایف سے متعلق 12 بلوں کی حمایت کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود ہماری حق بجانب ترامیم کو مسترد کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے بلوں کی منظوری میں اپوزیشن نے پاکستان کے مفاد کا ساتھ دیا، ہم نے ایف اے ٹی ایف پر 12 بل پاس کیے، اس پر پوری اپوزیشن جماعتوں نے پاکستانیت کا ثبوت دیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں اسپیکر کے ڈائس تک گیا مگر انہوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی، اسپیکر نے آج ریڈ لائن عبور کرلی، آج پہلی مرتبہ اپوزیشن لیڈر کو بھی ایوان میں بات نہیں کرنے دی گئی، آج اسپیکر نے مجھ سے آنکھیں ملانے سے انکار کر دیا، جمہوری تاریخ میں آج ایک سیاہ دن ہے، آج اسپیکر کا رویہ سلیکٹڈ وزیر اعظم کی ہدایات پر تھا، اسپیکر نے تمام پارلیمانی روایات کو روند دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک کالا قانون منظور کرنا چاہتے تھے، یہ 180 دن کے لیے کسی کو بھی بغیر اطلاع گرفتار کرنا چاہتے تھے، پہلے اجلاس پر بحث ہو سکتی ہے، اسپیکرنے وہ بھی نہ کرنے دی، یہ لوگ کہتے تھے کہ یہ این آر او مانگتے تھے، اپوزیشن تو پہلے ہی نیب کا شکار ہے، اپوزیشن تو پہلے ہی نیب کو حوصلے سے برداشت کر رہی ہے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ اسپیکر حب میٹنگ بلاتے تھے تو ہمارے نمائندے جاتے تھے، ہم نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا لیکن اسپیکر نے ہم سب کو بہت زیادہ مایوس کیا، اے پی سی میں ہم سب بیٹھ کر حکومت کے حوالے سے فیصلہ کریں گے، ہم پتہ کروا رہے ہیں کہ کون کون ایوان سے غیر حاضر رہا۔
[pullquote]میرے سامنے ایک ہی راستہ عدم اعتماد کا ہے : بلاول [/pullquote]
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم سب یہاں پورے پاکستان سے منتخب ہو کر آئے ہیں، اہم قانون سازی تھی جس کے نتائج پورے ملک پر مرتب ہوں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ سب غیر آئینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر کے پاس اجازت نہیں ہے کہ وہ قائد حزب اختلاف کو روک سکیں، اسپیکر نے نہ صرف روکا بلکہ کسی کو بات نہیں کرنے دی، ہم نے جو پہلا اعتراض کیا تھا وہ حکومت کی مدد اور سمجھانے کے لیے کیا تھا، سمجھانے کی کوشش کی کہ عدالت کے فیصلے کے بعد کوئی مشیر بل پیش نہیں کرسکتا، میں نے اتنا غیر جمہوری رویہ کبھی نہیں دیکھا۔
بل کے حوالے سے بلاول کا کہنا تھا کہ انہوں نے اب عوام کے وارنٹ کے حق کو ختم کیا ہے، اب پولیس کو کسی کو گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ کی ضرورت نہیں ہو گی، ایک محب وطن ہوتے ہوئے ہم ترامیم پیش کرنا چاہ رہے تھے لیکن ایسا رویہ ایوان کا ماحول خراب کر دیتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے اس ڈر سے دوبارہ گنتی نہیں کرائی کہ وہ ایکسپوز ہوجائیں گے، میرا مطالبہ رہا ہے کہ ایسے معاملے پر ایک بڑا مشترکہ اجلاس ہونا چاہیے تھا، اب ہمیں سخت فیصلے کرنا پڑیں گے تاکہ جمہوریت بحال ہو، آج پاکستان کی جمہوری تاریخ پر ایک بڑا حملہ ہوا ہے، ہمیں شک ہے کہ حکومت نے آج ایڈوائزرز کو ووٹ میں شامل کیا، حکومت کو دوبارہ گنتی میں کیا مسئلہ تھا؟ ہم سب مشترکہ اپوزیشن اس پر سخت اعتراض کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مل کر ٹھوس فیصلہ لینا ہوگا کہ کیسے ہم اس کو درست کر سکتے ہیں، میرے سامنے ایک ہی راستہ عدم اعتماد کا ہے۔
خیال رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ہدایات کی روشنی میں اہم معاملات پر قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود انسداد دہشت گردی تیسرا ترمیمی بل 2020، اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2019 اور اسلام آباد وقف املاک بل 2020 کثرت رائے سے منظور کرلیے گئے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انسداد منی لانڈرنگ ترمیمی بل کی منظوری کا عمل شروع ہوا تو مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان اور ملیکہ بخاری کی پیش کردہ شقوں کو منظور کرلیا گیا جبکہ اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔